اماں بی کے پاس کسی زمانے میں بہت سا سونا تھا۔ وہ زیورات اب انہوں نے اپنی اکلوتی پُت بہو بشریٰ کے سپرد کردیے تھے۔
میرا چوک سے گزر ہوا تو دیکھا کہ جہاں کئی پھل فروش اپنی اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں، وہ بچہ نیچے گرجانے والے پھلوں کو اٹھا کر ایک شاپر میں ڈال رہا ہے۔
مغرب کے اذان شروع ہوئی۔ میں نے مصلی اٹھایا نماز کے لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی وضو میں پہلے ہی بنا چکی تھی۔
’’مس! مجھے میری بچی کا ایڈمیشن کروانا ہے، آپ کے اسکول میں۔‘‘ عاکفہ استقبالیہ پر بیٹھی مس نزہت سے بولی۔
میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ میں بہت خوب صورت ہوں۔ گورا رنگ، تیکھے نین نقش۔۔۔ ماں نے بہت لاڈوں سے پالا تھا مگر گھر کے ہر کام میں بھی طاق کردیا تھا۔
کتنے ہی لوگوں کو ہم جانتے ہیں جو ایک ’بھرپور‘ زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوچکے۔
جب ہمیں اللہ تعالی نے دنیا میں بھیجا تو ہم سے پہلے چار انتہائی عقل مند بہن بھائی تشریف لاچکے تھے اور تین بہن بھائی ہمارے بعد دنیا میں ظہور پذیر ہوئے۔