شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کے مظالم پر خاموشی جرم ہے

مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کے مظالم پر خاموشی جرم ہے

اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے اپنے سات جولائی دوہزار انیس کے درس قرآن میں مسلم اقلیت کے خلاف چینی حکومت کے ظلم و جبر اور امتیازی سلوک کی پرزور الفاظ میں مذمت۔ جامع مسجد مکی زاہدان میں دورانِ درس، انہوں نے مسلم ممالک اور عالمی تنظیموں کی خاموشی کو جرم اور جنایت قرار دیا۔
سنی آن لائن اردو نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے چین میں مسلمانوں کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: رپورٹس اور خبروں کے مطابق، چینی حکام مسلمان بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کرکے مخصوص سکولوں اور کیمپوں میں برین واش کرتے ہیں اور ان کی تربیت غیراسلامی اقدار اور ان کے پیش نظر اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: افسوس کی بات ہے کہ مسلم ممالک جن کے چین سے اچھے تعلقات ہیں، ان اقدامات کے حوالے سے خاموش ہیں۔ یہ ایک جرمِ عظیم ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: اگر مسلم ممالک اس حوالے سے سستی اور عاجزی کا مظاہرہ کریں اور ان مظالم کے خلاف احتجاجا چین سے اپنے تعلقات ختم نہ کریں، ان کا شمار مجرموں میں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اور وہ حکومتیں جو انسانی حقوق کا دعویٰ کرتی ہیں، ان ظالمانہ و جابرانہ مظالم کے خلاف پرزور احتجاج کریں۔
انہوں نے چینی حکام کو تنگ نظر یاد کرتے ہوئے کہا: چین نے صنعت و ٹیکنالوجی اور مادی میدانوں میں ترقی کی ہے، لیکن فکری و ثقافتی طورپر ابھی تک اس کے حکام تنگ نظری کا شکار ہیں۔
ایران کی سنی برادری کے سرکردہ رہ نما نے کہا: پوری دنیا اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ اظہارِ رائے اور عقیدے کی آزادی ہونی چاہیے، لیکن چین میں ابھی تک دباؤ، تنگ نظری اور مذہبی رکاوٹوں کا راج ہے۔ مسلمانوں کو وہاں تشدد کا نشانہ بنایاجاتاہے، انہیں نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور قرآن کی تعلیم سے روکا جاتاہے۔ اگر چینی حکومت مسلمانوں کے خلاف ظلم و جبر جاری رکھے، ضرور اللہ کے عذاب سے دوچار ہوجائے گی۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے درس کے آخر میں کہا: روس کے لیڈرز ایک صدی تک آمریت، دباؤ اور ظلم و جبر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو آزادی دے دیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ چینی حکام ابھی تک اپنی پالیسیوں میں تنگ نظری اور بدنصیبی کا شکار ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں