اسلام میں عبادت کا تصور

اسلام میں عبادت کا تصور

تمام مذاہب میں عقائد کے بعد سب سے زیادہ اہمیت عبادت کو دی گئی ہے ۔درحقیقت یہ دونوں ایک دوسرے کے ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ پہلے کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ رتبہ کے اعتبار سے ایک کو دوسرے پر تقدم حاصل ہے۔عقیدہ عبادت کا محرک،اس کا سبب اور اس کی علت ہے ۔اور عبادت اس کی غذا ، اس کا ثبوت اور اس کاجسد ہے۔ اسی لیے یہ برابر دیکھنے میں آتا رہتا ہے کہ جتنی کمی یا کمزوری کسی شخص کی عبادت میں ہوتی ہے وہ دلیل ہوتی ہے اسی کے عقیدہ میں اس قدر کمی یا کمزوری کی ،خواہ اس کی فطرت کی خود فریبی اسے تسلیم کرنے سے کتنا ہی گریز کیوں نہ کرے ،عقیدہ درخت ہے اور عبادت اس کا پھل۔اور درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ۔

اسلام کی خصوصیت اس بارہ میں یہ ہے کہ دین کے مختلف شعبوں کی طرح اس نے عبادت کے مفہوم اور اس کے طریقوں کے متعلق بھی ایک ایسا جامع ،واضح اور منضبط ہدایت نامہ پیش کیا جو ہر اعتبار سے بے نظیر ہے۔ چناں چہ اگر دنیا کے کل مذہبوں کے بانیوں اور داعیوں کے تعلیم و عمل کا مطالعہ اس پہلو سے کیا جائے کہ عبادت کے معنی پر کوئی تشفی بخش روشنی پڑ سکے ۔اور اس کے بہترین طریقوں کا علم حاصل ہو سکے تو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ایک ایسی نظر آئے گی جو واضح حقیقت کی طرف راہ نمائی کر سکے ۔

اسلامی عبادات کا اولین طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ تنہا خدا کی اور تنہا خدا کے لیے ہوتی ہے، جس میں کسی دوسرے کو کسی بھی نوعیت سے شریک نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اس میں نہ تو پیغمبر کا کوئی حصہ ہے، نہ ان کے گھر والوں کا اور نہ فرشتوں کا اور نہ ولیوں اور شہیدوں کا ،اسلام کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ خدا کے علاوہ نہ تو زمین پر اور نہ آسمانوں میں کوئی شے یا ہستی ایسی ہے جو پرستش کے لائق ہے جس کے سامنے انسان اپنی گردن جھکائے اور جس کی بارگاہ میں اپنی روح اور اپنے ضمیر کی انتہائی گہرائیوں سے نکال کر بند گی اور عبودیت کا نذرانہ پیش کرے۔

﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ﴾(سورہ الانعام:162)
ترجمہ:بلاشبہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اسی ایک اللہ کے لیے ہے جو کل جہانوں کا پروردگار ہے ۔

﴿إِن کُلُّ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا﴾․(سورہ مریم:93)
ترجمہ:زمین و آسمان میں جو کوئی بھی ہے وہ ضرور ایک دن اسی مہربان خدا کے سامنے غلام بن کر آنے والا ہے۔

عبادت کی اصل غایت بندہ کا خالق کے سامنے بندگی و بے چارگی کا اظہار، اس رحمن و رحیم کی یاد ،اس کے بے نہایت احسانوں کا شکریہ ،اس کی حمدو ثنا اور اس کی بڑائی اور یکتائی کا اقرار ہے ۔اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ اس میں خالق مطلق کا کوئی فائدہ ہے ،یااس سے اس کی عظمت و کبریائی میں اضافہ ہوتا ہے ،(ایک حدیث شریف میں ہے کہ ”اگر کل جہان کے لوگ اعلیٰ درجہ کے پرہیز گار اور عبادت گزار ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی بڑائی میں ذرہ برابر زیادتی نہ ہوگی اور اگر سب کے سب بدترین درجہ کے نافرمان اور فاسق و فاجر ہو جائیں تو اس کی عظمت اور بزرگی میں ذرہ برابر کمی نہ ہوگی)بلکہ اس وجہ سے کہ اس میں بندہ ہی کا خاص الخاص فائدہ اور اس کی تخلیق کی تکمیل ہے ،کیوں کہ دل و دماغ اور نفس و روح میں صفائی و پاکیزگی پیدا کرنے اور بندہ کو خدا سے قریب کرنے اور اس کی خاص رضا و رحمت کا مستحق بنانے کا عبادت کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے ۔

چناں چہ عبادت کی حیثیت اصلاً اور اولاً روحانی اور ملکوتی ہے ،لیکن آج کل چوں کہ مزاجوں پر مادیت کا غلبہ ہے اور ظاہر و محسوس نفع کے علاوہ ہر چیز کا انکار فہم و دانش کی بلوغت وپہچان سمجھا جانے لگا ہے ۔اس لیے بعض حضرات اس سلسلہ کے فرائض و رسوم کی بھی تشریح دنیاوی فوائد کے زاویہ سے کرنے لگے ہیں ۔گویا کہ یہ چیزیں قدر کرنے اور اپنانے کے لائق دراصل اس وجہ سے ہیں کہ ان میں دنیوی ترقی کے کیسے کیسے راز پنہاں ہیں ،مثلاً یہ کہ نماز کی اصل حکمت یہ ہے کہ اس سے ملتکو وقت کی پابندی اور امام کی اطاعت کی تعلیم ملتی ہے ،یا روزہ قوت ارادی کو بڑھانے اور نظم و ضبط پیدا کرنے کا ذریعہ ہے ،یا حج فرض اس مصلحت سے کیا گیا ہے کہ کل دنیا کے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہو کر وقت کے مسائل پر غور کرنے کا موقع مل جایا کرے ۔

جیساکہ اوپر لکھا جا چکا ہے یہ اور اس قبیل کی تمام دوسری باتیں نتیجہ ہیں مادی نقطہ نظر سے مرعوبیت اور مادی ترقی کی پرستش کا جولوگ اس طرز سے سوچتے ہیں انہوں نے مغرب کی تقلید میں مادیت کو اپنے دل و دماغ پر اس درجہ حاوی کر لیا ہے کہ اس عالم محسوسات کے علاوہ کسی دوسرے عالم پر ان کا ایمان یا تو رہ ہی نہیں گیا ہے یا اس قدر کمزور ہوگیا ہے کہ اس کی حیثیت بس ایک رسمی عقیدہ کی ہوگئی ہے ،وہ اپنے ہی طلسم کے اسیر،اپنے ہی فریب نظر کے مارے ہوئے ہیں ۔انہوں نے مذہب و اخلاق کو بھی فلسفہٴ افادیت کے ہاتھوں رہن کر دیا ہے۔

یہاں ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ عبادت سے کوئی فائدہ ایسا نہیں حاصل ہوتا جس کا تعلق اس دنیا سے ہے ۔لیکن ان فائدوں ہی کو عبادت کا اصل مقصد قرار دے لینا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص آم کا درخت لگائے اور نظر اس کے پھلوں پر رکھنے کے بجائے یہ کہے کہ جب یہ درخت بڑا ہوگا تو اس کا سایہ کتنا گھنا ہوگا ، اس کے پتوں سے کیسی اچھی کھا د تیار ہوگی اور اس کی لکڑی کن کن مفید کاموں میں آئے گی!!!

عبادت کے صحیح طریقوں کے متعلق انسان وحی الہٰی کا محتاج ہے۔وہ اپنے عقل و حواس سے بطور خود اس کا تعین نہیں کر سکتا کہ وہ کون سے رسوم و اعمال ہیں جو تقرب الی اللہ اور تزکیہ روح کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔کیوں کہ اس کی قوت فکر بس ایک حدتک ساتھ دے سکتی ہے،اور تزکیہ روح و قرب خداوندی کے معاملات اس حد سے آگے کی چیز ہیں ۔ان معاملات میں توصحیح راہ نمائی بس وہی کرسکتا ہے جو اول و آخر بھی ہے اور ظاہر و باطن بھی ۔

اسلام سے پہلے یہ خیال عام تھا کہ خدا کو خوش کرنے کے لیے بندہ کو چاہیے کہ وہ دنیا سے روٹھ جائے ،علائق ترک کر دے اور کسی غار یا جنگل میں جا کے بیٹھ جائے ،دین داری کا کمال اس میں سمجھا جاتا تھا کہ انسان اپنے اوپر زیادہ سے زیادہ تکلیف ڈالے ،روح کی نشو ونما کا بس یہی ایک مجرب نسخہ تھا ،یعنی جسم کو آزار دینا ،اسی لیے لوگ اپنے جسم کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے ،کوئی کھانے پینے کی مرغوب چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیتا تھا ،کوئی اپنا ہاتھ خشک کر لیتا تھا ،کوئی منوں لوہا اپنے اوپر لاد لیتا تھا ،کوئی لیٹنے اور سونے سے قطعاً پرہیز کرتا تھا ،کوئی ننگے بدن صحراؤں میں مارا مارا پھرتا تھا ،کوئی وحشی درندوں کے غار ،خشک کنوئیں یا قبرستان کو اپنا مسکن بنا لیتا تھا ،کسی نے مجرد رہنے کی قسم کھا رکھی تھی ،زاہد ان مرتاض اپنے بیوی بچوں سے دغا کر کے اور ان کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ویرانوں میں حق کی روشنی تلاش کیا کرتے تھے ،اسلام نے ان غلو آمیز تصورات کی اصلاح کی ۔اس نے بتایا کہ جسم روح کا دشمن نہیں ہے ۔اور یہی نہیں ،بلکہ ان دونوں کا وجود باہم ہی زندگی کی قدرتی اساس ہے،دین کا کام سختی نہیں ،آسانی پیدا کرنا ہے ،وہ بندہ کے لیے اس حدتک ہے جو اس کی استطاعت کے اندر ہے ۔

﴿لا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفسًا إِلّا وُسعَہا ﴾․(البقرہ)
ترجمہ :خدا کسی کو اس کی گنجائش سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا۔

﴿یُرِیدُ اللَّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾(البقرة:185)
ترجمہ:خدا تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، سختی نہیں ۔

﴿وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ ﴾(الحج:78)
ترجمہ :اور تمہارے لیے دین میں خدا نے تنگی نہیں کی ۔

انسان پر اگر اس کی روح کے حقوق ہیں تو اس کے جسم کے بھی حقوق ہیں۔

اسلام اس سے انکا ر نہیں کرتا ہے کہ مادیات کی کثافتوں سے بری اور پاک ہونے اور روح کوملاءِ اعلیٰ کے فیضان کے قابل بنانے کے لیے کچھ ترک لذات اور مشقت نفس ضروری ہے،اسلامی عبادات میں سے روزے کی فرضیت اسی اصول پر مبنی ہے،لیکن جیسا کہ ان جملوں سے ظاہر ہوتا ہے روزہ مرغوبات شہوانیہ سے تعلق کم کرنے کی ایک قسم کی دوا ہے اور دوا کو ظاہر ہے کہ دواہی کی مقدار میں ہونا چاہیے ۔نہ اتنی کم کہ اس کا اثر ہی ظاہر نہ ہو سکے اور نہ اتنی زیادہ کہ زندگی بھر دوا پینے کے سوا کوئی کام ہی نہ رہے۔ چناں چہ اسلام نے سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ روزے کے لیے مقرر کیااور اس مہینہ کے بھی دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف چودہ یا پندرہ گھنٹے۔مسلمانوں سے کہا گیا کہ جس طرح تم سے پہلی والی اُمتوں کے لیے روزہ فرض کیا گیا تھااسی طرح تمہارے لیے بھی فرض کیا گیا ،ہمیشہ کے لیے یا کسی بڑی لمبی یا غیر معینہ مدت کے لیے نہیں، بلکہ چند مقررہ دنوں کے لیے ۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ أَیَّامًا مَّعْدُودَاتٍ﴾(البقرہ:183)
ترجمہ:”اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پربھی فرض کیا گیا تھا ،چند گنے ہوئے دن “۔

اور اسی کے فوراً بعد اُن رخصتوں اور آسانیوں کا بھی اعلان کیا گیا جو بعض معذوری کی حالتوں میں انسان کے لیے ضروری ہیں ،مثلاً : اگر سفر یا بیماری کی مجبوری ہے تو ان دنوں کے بجائے دوسرے دنوں میں روزہ رکھ کر گنتی پوری کر لو ۔

﴿فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیضًا أَوْ عَلَیٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾․ (البقرہ)
ترجمہ:”لیکن جو تم میں بیمار ہو یا سفر پر ہو ،تو (اس کے لیے) دوسر ے چند دنوں کی گنتی“۔

اور جن کو کسی سچی مجبوری کے باعث روزہ رکھنا قطعاً دشوار ہے اُن کو کفّارہ کی اجازت ہے۔

﴿وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ ﴾(البقرہ)
ترجمہ:”اور جو بمشکل ہی روزہ رکھ سکتا ہے وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ دے“۔

لیکن ساتھ میں یہ بھی بتایا گیا کہ قضا اور کفارہ کی اجازت کے باوجود اگر کوئی دینی ذوق و شوق کے ماتحت روزہ رکھے تو یہ نہ رکھنے اور شرعی رخصت سے فائدہ اٹھانے سے بہتر ہے۔

﴿ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ وَأَن تَصُومُوا خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾(البقرہ:184)
ترجمہ:تو جو کوئی شوق سے کوئی مزید نیکی کرے تو یہ بہتر ہے اس کے لیے اور (رخصت و اجازت کی صورتوں میں بھی،ہمت کر کے)روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہو،اگرتم جانو۔

یہی حیثیت اعتکاف کی ہے جو روزوں کے زمانے کی ایک مزید عبادت ہے ،یہ ایک امر مسلّمہ ہے کہ ذوق خدا طلبی کو اُبھارنے اورحاشیہ دینی کو ترقی دینے کے لیے یہ بہت مفید ہے کہ انسان وقتاً فوقتاً دنیوی تعلقات سے ایک حدتک اجتناب دبے نیازی اختیار کر ے اور اپنی توجہ عالم ناسوت کے بجائے عالم ملکوت پر رکھے، تاکہ دنیا کے جھمیلوں سے یکسو ہو کر وہ تھوڑی دیر کے لیے ملاءِ اعلیٰ کی پاک مخلوقات میں داخل ہو جائے اور جس طرح ان کی زندگی کا مشغلہ محض طاعت و عبادت الہٰی ہے،اسی طرح وہ بھی اتنی دیر تک اپنی زندگی کا شغل حتی الامکان یہی بنا لے ،اس کے لیے اسلام نے رمضان کیآخری دس دنوں میں معتکف ہو جانے کا طریقہ مسلمانوں کو بتایا ،مگر چوں کہ کل مسلمانوں کے اس پر پابند ہو جانے میں بہت دشواریاں تھیں اور یہ قرین مصلحت بھی نہ تھا اس لیے اسے فرض نہیں کیا گیا، بلکہ مستحسن قرار دیا گیا ۔وغیر ہ وغیرہ ۔

عبادات میں اسلام نے جو اعتدال کی تعلیم دی ہے اس کو اس واقعہ سے بخوبی سمجھا جا سکتاہے:
”آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے، جن کا نام عثمان بن مظعون تھا ،ان کی نسبت آپ کو معلوم ہوا کہ وہ دن رات عبادت میں مشغول رہتے ہیں ،دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو سوتے نہیں ہیں ،بیوی سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے ہیں ،آپ نے ان کو بلوا کر دریافت کیا کہ”کیوں عثمان!تم ہمارے طریقہ سے ہٹ گئے؟“انہوں نے جواب دیا ”خدا کی قسم! ہٹا نہیں ہوں،میں آپ ہی کے طریقہ کا طلب گار ہوں“۔ارشاد ہوا ”میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ،نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ،اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ،عثمان!خدا سے ڈرو کہ تم پر تمہارے اہل و عیال کا بھی حق ہے،تمہارے مہمانوں کا بھی حق ہے اور تمہاری جان کا بھی حق ہے،تو روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو اور نماز بھی پڑھو اور سوٴو بھی“۔

اسی طرح اسلام نے یہ حقیقت بھی آشکار کی ہے کہ بندہ کے خالق سے تعلق کے دورخ ہیں ۔ایک براہ راست خالق کی طرف ہے اور دوسرا اس کی مخلوقات کی طرف ،گویاکہ ایک کی نوعیت روحانی ہے اور دوسرے کی معاشرتی، چناں چہ قرآن نے عبادت کا لفظ بھی دو علیٰحدہ علیٰحدہ معنوں میں استعمال کیا ہے۔ایک معنی اصطلاحی ہیں، جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں، یعنی وہ مخصوص اعمال جن کا تعلق عبد و معبود کے سوا کسی تیسرے سے نہیں ہوتا اور جو محض اپنی عاجزی اور درماندگی کے اقرار و اظہار اور خدا کی قدرت و عظمت کے سامنے اپنی گردن اطاعت خم کرنے کی خاطر بندہ بجالاتا ہے ،دوسرے معنیٰ اس سے بہت زیادہ وسیع ہیں اور ان میں دنیا کا ہر نیک اور اچھا کام شامل ہے ۔مثلاً یہ آیت کریمہ لیجیے :﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ﴾ ترجمہ:”اور میں نے جنوں کو انسانوں کو پیدا اسی لیے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں“۔

یہاں عبادت کا مفہوم عبادات اربعہ یعنی نماز ،روزہ ،زکوٰة اور حج تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری زندگی کی ساری نیکیاں اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے ،یہاں خلقت انسانی کا بحیثیت مجموعی مقصد ہی عبادت بتایا گیا ہے اس طرح ہمارا سارا وجود اپنے تمام تنوع اورر نگارنگی کے ساتھ ایک واحد ذمے داری بن جاتاہے جسے نہ روحانیت اور مادیت کے الگ الگ خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے،اور نہ جس کا کوئی جائز مطالبہ خدا کے عالم گیر نظام تخلیق سے باہر یا اس کا حریف ٹھہرایا جا سکتا ہے ،یا دوسرے الفاظ میں اسی مادی دنیا میں رہتے ہوئے ہمارا فعل ایک عبادت بنایا جا سکتا ہے ،بشرطیکہ ہم اپنے زاویہ نظر کی تصحیح کرلیں اور اپنے تمام کاموں کا مقصد خدا کی رضا جوئی اور اس کے احکام کی بجا آوری بنالیں جو شخص تمام مخلوق سے کنارہ کش ہو کر ہمیشہ کے لیے کسی غار یا جنگل میں بٹیھ جاتا ہے، وہ درحقیقت ابنائے جنس کے حقوق سے … جو اسلام کی نظر میں خداہی کے حقوق ہیں قاصر رہتا ہے اور اس طرح اس کی عبادت ناقص اور نامکمل رہتی ہے ،اسلام کا تصور عبدیت یہ ہو کہ انسان زندگی کی ساری ذمہ داریوں اور دنیا کے علائق میں سے ہر ایک کے متعلق جو اس کا فرض ہو اسے بخوبی ادا کرتے ہوئے خدا کی بندگی کا حق پورا کرے ۔

ایک دفعہ کسی غزوہ میں ایک صحابی کاگزرا یسے مقام سے ہوا جس میں موقع سے ایک غار تھا ۔قریب ہی پانی کا چشمہ بھی تھا اور آس پاس کچھ جنگلی بوٹیاں لگی ہوئی تھی ،ان کو اپنی عزلتکے لیے یہ جگہ بہت پسند آئی ،خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر عرض کیا کہ ”مجھے گوشہ گیری کے لیے ایک بہت عمدہ جگہ ہاتھ آگئی ہے، سوچتا ہو ں کہ وہیں جاکر ترک دنیا کر لو“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں یہودیت یا عیسائیت لے کر دنیا میں نہیں آیا ہوں ،میں آسان اور سہل اور روشن حقیقت(طرز ابراہیمی)لے کر آیا ہوں۔“(مسند امام احمد،جلد5،ص266)

ایک صحابی حضرت سعد نے ایک بار دربار نبوی میں یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنی ساری دولت راہِ خدا میں صرف کر دیں،آپ نے ان کو سمجھایا کہ”اے سعد!تم جو کچھ بھی اس نیت سے خرچ کرو کہ اس کی غایت خدا کی رضا جوئی ہے۔اس کا ثواب ملے گا،حتیٰ کہ تم اس نیت سے جو لقمہ بھی اپنی بیوی کے منھ میں دو اس کا بھی ثواب ہے۔“اسی طرح ایک دفعہ آپ نے حضرت ابن مسعود کو نصیحت فرمائی کہ”مسلمان اگر ثواب کی نیت سے اپنی بیوی کا نفقہ پورا کرے تو وہ بھی صدقہ ہے۔“ایک اور موقع پر آپ نے یہاں تک فرمایا کہ”جو شخص اپنی نفسانی خواہش جائز طور پر پوری کرتا ہے وہ بھی ثواب کا کام کرتا ہے۔“اس پر بعض صحابہ نے عرض کیا کہ”یا رسول اللہ!وہ تو اپنی نفسانی غرض کے لیے یہ کرتاہے؟“آپ نے ارشاد فرمایا”اگر وہ ناجائز طریقہ سے اپنی ہوس پوری کرتا تو کیا گناہ نہ ہوتا،پھر جائز طور پر پوری کرنے میں ثواب کیوں نہ ہو؟“(۔بخاری،باب کل معروف صدقة)

اس حدیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس معاملے میں حسن نیت کے بغیر بھی ثواب ہے،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس معاملہ میں جائزو ناجائز کی تمیز کرتا ہے،اور جائز راستہ اختیار کر کے ناجائز سے بچنے کا قصد کرتا ہے،وہ درحقیقت اس طور سے رضائے الہٰی کا طلبگار ہوتا ہے،اور یہی بنیاد ہے جس پر اس کو ثواب ملتا ہے۔

ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرت کے وہ کام بھی عموماً دنیا کے کام سمجھے جاتے ہیں،اگر ان کو اس طرح کیا جائے کہ ان کا محرک خدا کی اطاعت شعاری ہے تو وہ دنیا کے کام نہیں، دین کے کام، یعنی عبادات ہیں۔کیوں کہ عبادات اور غیر عبادات میں اصل فرق کاموں کا نہیں،نیت اور ارادہ کا ہے،اس کے برخلاف اگر اچھے سے اچھے کام نام ونمودیا کسی اور مادی غرض کے ماتحت کیے جائیں تو ان میں کوئی خوبی نہیں رہتی اور اللہ کے یہاں ان کا کوئی اجر نہیں ہے۔

اسلامی عبادات کی چند دوسری خصوصیات یہ ہیں کہ مسلمانوں کو عبادت کے وقت کسی باہر کی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی،نہ مورتوں اور مجسموں کی ،نہ چاند اور سورج کی، نہ ناقوس اور گجرکی ،نہ شمع اورفانوس کی اور نہ آگ اور پانی کی،نہ کسی خاص طرز کا لباس پہننے کی حاجت ہے،نہ خوش بو جلانے کی ضرورت اور نہ ساز و نغمہ کی قید ،اسی طرح کسی مخصوص جگہ یا عمارت کی بھی محتاجی نہیں ہے، ساری دنیا مسلمان کی مسجد ہے، جب اس کا خدا یہاں ،وہاں اور ہر جگہ موجود ہے تو اس کی عبادت بھی یہاں ،وہاں اور ہر جگہ ہو سکتی ہے،ہوائی جہاز پر بھی سجدہ نیاز اسی طرح ادا کیا جا سکتا ہے جس طرح اپنے گھر یا جامع مسجد میں ۔

اسلام میں عبادت کے لیے کسی درمیانی وساطت کی بھی ضرورت نہیں ہے،خدا اور بندہ کے درمیان تعلق ایسا ہو کہ بندہ کو اس بارہ میں کسی مذہبی عہد دار کا ررہین منت ہونے کی قطعی حاجت نہیں ہے ۔ہر مسلمان آپ اپنا مذہبی ”عہدے دار “ہے۔وساطت کا عقیدہ درحقیقت عہد جاہلیت کی ایک یادگار ہے۔جب خدا کی صفات کا صحیح علم نہ ہونے کے سبب سے لوگوں نے اپنے بادشاہوں کے عادات و اطوار پر قیاس کر لیا تھا کہ کسی مقرب خاص کا وسیلہ اختیار کیے بغیر اس تک رسائی مشکل ہے ۔اسلام نے آکر اس تخیل پر ضرب لگائی اور بتایا کہ یہ سب بے بنیاد اور من گھڑت تصورات ہیں ۔اس وساطت کے لیے کسی کے پاس کوئی دلیل و برہان اور کوئی فرمان الہٰی نہیں ۔یہ سب کم نظر ی کے گھڑے ہوئے بتہیں جن کے رشتے سے ذات الہٰی پاک ہے اور جن کی ضرورت سے وہ بے نیاز ہے ۔وہ اپنی ذات و صفات اور اپنی مرضیات و منہیات کا علم تو براہ راست بے شک مخصوص انسانوں ہی کو دیتا ہے اور پھر اس کو وقف عام کرادیتا ہے ،لیکن انسان کی سننے اور اس کا نذرانہ عبودیت قبول کرنے کے لیے جس نے کوئی بھی درمیانی واسطہ نہیں رکھا ہے ،وہ خود انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہے اور اس قرب کے بعد ہر واسطہ بے معنی۔


آپ کی رائے

4 تعليقات لـ “اسلام میں عبادت کا تصور

  1. بہت اچھا مقالہ ہے۔ خدا آپ کی اس خدمت کو قبول فرمائے

  2. کیا آپ ہمارے مقالوں کو اس ویب سائٹ پر شائع کر سکتے ہیں ۔

  3. اللہ تعالی سورہ واقع مین فرماتا ھے کہ جس دن پہاڑ ریزہ ریزی ھو جائیں گےجیسے رہزن کی دھوپ میں غبار کے باریک زرے پھیلت ھوے۔ اور تم تین قسم کے ھو جاو گے۔ تو داہنی طرف والے کیسے داہنی طرف والے ۔ اور بائیں طرف والے کیسے بایں طرف والے۔اور جو سبقت لے گئے وہ تو سبقت ھی لے گئے وہی مقرب بارگا ھیں۔ مین یہ جاننا چاھتا ھون کہ ان تین قسم کے لوگوں کی کہیں الگ تفصیل بھی دی گئی ھے ۔ یا ایل علم لوگوں نے کوی تفسیر بیان کی ھے۔ اگر کی ھے تو عم آدمی کے علم میں اضافہ کے لیئے سامنے لائی جائے۔ شکریہ۔

  4. عنایت says:

    بہتریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں