صابر پھل فروش

صابر پھل فروش

میرا چوک سے گزر ہوا تو دیکھا کہ جہاں کئی پھل فروش اپنی اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں، وہ بچہ نیچے گرجانے والے پھلوں کو اٹھا کر ایک شاپر میں ڈال رہا ہے۔
میں کئی لمحے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا۔ دبلے پتلے جسم پر ایک نیکر اور میلی سے بنیان تھی جو اس کے گھٹنوں تک آتی تھی۔ نجانے اس کی تھی بھی یا نہیں۔ اس کے پاؤں میں کیچڑ سے بھری ہوئی چپل اتنی ہی گندی تھی جتنی وہ جگہ جہاں وہ کھڑا تھا۔ وہ نیچے جھکتا اور ایک گلاسڑا آم اٹھا کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتا، ناک کے پاس کرکے سونگھتا اور پھر پاس پڑے کچرے دان میں ڈال دیتا۔
اس کے شاپر میں دو یا تین آم تھے، مگر جب تک وہ وہاں رہا اسے اس لائق کوئی آم نہیں ملا کہ وہ اسے شاپر میں ڈال لیتا۔ میں بھی زیادہ دیر وہاں کھڑا نہ رہ سکا اور مطلوبہ مقام پر جانے کے لیے قدم آگے بڑھادیے۔
پھر ایک دن پھر میرا گلشن اقبال پارک کے نزدیک سے گزر ہوا۔ مجھے ’’وسیلہ‘‘ کے لیے پھل خریدنا تھے۔ وسیلہ میری ہی شروع کی گئی ایک کاوش کا نام ہے۔ میں یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور اپنے جیب خرچ میں سے ہر مہینے کچھ نہ کچھ بچا کر لازمی کسی ضرورت مند کو یا تو راشن کی شکل میں یا پھر رقم کی شکل میں دیتا ہوں۔ میرے کچھ دوست بھی میری دیکھا دیکھی اس نیک کام میں میری مدد کرکے اپنی قبر کو روشن کرنے کی سعی کررہے ہیں۔
میں نے پھل فروش سے پھلوں کی قیمت پوچھنا شروع کی اور خود پھلوں کا جائزہ لینے لگا۔ پہلے وہ میری ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے بیزاری سے قیمتیں بتاتا رہا لیکن پھر جب اس نے دیکھا کہ میں زیادہ اقسام کے پھل پیک کرنے کو کہہ رہا ہوں تو اس نے ایک لڑکے کو آواز دی۔
’’چھوٹو!۔۔۔ اوئے چھوٹو!‘‘
آواز پر ایک لڑکا بھاگتا ہوا آیا۔ چہرے پر تاخیر سے آنے کا خوف اتنا تھا کہ ایک پاؤں میں جوتی تک نہ پہن سکا تھا۔ اس کے ہاتھ گیلے تھے جس سے اندازہ لگایا کہ وہ پھل دھو رہا تھا۔
’’جی صاحب!‘
’’بھائی کو پھل شاپر میں ڈال کردو۔‘‘
اس نے تحکمانہ انداز میں کہا او ردوبارہ اپنے موبائل میں مصروف ہوگیا۔
’’کیا چاہیے صاحب؟‘‘ وہ پورا کا پورا میری طرف گھوم گیا۔ پہلے میں اسے ہونٹ دانتوں میں دبا کر دیکھتا رہا جیسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ پھر یاد آیا کہ ہاں یہ وہی لڑکا تھا جسے تین دن پہلے صبح کے وقت میں نے گلے سڑے پھل اٹھاتے دیکھا تھا۔ میں مسکرادیا تو وہ بھی حیران ہوکر ہنس پڑا۔
’’دو شاپر بناؤ، ایک میں دو کلو آم ڈال دو اور ایک کلو الگ شاپر میں، پھر ایک درجن کیلے بڑے والے شاپر میں جبکہ آدھا درجن اس چھوٹے والے شاپر میں۔‘‘
وہ ہاتھ چلاتا رہا۔
’’اب الگ شاپر بناؤ اور اس میں ایک کلو سیب ڈال دو جبکہ دوسرے شاپر میں دو کلو کردو۔‘‘
’’اکٹھے نہیں کرنے کیا؟‘‘ اس نے معصومیت سے پوچھا جس پر سایہ دار جگہ پر بیٹھے دکان کے مالک کی غصے میں ڈوبی آواز گونجی۔
’’وہ جو کہہ رہے ہیں وہ کر۔۔۔ زیادہ بک بک کی تو ابھی چلتا کردوں گا۔‘‘
’’معاف کرنا صاحب! غلطی ہوگئی۔‘‘
’’نہیں کوئی بات نہیں۔ کوئی بات نہیں بھائی صاحب بچہ ہے۔‘‘
میں نے اس آدمی سے کہا جس سے اپنی باہر کونکلی توند سنبھالی نہیں جاتی تھی۔ میری بات پر وہ زیرِ لب کچھ بڑبڑایا جو کہ میں سن نہیں سکا اور پھر منہ پھیر لیا۔۔۔ اُدھر وہ لڑکا جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا۔ ایک ایک آم کو شاپر میں ڈالتے ہوئے وہ للچائی نظروں سے شاپر میں موجود آموں کو دیکھ رہا تھا۔ میں اس کے تھوڑا قریب جھکا اور پوچھا: ’’یہ آم میٹھے ہیں؟‘‘
میرے سوال پر وہ چونک گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ ’’ج۔۔۔جی۔۔۔جی میٹھے ہیں۔‘‘
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس کی بند مٹھیوں کو دیکھا تو جان گیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
’’کتنے میٹھے ہیں؟‘‘
’’بب۔۔۔بہت۔۔۔بہت میٹھے ہیں۔‘‘
اس کی زبان لڑ کھڑا رہی تھی۔
’’تم نے کھا کردیکھے ہیں کیا؟‘‘ اب کی بار وہ کچھ نہیں بولا بلکہ سر جھکا لیا۔ وہ جان گیا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا دکان کا مالک آگیا۔
’’جی صاحب بہت میٹھے ہیں۔ بے شک ایک کھا کر دیکھ لیں۔‘‘
میں نے اسے مسکرا کر ٹال دیا۔ وہ لڑکا پھل شاپروں میں ڈال کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ میں نے بٹوے سے پیسے نکالے اور مالک کی طرف بڑھادیے۔ پھر میں اپنی موٹر بائیک تک آیا۔ سبھی شاپر لٹکائے۔ بائیک چلانے لگا کہ پھر رک گیا۔ مسکرا کر اس لڑکے کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا جو مجھے ہی دیکھ رہا تھا۔
وہ دوڑتا ہوا میرے پاس آیا۔ میں نے ایک کلو آم والے شاپر میں تین کیلے او ردو سیب ڈال کر وہ شاپر اسے پکڑادیا۔ اس نے حیرت سے دیکھتے ہوئے شاپر تھام لیا۔
’’کل جب میں پھل لینے آؤں تو بتانا کہ آم میٹھے ہیں یا نہیں۔۔۔ اور ہاں کل جھوٹ نہیں بولنا۔۔۔ بری بات ہوتی ہے۔‘‘
میں نے کہتے ہوئے اس کے سر کو سہلایا تو وہ مسکرادیا۔ اس کی آنکھوں میں ابھرنے والی نمی کو دیکھ کر میں نے فوراً بائیک کو کک لگائی اور وہاں سے چلا آیا۔ اگر میں وہاں زیادہ دیر رکتا تو یقیناًخود روپڑتا۔
میں جانتا تھا کہ وہ پیچھے سے مجھے دیکھ رہا ہے۔۔۔ تب تک جب تک میں نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔ اللہ کریم نے اپنے جس بندے کی بھی مدد کا مجھے وسیلہ بنایا تھا، وہ یوں ہی دیکھا کرتا تھا۔ حالانکہ میں تو صرف ایک ذریعہ بنتا ہوں، مدد اس ذات کی طرف سے آتی ہے۔ پیسے ہر کسی پاس ہوتے ہیں۔ حتی کہ میرے اپنے سبھی دوستوں کے پاس بھی، لیکن اللہ ہر کسی کو وسیلہ نہیں بناتا۔
ایک بات کا اعتراف کرتا چلوں کہ میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ صابر کوئی پھل فروش نہیں دیکھا۔ وہ جو سارا دن طرح طرح کے پھلوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں سونگھے۔۔۔ وہ جو اپنے ہاتھوں میں پھل لیتا ہے، پھر کسی اور کو پکڑا دیتا ہے اور خود انہیں چکھ بھی نہیں پاتا۔
ہمیں ایسے کئی صابر پھل فروش اپنے ارد گرد نظر آئیں گے۔۔۔ اگر ہم غور کریں تو۔۔۔ اگر ہم وسیلہ بنیں تو!


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں