محترم صالح عالم حسین علی بن حافظ میاں محمد بن عبداللہ حنفی نقشبندی الوانی، بڑے مشائخ نقشبندیہ میں سے تھے جنہوں نے تفسیر قرآن میں مہارت حاصل کرکے اس کی تدریس کا ایک انوکھا اور دلچسپ طریقہ برصغیر اور آس پاس کے ملکوں میں رائج کردیا۔
حضرت مولانا حسین علی رحمہ اللہ کی پیدائش واں بچھراں جو کہ مضافات میانوالی پنجاب (پاکستان) میں ہے سنہ ۱۲۸۳ھ میں ہوئی اور ایک قول کے مطابق ۱۲۸۵ھ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ آپ وہیں جوان ہوئے، درسی کتابوں میں سے میزان الصرف سے حمد اللہ تک اپنے علاقہ کے مشہور اساتذہ کرام سے پڑھیں۔ پھر کانپور شہر تشریف لے گئے اور تمام درسی کتابیں عقلی اور نقلی مولانا احمد حسن کانپوری سے پڑھیں، آپ رحمہ اللہ نے صحیحین، سنن ترمذی اور سنن ابی داؤد جیسی حدیث کی کتابیں محدث و فقیہ وقت مولانا رشید احمد گنگوہی سے پڑھیں۔
مولانا حسین علی نے سہارن پور میں مولانا محمدمظہر نانوتوی سے قرآن پاک کی تفسیر اور ترجمہ پڑھ کر امتحان میں شرکت کی اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔ مظاہرالعلوم سہارن پور کی نسبت مولانا محمدمظہر ہی سے ہے۔
اپنے اسباق کی باریکیاں انتہائی باریکی اور ایجاز کے ساتھ اپنے اسباق کے دوران لکھ لیتے اور اسی کو محبوب رکھتے اور ان کے طریقوں اور عقیدوں کو ترجیح دیتے۔ پھر اپنے شہر لوٹ آئے اور شیخ عثمان بن عبداللہ نقشبندی کے پیچھے پیچھے مستقل رہنے لگے، ان سے طریقہ دینی حاصل کیا اور اجازت لی، زمانہ دراز تک ان سے سبق لیا، آپ سے شیخ سراج بن عثمان نقشبندی کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی پڑھا پھر اپنے وطن لوٹ آئے اور وہاں کے شیخ بنے۔
توحید خالص کی دعوت
انتہائی کوشش اور اجتہاد کے ساتھ توحید اور دین خالص کی دعوت دینے لگے، اللہ تعالی کی خلوص کے ساتھ عبادت اور شرک کی ہر قسم کی دعوت اور ظاہری صورت سے بھی ناپسندیدگی کا اظہار اور قبول کی عبادت اور خدائے لاشریک لہ کے علاوہ دوسرے بہت سے خدا کو تسلیم کرنا، اولیاء و صالحین کی تعظیم میں غلو کے ساتھ کام لینا، ان کے لیے ایسی صفتیں تسلیم کرنا جو اللہ تعالی کی صفتوں اور افعال کے ساتھ مخصوص ہیں، اور غیراللہ کو استغاثہ کے ساتھ رد کرنا، ان غیراللہ کے ساتھ استعانت حقیقی کے طور پر ان سے مدد چاہنا اور اس بات کا اعتقاد کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی علم غیب رکھتے تھے۔ اس بارے میں آپ سخت تکالیف اور آزمائشوں میں مبتلا کئے گئے اور بہت زیادہ تکالیف اور مصیبتوں میں آزمائے گئے۔
آپ بڑے بہادر اور جمے ہوئے قدم کے مالک، انصاف کے خلاف دوسروں کی رعایت نہیں کرتے اور نہ بے دینی کی باتیں کرتے، اور نہ ہی توریہ سے کام لیتے اور نہ کنایہ سے کوئی بات کہتے، بلکہ حق اور صریح بات کھل کر کرتے، بالخصوص حکم صریح اور شرعی صحیح معاملات میں، اور اللہ کی رضاجوئی میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر نہیں کرتے تھے۔ آپ شیخ اسماعیل شہید دہلوی، امام سید احمد بن عرفان شہید، اور علامہ رشید احمد بن ہدایہ احمد گنگوہی کے نقش قدم پر تھے۔
تفسیر قرآن:
تفسیر قرآن کے بارے میں آپ کا مخصوص انداز بیان تھا؛ اسی توحید کے مطابق بیان کرنا جو قرآن کریم میں ہے اور جو آیات و نصوص اس سلسلہ میں تھیں ان کی تشریح اور وضاحت فرماتے اور عام مسلمانوں کی زندگی ان کی عادات اور ان کے اعمال پر ان کے مطابق کرتے جاتے، علماء کی ایک جماعت اسی طریقہ پر چلی ہے اور بے شمار مخلوق نے اس سے فائدہ اٹھائے ہیں اور لوگ ان کے کشف و کرامت یاد کرتے ہیں۔ آپ کے شاگردخاص شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان نے آپ ہی کے طرز پرتفسیر جواہرالقرآن لکھی جو عقائد کے موضوع پر منفرد ہے۔
حلیہ اور وضع قطع
انتہائی تنگ زندگی گذارتے اور تکلف سے دور رکھتے، کاشتکاروں جیسی زندگی گذارتے اور انہیں کے جیسے لباس پہنتے، اپنا کام اپنے ہاتھ سے ہی کرتے۔
جسامت کے لحاظ سے گندمی رنگ سفیدی مائل تھے، کم گوشت تھے اور جسم کے قوی، بہت دیر تک خاموش رہ سکتے تھے۔
تصانیف:
ان کی تالیفات میں سے (۱) بلغۃ الحیران فی ربط آیات الفرقان، (۲) تفسیر بے نظیر، (۳) تحریرات حدیث، (۴) تلخیص الطحاوی، (۵) تحفۃ ابراہیمیہ، (۶) خلاصہ فتح القدیر، (۷) تقریرالجنجوہی علی صحیح البخاری، (۸) تقریر الجنجوہی علی صحیح المسلم و۔۔ قابل ذکر ہیں۔
مولانا حسین علی رحمہ اللہ کی وفات ماہ رجب سنہ ۱۳۶۳ھ میں آپ کے آبائی علاقہ واں بھچراں میں ہوئی۔ نماز جنازہ میں مسلمانوں کی ایک عظیم جماعت نے شرکت کی اور نماز کی امامت آپ کے شاگردخاص شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان نے کی۔
نزہۃ الخواطر (اردو)، آٹھویں جلد
بلغۃ الحیران فی ربط آیات الفرقان
اگر یہ کتاب دستیاب ہے تو پلز میرے عمایل ید معن بھیج دیں مہربانی ہوگی
بلغۃ الحیران فی ربط آیات الفرقان
اگر یہ کتاب دستیاب ہے تو پلز بھیج دیں مہربانی ہوگ