ان کے ہوتے ہوئے، ہوتے ہیں زمانے میرے

ان کے ہوتے ہوئے، ہوتے ہیں زمانے میرے

جب ہمیں اللہ تعالی نے دنیا میں بھیجا تو ہم سے پہلے چار انتہائی عقل مند بہن بھائی تشریف لاچکے تھے اور تین بہن بھائی ہمارے بعد دنیا میں ظہور پذیر ہوئے۔
ہم نے ہوش سنبھالا تو یہ ادراک ہوا کہ ہمارے سارے بہن بھائی دانش مندی اور ذہانت میں امی کا پرتو ہیں، جب کہ ہم ان کے بالکل الٹ تھے یعنی عقل سے کورے۔
امی اکثر تاسف سے کہا کرتیں یہ لڑکی نہ جانے کس پر چلی گئی ہے، عقل تو اس کے پاس سے بھی نہیں گزری۔۔۔ یہ تو عقل کے پیچھے لٹھ لیے پھرتی ہے۔
ہمارے سب بہن بھائی اپنی اپنی کلاس کے مانیٹر اور پوزیشن ہولڈر ہوا کرتے تھے۔ ذہین تو ہم نہیں تھے مگر اعلیٰ نسل کے رٹو طوطا ضرور تھے اور رٹے لگا لگا کر کلاس میں پوزیشن تو لے لیا کرتے تھے مگر باقی معاملات میں ہماری بے وقوفیاں ہمیں لے ڈوبا کرتیں۔ ہم لاکھ سنجیدہ شکل بنائے، خاموش رہ کر اپنے آپ کو ’سوبر‘ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی بات ایسی ہو ہی جاتی کہ ہمارے شخصیت کی قلعی کھل ہی جاتی اور پھر سارے گھر میں ہمارا خوب ریکارڈ لگایا جاتا۔
ان کی باتیں سن سن کر چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے بھی ہمارا یہی امیج بن گیا۔ ہمارے کسی مشورے، کسی بات کو کوئی اہمیت نہ دی جاتی۔ ہمارا نام ہی عقل بند اور بدھو پڑگیا۔
ہم اپنے ان القابات سے بڑے سخت تنگ تھے اور کسی طرح ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے مگر یہ تو ہمارے ساتھ ساتھ بڑے ہوتے ہوتے کالج تک پہنچ گئے۔
ہم فورتح ایئر میں تھے کہ ہماری شادی طے کردی گئی۔ ہمیں اپنا گھر چھوڑنے کا دکھ تو بہت ہوا مگر یہ تسلی بھی تھی کہ چلو شوہر محترم کے گھر میں عزت ملے گی اور ایک معتبر مقام حاصل ہوجائے گا۔
شادی کے بعد میاں جی کا تعارف حاصل ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ بے حد سنجیدہ، کم گو، معاملہ فہم اور عقل مند تو اتنے ہیں گویا کہ حکیم لقمان کے جانشین ہوں۔ ہم سے عمر میں دس سال بڑے بھی تھے۔ پھر ہم اپنے نازک وجود کی وجہ سے ان سے مزید چھوٹے دکھائی دیتے تھے۔
ہماری اور ان کے عادتوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ہم ٹھہرے ایک نمبر کے لاابالی، شوخ و شریر۔ پندرہ منٹ خاموش رہنا پڑجاتا تو زبان میں کھجلی شروع ہوجاتی۔ ہر وقت ہنسنا، ہنسانا ہمارا پسندیدہ کام تھا، جس بات پر ہم ہنستے ہنستے گرجاتے، میاں جی اس پر خفیف سا مسکرادیا کرتے۔ اس قدر گمبیھر شخصیت کو جیتنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔
خیر شروع شروع میں انہوں نے ہمیں بہت اونچے سنگھاسن پر بٹھایا، بہت عزت دی۔ ہم سے آپ جناب سے بات کیا کرتے تو ہم اپنے پرانے ناموں کو بھولنے لگے مگر بھلا ہو ان کا کہ وہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے تھے یعنی بعت عرصے سے سعودیہ میں رہ کر آئے تھے تو نہ جانے کیسے ان پر ہماری شخصیت کے اسرار کھلنے لگے اور انہوں نے بچی سمجھ کر ہماری تربیت کرنے کی ٹھان لی۔ اب وہ ہمارے ہر حرکت پر گہری نظر رکھنے لگے، سو ہزار احتیاطوں کے باوجود ہماری کوئی نہ کوئی غلطی، کمی بیشی انہیں دکھائی دے جایا کرتی۔
اب ہر وقت ہم ان کی نصیحتوں اور فضیحتوں کے نشانے پر تھے۔ ہماری غلطیوں کی ایسی نشاندہی کیا کرتے کہ ہم لاجواب اور جزبز ہو کر رہ جاتے۔ اس ساری مصیبت سے جان چھڑانے کو تو ہم شادی پر رضامند ہوئے تھے یعنی ہمارے ساتھ وہی ہوا تھا۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

ہر وقت کی مین میخ سے گھبرا کر، آنسو بھری آنکھوں کو جھپکاتے ہوئے کبھی ان سے پوچھتے کہ آخر کیوں ہمارے پیچھے پڑے رہتے ہیں تو فرماتے: تمہاری محبت سے اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔
آخر ہمیں ایک ترکیب سوجھی کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے میاں جی کی نظروں میں معتبر ہوجائیں، اس لیے اپنی رٹالائزیشن کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے دن رات ایک کرکے بی اے کے پیپر دے ڈالے اور بفضل خدا شاندار نمبروں سے پاس ہوگئے۔
اس خوشی میں انہوں نے سارے خاندان کو زبردست پارٹی اور ہمیں سونے کا سیٹ دیا کیوں کہ اس وقت لڑکیوں کے لیے بی اے کی ڈگری بہت بڑی چیز ہوا کرتی تھی۔ ہم تو بس بھئی گویا آسمان پر چڑھ گئے کہ اب تو حکومت پاکستان نے ہمیں گریجویٹ کا اعزاز دیا ہے تو میاں بھی دب کر رہیں گے۔
مگر وہ ہم سے ذرا بھی مرعوب تو کیا ہوتے، الٹا ایک نئی مصیبت گویا گئے پڑی۔ اب جب بھی ہم کوئی اونگی اونگی بات کر جاتے تو وہ طنزیہ فرماتے: دو لفظ پڑھے وہ بھی الٹے۔۔۔ تمہارے پاس ڈگری تو آگئی ہے، علم نہیں آیا۔
اس ترکیب سے ناکامی اٹھانے کے بعد ہم نے کوکنگ کے میدان میں قدم رکھا اور ان کے معدے سے گزر کر دماغ تک پہنچنے کی کوشش بڑی جانفشانی سے شروع کردی (دل میں تو جگہ مل ہی چکی تھی)۔ ان کی اماں جان سے ان کی پسند کے مشکل مشکل کھانے پکانے سیکھ لیے۔ حلیم، اروی کے بتوڑے، باجرے کی ٹکیاں، منگوچیاں، تل کے لڈو، بھرے ہوئے کریلے، سوجی کی کھنڈویاں، اوجھڑی۔۔۔ جسے صاف کرتے کرتے ہماری رگ رگ میں درد ہوجایا کرتا۔
سارا خاندان ہمارے ہاتھ کے کھانوں کا دیوانہ ہوگیا۔۔۔ مگر وہ محترم چونکہ سعودیہ میں خود کھانا پکایا کرتے تھے تو کوکنگ کے سارے داؤپیچ سے واقف تھے، اس لیے ہمارے ہر ڈش میں ایسے ایسے نقص نکالا کرتے کہ ہم ہکا بکا انہیں ریکھتے رہ جاتے۔
کافی عرصہ تو ہم اپنی غلطیاں درست کرنے کی کوشش میں لگے رہے لیکن ایک دن ایک عجیب بات ہوئی۔ ہم نے بازار سے ایک نیا ٹفن خریدا تو اس دن اسی میں سالن ڈال کر ان کے آگے رکھ دیا۔ پہلا نوالہ لیتے ہی چہک کر بولے: ’’دیکھا ایسے پکتے ہیں مرغ چھولے۔۔۔ ایک تم پکاتی ہو، پیاز الگ، شوبہ الگ۔‘‘
ہم نے بدھوؤں کی کی طرح کچھ نہ سمجھتے ہوئے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا:
’’یہ میں نے ہی تو پکائے ہیں۔۔۔‘‘
وہ ایک دم خجل سے ہو کر کہنے لگے۔ ’’اوہ میں سمجھا کسی کے گھر سے آئے ہیں، یہ ڈبہ انجانا سا ہے ناں۔‘‘
تب ہمارے دماغ کہ یہ بات سجھائی دی کہ حضرت کھانوں میں نقص صرف نقص نکالنے کے لیے نکالتے ہیں اور یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو کہتے ہیں:
’’جس انڈے کو ابالنا چاہیے تھا اسے تم نے تل کیا اور جسے تلنا تھا اور ابال لیا۔‘‘
اس میدان سے دلبرداشتہ ہوکر ہم نے اپنی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو جگا کر لکھنے لکھانے کے شعبہ کو آزمانے کی کوشش شروع کی اور بڑے بجھے دل سے ایک تحریر پوسٹ کردی جو کہ فوراً ہی شائع ہوگئی ہمیں تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ آیا۔ میاں صاحب کو بتایا تو بے زاری سے بولے: ’’کہاں سے نقل کرکے بھیجی تھی؟‘‘ ہم شرمندہ سے ہوگئے۔ ہاں واقعی، جیسے ہمارے دماغ میں تو اب بالکل ہی بھوسا بھر چکا ہے۔
پھر اللہ کی مہربانی سے ہمارے اگلی تحریر انعام کے لیے منتخب ہوئی تو ہمارے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ آج تو وہ ہمارے صلاحیتوں کا لوہا مان ہی لیں گے۔ خدا خدا کر کے شام ہوئی تو ان کے گھر میں قدم رکھتے ہی ہم نے رسالہ ان کے سامنے لہراتے ہوئے اترا کر انعام کے بارے میں بتایا کہ دیکھیں ہماری تحریر کس قدر پسند کی گئی ہے تو بڑے عام سے لہجے میں بولے: تمہیں کیسے پتا چلا؟ ہم نے وضاحت کی۔ بزم کے سارے خطوط ہماری تحریر کی تعریفوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
ارشاد ہوا۔۔۔ ہاں تو یہ خطوط بھی تم نے ہی مختلف ناموں سے لکھے ہوں گے پھر پوچھا ویسے یہ رسالہ ہے کون سا؟ ہم بتایا، بڑا مشہور رسالہ ہے امریکا تک جاتا ہے۔
طنزیہ لہجے میں فرمایا۔۔۔ بس اب تو تمہیں امریکا کا ویزہ بھی بھجوائیں گے رسالے والے۔
اس قدر عزت افزائی کے بعد ہم صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، اپنی کسی تحریر کا ان سے ذکر کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اب یہ حال ہے کہ سالن خراب ہونے کا سہرا ہمارے لکھنے لکھانے کے سر باندھا جاتا ہے بلکہ اٹھتے بیٹھتے یہ جملے سننے کو ملتے ہیں:
’’جتنی محنت کہانیاں لکھنے میں کرتی ہو اتنی کچن میں کرلو تو کم از کم ہنڈیا ہی ڈھنگ کی پک جایا کرے۔‘‘ ’’اور تمہیں صفحے کالے کرنے کے سوا آتا ہی کیا ہے‘‘ اس کے علاوہ: ’’سارا دھیان تو رسالوں میں ہوتا ہے تبھی تو ایسا بیکار کھانا پکاتی ہو جسے زہرمار کر کھانا پڑتا ہے۔‘‘
بہنو! یہ تھی ہمای داستان حیات۔۔۔ جو ہم نے سچ سچ آج لکھ دی ہے۔۔۔ لیکن سچ پوچھیں تو بات یہ ہے کہ میاں کی محبت بھری تنقید نے ہی ہمیں زندگی کے ہر میدان میں کامیاب کروایا ہے، اس کے لیے ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ان کے ہوتے ہوئے
ہوتے ہیں زمانے میرے


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں