حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ؛ سوانح و خدمات

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ؛ سوانح و خدمات

محترم عالم، فقیہ وقت مولانا اشرف علی بن عبدالحق حنفی تھانوی بڑے ممتاز و اعظم، اپنی فضیلت اور بزرگی میں مشہور تھے۔

آپ کی پیدائش ۵ربیع الآخر سنہ ۱۲۸۰ھ میں مقام تھانہ بھون میں ہوئی (جوکہ مظفرنگر کے مضافات میں سے ہے۔) آپ نے ابتدائی کتابیں مولانا فتح محمد تھانوی اور مولوی منفعت علی دیوبندی سے پڑھیں۔ منطق وحکمت کی اکثر کتابیں اور فقہ و اصول کی بھی کچھ کتابیں مولانا محمودحسن دیوبندی محدث سے پڑھی۔ حدیث کی کتابیں مولانامحمود سے اور فنون ریاضی ومیراث شیخ سیداحمددہلوی سے اور علوم حدیث وتفسیر مولانا یعقوب بن مملوک علی نانوتوی سے پڑھیں۔ یہ ساری کتابیں دارالعلوم دیوبند میں پڑھیں، وہاں سے آپ حج و زیارت مقامات مقدسہ کے لیے حجاز اقدس تشریف لے گئے۔

سلوک وطریقت
حضرت حاجی امداداللہ تھانوی جو مکہ مکرمہ میں ہجرت کی نیت سے تشریف لے گئے تھے (اسی لئے مہاجر مکی کے نام سے مشہور تھے) حضرت تھانوی نے آپ سے سلوک وطریقت حاصل کیا اور ایک زمانہ تک وہیں آپ کی صحبت میں رہے۔ پھر ہندوستان لوٹ آئے اور مدرسہ جامع العلوم کانپور میں عرصہ دراز تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ساتھ ہی اذکار و اشغال تصوف میں بھی مشغول و مصروف رہے، یہاں تک کہ آپ پر حال غالب آگیا تو آپ نے تدریس کے شغل کو موقوف کردیا اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں تشریف لے گئے۔

مولانا اشرف علی نے دوبارہ حجاز مقدس کا سفر کیا اور وہاں اپنے شیخ محترم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے، پھر ہندوستان واپس تشریف لاکر سنہ ۱۳۱۵ھ کے ماہ صفر کے آخری دنوں میں اپنے وطن خاص میں مقیم ہوگئے اور مستقل وہیں رہنے لگے۔ وہاں سے انتہائی خاص موقع یا ضرورت علاج کے بغیر باہر کبھی تشریف نہیں لے گئے، وہاں عام مسلمانوں کی تربیت و ارشاد واصلاح نفوس اور تذہیب الاخلاق کے معاملات میں مرجع خلائق ہوگئے۔ خواہشمند حضرات بالقصد دور اور قریب سے آپ کی خدمت میں آنے لگے۔ مریدین کی تربیت اور طالبین کی ہدایت اور نفوس کی باطنی برائیوں پر اطلاع، اور شیطانوں کے بدن میں داخل ہونے کے راستوں پر تنبیہ، اور پوشیدہ بیماریوں کی دواؤں اور نفسانی بیماریوں کا علاج کرتے رہے۔
یہ ساری باتیں اپنے مقام میں رہ کر بتائیں؛ ان باتوں کے لئے آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، لوگ از خود آپ کے پاس آتے۔ آپ کے حجرہ میں آنے والوں اور آپ کی مجلسوں سے مستفید ہونے کے لئے بہت سی شرطیں اور قیود ہوتیں کہ ان کا خیال رکھنا لازم ہوتا اور آپ کی طرف سے آنے والے اور وہاں رہنے والوں کے لئے کسی قسم کا کوئی اہتمام نہ ہوتا بلکہ وہ از خود اس کا انتظام کرکے اقامت کرتے۔ البتہ کچھ فضلائے کرام اور مخصوص لوگوں کی دعوتوں کا انتظام فرماتے، اتنی سختیوں کے باوجود دور دور سے ضرورت مند حضرات آتے رہتے اور اپنے اخراجات خود برداشت کرتے۔

شب و روز کے معمولات
آپ کو اوقات کی پابندی کا خیال بہت زیادہ رہتا، ان میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا۔ انتہائی مجبوری کی صورت کے سوا کسی قسم کا کسی کے ساتھ استثناء نہ ہوتا، چنانچہ صبح کی نماز کے بعد آپ اپنے ذاتی مشاغل میں لوگوں سے کنارہ کش ہوکر تصنیف وتالیف میں یکسوئی کے ساتھ مشغول رہتے، ان اوقات میں آپ سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ مصروفیت اس وقت تک رہتی کہ آپ کھانا کھا کر قیلولہ فرماتے اس کے بعد ظہر کی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ جب نماز ظہر پڑھ کر فارغ ہوتے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ آپ کے پاس آئے ہوئے تمام خطوط پڑھ کر ان کا مناسب جواب خود دیتے یا لکھواتے، ان میں سے خاص خاص لوگوں کو سناتے اور ان سے اس سلسلہ میں گفتگو فرماتے، اور ان کے بعض نکتوں اور لطائف کو لوگوں کو سمجھاتے۔ آپ کی گفتگو لوگوں کے اذہان کی تصریح اور ہمنشینوں کے لئے حصول لذت کا سامان ہوتی، اس انداز سے کہ لوگ اس سے نہ تھکتے، نہ تنگدل ہوتے، اسی وقت میں آپ خواہشمندوں کے لئے دعائیں اور تعویذ بھی تحریر فرمادیتے۔ جب عصر کی نماز پڑھ لیتے لوگوں سے قطع تعلق کرلیتے اور اس وقت اپنے گھر اور خانگی معاملات اور مصروفیتون کی طرف متوجہ ہوتے یہاں تک کہ آپ عشاء کی نماز سے فارغ ہوجاتے۔

مجالس وعظ و نصائح
آپ ان بڑے اور ربانی علماء کرام میں سے تھے جن کی مواعظ اور تالیفات سے اللہ تعالی نے بہت سے لوگوں کو فائدے پہنچائے ہیں۔ آپ نے جتنی مجلسوں میں لوگوں کو وعظ ونصائح فرمائے ان کی تعداد لوگوں نے چار سو تک رسائل میں تحریری طور پر شمار کی ہیں اور وہ سب مواعظ لکھ کر مکمل محفوظ کرلی گئی ہیں، مجلسوں میں جتنی بھی نصیحتیں آپ نے فرمائیں اور اس سلسلہ کی کتابیں تحریر فرمائی ہیں عقیدہ اور عمل کی اصلاح سے متعلق ہیں جن سے ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمانوں نے فائدہ اٹھایاہے۔ اور ان کی وجہ سے بے شمار انسانوں نے اپنی پرانی خراب عادتیں اور جاہلی تقلید اور بدعتوں کو چھوڑ کر توبہ کی جو کہ مسلمانوں کی زندگی میں اور گھروں کی خوشی و غمی میں شامل ہوگئی تھیں جوکہ کفار اور بدعتیوں اور خواہشوں کی اتباع کرتے رہنے والوں کے ساتھ مستقل رہنے کی وجہ سے ان میں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ نے شریعت پر عمل کرنے، سلوک و طریقت پر چلنے، اپنے اصل مقاصد کو بے شمار ذریعوں اور وسیلوں سے چھان پھٹک کرنے، اصل دین کو گندگیوں اور زوائد سے پاک کرکے ان پر چلنے کو آسان تر کردیا ہے۔
آپ کو لوگوں کو معارف الہیہ تک پہنچانے میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ اسی طرح اس زمانہ میں تصنیف و تالیف اور تذکیر و مواعظ کرنے میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ آپ کو خدا تعالی کی طرف سے جو یہ شرف مقبولیت حاصل تھی وہ موجود دور کے علماء و فضلاء کو عنایت نہیں ہوئی۔ میں نے خود آپ سے کچھ یہ کتابیں پڑھی ہیں یعنی کتاب اصول الشاشی کا کچھ حصہ، کافیہ، شرح جامی اور امام رازی کی شرح شمسیہ کا کچھ حصہ۔

تصانیف
آپ کی بے شمار تصنیفات وہ ہیں جو چھوٹی بڑی رسائل اور بڑی ضخیم کتابوں کی صورت میں موجود ہیں۔ بعض حضرات نے ان کو شمار کیا تو وہ تقریباً آٹھ سو نکلی ہیں جن میں سے بارہ کتابیں عربی ہیں؛ چند یہ ہیں: (۱) انوار الوجود فی اطوار الشھود، (۲) التجلی العظیم فی احسن تقویم، (۳) سبق الغایات فی نسق الآیات و غیرہ ہیں اور آپ کی عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی کچھ کتابیں ہیں جو کہ یہ ہیں: (۱) الاکسیر فی ترجمہ التنویر، (۲) التادیب لمن لیس لہ فی العم و الادب نصیب، (۳) تحذیر الاخوان عن تذویر الشیطان، (۴) القول البدیع فی اشتراط المصر للتجمیع، (۵) القول الفاصل بین الحق و الباطل، (۶) تنشیط الطبع فی اجراء القراء ت السبع، (۷) بیان القرآن فی الترجمہ والتفسیر تیس پاروں میں، (۸) التکشف عن مھمات التصوف، (۹) تربیۃ السالک و تحیۃ الھالک، (۱۰) حیات المسلمین، (۱۱) تعلیم الدین، (۱۲) البوادر و النوادر، (۱۳) اصلاح الرسوم، (۱۴) مجامیع کثیرۃ لمجالسہ و کلامہ و لمواضعہ۔

بہشتی زیور
ان میں سے ایک کتاب بہشتی زیور بھی ہیں جوکہ در اصل لڑکیوں کی تعلیم کی غرض سے لکھی گئی لیکن اس کے ضمن میں کچھ ایسے فقہی مسائل بھی اس میں بڑھادیئے گئے جن کی اکثر و بیشتر بہت زیادہ ضرورت پیش آتی ہے۔ ان کتابوں کے مقابلہ میں اس زمانہ میں دوسری شاید ہی ایسی کوئی کتاب ہو، یہ کتاب اتنی زیادہ مرتبہ شائع کی گئی ہے جن کو شمار کرنا ممکن نہیں۔ (تقریباً ہر بڑے کتب خانے والے نے اس کی خود اشاعت کی ہے۔ قاسمی)

حلیہ اور وضع قطع
آپ کی شکل و صورت بہت ہی نورانی تھی، رنگ کے اعتبار سے سفید مگر سرخی مائل تھے۔ قد کے اعتبار سے مردوں میں درمیانہ قد کے تھے۔ آپ کا لباس عمدہ ہوتا مگر ان میں زیادتی، خوبصورتی اور اسراف نہ ہوتا۔ شیریں زبان، لوگوں سے تعلق بہت عمدہ تھا جس میں بے تکلفی بھی ہوتی، ساتھ ہی رعب بھی ہوتا، وقار، سنجیدگی اور وزن بھی ہوتا، مقولے، اشعار دلچسپ واقعات آپ کو بہت زیادہ محفوظ تھیں، جابجا اپنے اقوال و مواعظ میں آیات قرآنیہ کو بھی بر وقت دلیل کے طور پر ذکر فرماتے۔
آپ مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی کے اشعار اپنے مواعظ اور مجلسوں میں بہت ہی مناسبت کے ساتھ پیش کرکے اپنی بات کو مدلل فرماتے۔ لوگوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتے اور بہت زیادہ خیال کے ساتھ حق داروں کے حقوق کو ان تک پہنچانے اور لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات کو درست رکھنے کا پورا خیال رکھتے، ان کاموں کو انجام دینے میں ذرہ برابر سستی یا غفلت برداشت نہ کرتے۔
آپ نے سنہ ۱۳۳۶ھ کی ۱۶ رجب کو وفات پائی، اس وقت آپ کی عمر بیاسی (۸۲) برس ہوچکی تھی۔ آپ تھانہ بھون میں ہی دفن فرمائے گئے۔

نزہۃ الخواطر (اردو)، آٹھویں جلد

 

 

 


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ؛ سوانح و خدمات

  1. abdul qayyum says:

    allah in logo ka darja buland farmay

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں