شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

نیوزی لینڈ میں نمازیوں پر حملہ بہیمانہ و بزدلانہ تھا

نیوزی لینڈ میں نمازیوں پر حملہ بہیمانہ و بزدلانہ تھا

اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے اپنے پندرہ مارچ دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں نیوزی لینڈ میں درجنوں نمازیوں کی شہادت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی اور ایسے حملوں کی روک تھام کے لیے ملزموں کی گرفتاری و ٹرائل پر زور دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: کچھ انتہاپسند، جانورصفت وحشی لوگوں نے نیوزی لینڈ میں دو مسجدوں پر حملہ کرکے پچاس کے قریب نمازیوں کو بے دردی سے شہید کردیاہے جبکہ متعدد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا: نیوزی لینڈ کے آس پاس ایسے ممالک ہیں جو بڑے دعوے کرتے پھرتے ہیں اور خود کو مہذب سمجھتے ہیں، لیکن ان کے ممالک میں ایسے بہیمانہ اور المناک حادثے رونما ہوتے ہیں۔ کچھ انسان نما افراد ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ جانوروں سے ان کا سرزد ہونا ممکن نہیں ہے۔ ہم نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے سنگدلانہ و بے رحمانہ قتل عام کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: انسان کا قتل ایک سنگین جرم ہے۔ اگر کوئی مسلمان بھی ایسی حرکت کا ارتکاب کرے، اس کا اقدام بھی مذموم ہے۔ کسی بھی مذہب، مسلک اور گروہ کی عبادت گاہ پر حملہ قابل مذمت ہے۔ مختلف مذاہب و مسالک کے پیروکار اپنے اپنے طریقے پر خدا کی عبادت کرتے ہیں، کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ دیگر مذاہب و مسالک کی عبادتگاہوں پر حملہ کرے۔
انہوں نے اقوام متحدہ سمیت پوری عالمی برادری کے پرزور ردعمل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: انتہاپسندی و شدت پسندی پوری دنیا میں مذموم ہے، دنیا کے لوگ ایسی انتہاپسندانہ حرکتوں کے خلاف مزاحمت کریں۔ اقوام متحدہ و عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں اس واقعہ کا نوٹس لیں اور جس ملک میں یہ سانحہ رونما ہوا ہے، اس پر دباو ڈالیں تاکہ دہشت گرد گرفتار ہوجائیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: جرائم پیشہ افراد کو پکڑکر مسلمانوں کا حق لیاجائے تاکہ دنیا اس سے زیادہ بدامن نہ ہوجائے۔ بدترین دہشت گرد یہی لوگ ہیں جو مسجدوں میں حملہ کرکے نمازیوں کو شہید کرتے ہیں۔ انہیں تلاش کرکے سخت سزا دینی چاہیے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائیں۔
مولانا عبدالحمید نے نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والوں کے رفع درجات اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا مانگتے ہوئے نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا: نیوزی لینڈ کے معزز مسلمان بہن بھائیو! آپ حق پر استقامت کریں، پوری دنیا کے مسلمان تمہارے ساتھ ہوں گے اور ہم بھی آپ کی حمایت کریں گے۔

چین و برمہ میں مسلمان تشدد اور ظلم کے شکنجے میں ہیں
ممتاز سنی عالم دین نے دیگر ملکوں میں مسلمانوں پر ظلم و جبر کی داستانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج دنیا میں ہرسو ترقی و تہذیب کے دعوے کیے جارہے ہیں، اسی دنیا کے کونے کونے میں مسلمانوں کو پرتشدد رویوں کا سامنا ہے۔ بہت ساری جگہوں میں مسلمان اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور ان پر ظلم ہوتاہے۔ اہل حق دنیا میں کسی نہ کسی طرح مشکلات سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا: طویل عرصے سے چین میں مسلمان مارے جارہے ہیں اور ان پر بدترین تشدد ہوتاہے۔ حکومت چین اس حوالے سے نہ صرف اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی، بلکہ اس کے کارندے بہت سارے تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: برمہ میں بھی مسلمانوں پر بہیمانہ تشدد ہوا جہاں میانمار فوج نے مسلمانوں کو بری طرح کچل دیا۔ ان کے انسانی اور بنیادی حقوق فوجیوں کے بوٹوں تلے روند دیے گئے اور مسلمان گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوتاہے۔

سیستان بلوچستان کی تقسیم حکومت اور قوم کے مفادات کے خلاف ہے
بات آگے بڑھاتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے صوبہ سیستان بلوچستان کی تقسیم کے حوالے سے بعض حکام کے بیانات پر ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا: صوبے کی تقسیم کے حوالے سے ہماری نصیحت اور تاکید یہی ہے کہ اس صوبے کو اپنے ہی حال پر رہنے دیں۔ اس صوبے کی آبادی اور حالات کو مدنظر رکھیں۔ پورے صوبے کے مفادات کا تقاضا ہے کہ یہ صوبہ تقسیم نہ ہوجائے۔
انہوں نے مزید کہا: صوبے کی تقسیم کے اخراجات حکومت اور عوام دونوں کے کندھوں پر ہوں گے۔ حکومت نئے محکموں اور گورنرہاوسز کے بجائے یہ پیسہ عوام کے روزگار کے لیے خرچ کرے۔ صوبے کی تقسیم ’سیستان بلوچستان‘ کو ناقص بنادے گا؛ چابہار صوبے کی پیشانی ہے جس کی جدائی ہمارے لیے نقصان کا باعث ہے۔ اسی طرح ’سیستان‘، خاش، ایرانشہر اور سراوان کو الگ کرنا ہمارے لیے نقصان کا باعث ہے۔
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: سیستان بلوچستان کو ملک کے بڑے صوبوں میں رہنے دیں۔ ہمارا صوبہ ایک ہزار کلومیٹر زمینی سرحد اور تین سو کلومیٹر سے زائد سمندری سرحد کے ساتھ ایک خاص صوبہ ہے جہاں متعدد اور زبردست مواقع موجود ہیں۔
انہوں نے کہا: ہمارے صوبے کو وزیر کی حد تک طاقت ور گورنر اور نائب وزیر کی حد تک ڈائریکٹر جنرلز کی ضرورت ہے؛ یہاں پرزور اور مضبوط حکام ہی کام کرسکتے ہیں۔ لہذا ہمارے مسائل کا حل تقسیم میں نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہمارا اتحاد محفوظ رہے۔
مولانا نے تقسیم کے حامیوں کو مخاطب کرکے کہا: تقسیم کے بارے میں سوچنے کے بجائے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے سوچیں۔ دیگر صوبوں میں جو تقسیم ہوئے ہیں، لوگوں کے حالات میں خاطرخواہ تبدیلی نہیں آچکی ہے اور اب وہ پچھتارہے ہیں۔
یاد رہے صوبہ سیستان بلوچستان ایران کا دوسرا بڑا صوبہ ہے جو ملک کا سب سے پس ماندہ صوبہ بھی ہے۔ بعض حلقے صوبے کی تقسیم کو پس ماندگی کے خاتمے کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں، لیکن سیاسی و سماجی حلقے اس تقسیم کو اپنی شناخت کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔



آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں