عینکیں

عینکیں

میں کام پر جانے کے لیے گھر سے باہر نکلا۔ ابھی پوری طرح دروازے سے باہر نہ گیا تھا کہ پیچھے سے ننھی کی کھلکھلاتی آواز آئی: ’’ابوجان! رکیے۔‘‘ منجھلی ولای بھی ہنس کر کہنے لگی: ’’لوگوں کے بھیا بھول بھلکڑ ہوتے ہیں، ہمارے ابا ہیں۔‘‘ میں ہنستا ہوا میں پلٹ گیا۔ اب انہیں کیا بتاتا کہ اُن کی یہی ہنسی سننے اور کچھ پل مزید اُن کے ساتھ بِتانے کے لیے میں روزانہ کبھی عینک، کبھی رومال، کبھی ٹفن بھول جاتا ہوں اور جس دن کچھ بھولنا بھول جاتا ہوں، وہ دن بڑا اداس گزرتا ہے۔
لیں یوں ہی جذباتی ہوگیا میں۔۔۔ بات کر رہا تھا اس دن کی جب میں عینک ’بھول‘ کر دفتر جانے لگا تھا، چھوٹی کی آواز پر واپس اندر گیا۔ اسکول کے یونیفارم میں بیٹھی دونوں بیٹیوں کے سر پر ہاتھ پھیرا، سوئے ہوئے منے کا جھالا ہلایا، ان کی امی سے چوری چوری بچوں کے لنچ کے لیے بنی مزے دار چیزوں میں سے ایک لقمہ لیا اور میز سے اپنی عینک اٹھانے لگا۔ اسی لمحے ایک عجیب خیال میرے ذہن میں آیا: ’’کیا یہ واحد عینک ہے جو میں لگاتا ہوں؟‘‘
عجیب سا سوال ہے ناں!؟۔۔۔ کیا کروں، ایسے عجیب عجیب سوال اکثر ذہن میں آتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ میں دل سے کچھ شاعر مزاج بندہ ہوں، قسمت میں مگر کلر کی لکھی تھی۔۔۔ خیر چھوڑیے اس فلسفے کو، بات لمبی ہوجائے گی۔۔۔ ہاں تو میں نے سوچا کہ میری اپنی نظر اور دنیا کے درمیان آنے والے شیشے بس یہی ہیں۔ بھئی کئی طرح کی عینک ہوتی ہیں ناں، نظر والی، دھوپ والی، رنگین شیشوں کی فیشن والی اور اِن دکھائی دینے والی عینکوں کے علاوہ اور بھی بہت سی۔
اب اس ریشم کے الجھے دھاگوں جیسے خیال کو کیسے سلجھاؤں، بات سمجھانے کے چکر میں الجھتا ہی جارہا ہوں۔ عادت خراب ہے میری۔ بندہ سیدھی سی بات بتادے، اگلے کو الجھائے نہ خود الجھے مگر ۔۔۔ آہ عادتِ بد۔۔۔ خیر چلیں، آپ میری پوری روداد ہی سن لیں اس دن کی۔ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
صبح گھر سے نکلنے سے پہلے جو ہوتا ہے وہ میں آپ کو بتا چکا ، آگے چلتے ہیں۔ بس اسٹاپ کوئی پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ وہاں تک میں پیدل جاتا ہوں۔ راستے میں سب سے پہلا سامنا ’لولے فقیر‘ سے ہوتا ہے جو اپنا ٹنڈا ہاتھ دکھا کر مجھے ترس دلانے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور۔۔۔ سوائے پہلی تاریخ کے ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔۔۔ اور آخری تاریخیں؟۔۔۔اس کو دیکھتے ہی میرے دل میں خیال آتا ہے: نکما، سارا دن درخت تلے بیٹھا بھیک مانگتا ہے، ایک ہاتھ ہی تو نہیں ہے اونہہ۔۔۔ اور اس خیال کی عینک میری آنکھوں پر چڑھانے والی میری ماں تھی۔ میں ننھا سا ہوتا تھا جب ہمارے ہاں ہر مانگنے آنے والی کو اماں یہی کہہ کر بھیج دیتی تھیں۔
’’اچھی بھلی تگڑی ہو، کوئی کام ڈھونڈو۔‘‘
وہ کنجوس نہ تھیں۔ دور و نزدیک کے کتنے ہی غریب گھرانوں کا راشن ہر ماہ خاموشی سے بھجواتی تھیں۔ یتیم بچوں کے اسکول اور کالج کی فیسیں جمع کرواتیں۔ بس یہ عینک ان سے ورثے میں مجھے ملی ہے۔ جانے یہ منظر کو صاف کر کے دکھاتی ہے یا اپنے رنگ اس پر چڑھا دیتی ہے۔
اس سے آگے دتّو پان والے کی دکان ہے۔ خدا گواہ ہے کبھی پان سگریٹ کو منہ نہیں لگایا مگر جب اس کے پاس سے گزرتا ہوں، لال لال دانت دکھا کر ’صاحب سلام‘ ضرور کہتا ہے۔
اونہہ خوشامدی کہیں کا۔ مجھے تو خوشامدی ہی لگتا ہے۔۔۔ اس نیلی عینک کو آنکھ سے اتاروں تو شاید وہ مجھے ہنس مکھ اور خوش اخلاق معلوم ہو مگر۔۔۔ عینک کیوں کر اتاروں؟
چند قدم آگے فیقے گجر کی دکان ہے، وہ گرما گرما دودھ کی دھار ابلتی کڑھائی میں انڈیلتے ہوئے تیوری چڑھائے مجھے یوں گھورتا ہے جیسے پچھلے سال میں ہی تو اس کی بھینس کھول کر لے گیا تھا۔ موٹا، غصیلا۔۔۔ مگر شاید وہ سب کو یوں ہی دیکھتا ہو، عادت بھی توہوتی ہے کچھ لوگوں کی۔۔۔ جیسے میری مسکرا کر ملنے کی ہے۔ مرگ پر بھی یار دوست ٹہوکے دے کر دانت اندر کرواتے ہیں۔
لیجیے یہ بس اسٹاپ آگیا۔ یہاں بھی ایک تنہا غمزدہ سے بوڑھے باباجی بیٹھے ہوتے ہیں۔ میں نے انہیں کبھی کسی بس کی آمد پر اٹھتے نہیں دیکھا، یوں ہی بیٹھے کچھ سوچتے رہتے ہیں یا پھر اپنی موٹی سیاہ بیاض نکال کر اس پر کچھ لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لکھتے سمے البتہ ان کے چہرے پر ایک حسین مسکراہٹ آجاتی ہے۔۔۔
تو جو عینک ان کے لیے میری آنکھوں پر سجی ہے وہ ہے ’’ایک تنہا بوڑھا آدمی، جس کا دنیا میں کوئی نہیں، جس کا کوئی اپنا آخری بار جدا ہوتے ہوئے اسی بس اسٹاپ پر اسے الوداع کہہ گیا تھا، بیچارہ غمگین، اداس بوڑھا۔‘‘
لیکن اگر میں کچھ سوچوں تو اس بس اسٹاپ کو یہاں بنے ہوئے دو سال ہوئے ہیں اور بوڑھے کو یہاں آئے ہوئے ڈیڑھ سال۔۔۔ شاید وہ شاعر ہو جس نے شاعری کو کلر کی پر ترجیح دی تھی؟ یا پوتے پوتیوں سے بھرے گھر میں تنگ آکر یکسوئی کی تلاش میں آنے والا ادیب دادا جان!۔۔۔ یا پھر صبح کی سیر کے بعد سستانے کو بیٹھا کوئی ریٹائرڈ افسر۔
راستے میں، بس میں بھی ہر روز نت نئے مسافروں کو الگ الگ عینکوں سے دیکھتا ہوں۔ کوئی ہنسوڑ لگتا ہے تو کوئی رنجور۔ کوئی غمزدہ لگتا ہے تو کوئی غم خوار۔ کسی کو دل ہی دل میں بدتمیز کہتا ہوں تو کسی کو بے غیرت۔ سفر یوں ہی کٹ جاتا ہے رنگین عینکوں سے مختلف رنگ دیکھتے اور دفتر آجاتا ہے۔
چند منٹ اوپر نیچے تو ہوتے ہی رہتے ہیں مگر میرا سڑیل (یہ عینک تو درست ہی کہتی ہے) باس!۔۔۔ خدا کی پناہ، جتنا بڑے افسروں کے قدم چاٹتا ہے اتنا ہی ہمیں آنکھیں دکھاتا ہے۔ کبھی صحیح وقت پر آنے پر شاباش تو دی ہی نہیں، نہ اچھا کام کرنے پر کبھی ستائش کی مگر ذرا سی غلطی ہوئی اور آپ کی بے عزتی کر کے رکھ دی۔ یہ عینک میں اتار بھی دوں تو وہ ایسا ہی ہے یا شاید یہ عینک لگی کسی مضبوط ایلفی سے ہے، اتاری نہیں جاسکتی۔
پھر میرے ساتھی سنگی ہیں۔ سلیم ایک نمبر کا بیکار، اسلم چغل خور، اکرم مطلبی، طاہر اکڑو اور زبیر غصیلا۔ سب کے سب باتیں بنانے میں ماہر ہیں۔ میں سب کے حصے کا کام کرتا ہوں، کبھی جو مجھے جلدی جانا ہو، کوئی گھنٹہ بھر کے لیے میرا کام سنبھالنے کو تیار نہیں ہوتا۔ مطلب پرست لوگ۔
واپسی پر جب گھر آتا ہوں تو اکثر مہمان آئے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر میرے سسرال ہوتے ہیں ورنہ بیوی کے میکے والے ہوتے ہیں (ہاہاہاہاہاہا)۔۔۔ اُن کو دیکھنے کے لیے میرے پاس جو عینکیں ہیں وہ تو بڑی چھپا کر رکھی ہیں۔ یہاں نہیں لکھ سکتا۔
یہ رہی آخری عینک، سنہری، چمکدار۔۔۔ واہ بھائی! یہ میں تب لگاتا ہوں جب کبھی آئینہ دیکھتا ہوں۔ ماشاء اللہ صورت تو رب نے بنائی ہے، ایسی سیرت والا، خوش سیرت والا، خوش اخلاق، مخلص شخص شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہوگا لیکن آج جب میں واپس آکر اپنی عینک اٹھا رہا تھا تو مجھے وہ عجیب خیال آیا جو سمجھانے کی میں تب سے کوشش کر رہا ہوں۔
اُس دن میں نے فیصلہ کیا کہ نظر کی عینک کے سوا باقی سب عینکیں یہیں گھر چھوڑے جاتا ہوں، دنیا کو اس کے اصلی رنگ میں دیکھوں گا، چناں چہ میں نے وہ سب رنگ برنگی عینکیں چھوڑ دیں۔ بس نظر کی عینک لگائے مسکراتا ہوا باہر چلا آیا۔
یقین مانیے دنیا بہت مختلف ہے۔ جانے کیوں ہم نفرت، تعصب، غصہ، غلط فہمی جیسی عینکیں لگا کر اسے دیکھتے ہیں ورنہ یہ تو بڑی چمکیلی اور روشن دھوپ سے بھری محبت اور دوستی کی دنیا ہے، بس دیکھنے والی نظر چاہیے۔ آپ بھی تجربہ کرلیں، مزہ نہ آیا تو عینکیں واپس لگا لیجیے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں