مولانا عبدالرزاق مکیاوی رحمہ اللہ

مولانا عبدالرزاق مکیاوی رحمہ اللہ

تعارف وخدمات
مجاہد آزادی و مبلغ امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ مولانا عبدالرزاق ؒگاؤں مکیا ضلع مدھوبنی کے فاضل دیوبند اورزبردست سیاسی بصیرت کے حامل شخص تھے۔ آپ دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے درسی ساتھی تھے۔ اورحضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا دور طالب علمی دیوبندمیں ۱۳۰۹ تا ۱۳۱۶ ہجری رہاہے۔مولانا ازہر صاحب – مہتمم مدرسہ حسینیہ رانچی- مولانا عبدالرزاق ؒ کوقریب سے جاننے والوں میں سے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے بتایا کہ مولانا عبدالرزاقؒ حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ایک مرتبہ دیوبند حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت نے ان کابہت اعزازواکرام کیا۔
اس کے علاوہ اس دور کی نامور سیاسی ہستیوں اور رہنمائے قوم سے انکا قریبی تعلق تھا۔خاص طور سے مولانا ابوالکلام آزادؒ کے ساتھ یارانہ تعلق تھا،قومی و ملی مسائل پر بڑے بے تکلف اندازمیں ان کے ضمیر کو جھنجھوڑتے۔ اس بات کی شہادت ڈاکٹر شفیع الرحمن مکیاوی (مرحوم )نے دی ہ۔ان کے نام مولانا ابوالکلام آزادؒ کا تحریر کردہ خط بہت پہلے خود راقم کی نظر سے بھی گزرا تھا۔دیگر ہم عصر قائدین کے ساتھ بھی ان کے گہرے مراسم تھے ۔قریبی ذرائع کے مطابق مولانا عبدالرزاق ؒ کانگریس سے وابستہ تھے۔کانگریس کے ڈسٹرکٹ بورڈ ممبرتھے۔ضلع دربھنگہ( جس کے دائرہ میں موجودہ ضلع مدھوبنی کے علاقے بھی آتے تھے،چونکہ ضلع مدھوبنی 1973میں تشکیل پایاہے)کے دوردراز علاقوں تک ان کی شہرت تھی اور قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔علاقہ کے ہم عصر غیر مسلم عمائدین -جو اردو اور فارسی سے خط وکتابت کی حد تک واقف تھے-سے دوستانہ مراسم تھے۔
شیخ طریقت حافظ و مولانا شمس الہدیٰ صاحب، سابق مدرس- بی ایل سی ہائی اسکول،رائے پور (حال مقیم راجو پٹی،بہار ) نے اپنی تصنیف ’الاکلیل‘(تذکرہٗ مشائخ ) میں اپنے پیر و مرشد الحاج حضرت منظور احمد قدس سرہ ساکن مصرولیا(متوفی۱۹۸۶ء)کے متعلق تفصیلی مضمون میں ضمناً مولانا عبدالرزاق ؒکا ذکر کیا ہے۔ حاجی منظور صاحبؒ آپ کے دامادتھے۔ خسر – داماد کا رشتہ ہونے کے ساتھ ساتھ علمی تعلق بھی تھا ۔اس تذکرہ سے جہاں ان کی شخصیت پر روشنی پڑتی ہے، وہیں اسیر مالٹا حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی سے استاد شاگرداور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے درسی ساتھی ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔

شیخ طریقت حافظ و مولانا شمس الہدیٰ صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’حضرت مولانا عبدالرزاق صاحب کا آبائی وطن موضع مکیا ضلع دربھنگہ ہے، شیخ الہند اسیر مالٹا حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے جید الاستعداد تلامذہ میں تھے۔اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے ساتھ دورہ حدیث میں شریک تھے اور دور طلب میں نمایاں اور باصلاحیت طالب علم رہے۔اس لئے حضرت شیخ مدنی ؒ سے ایک ساتھی ہونے کے سبب بے تکلفی کا پرخلوص تعلق ہمیشہ رہا‘‘۔ (بحوالہ الاکلیل صفحہ :310)
موصوف مصنف نے اپنے پیر و مرشد الحاج حضرت منظور احمد قدس سرہ کے حوالے سے مولانا عبدالرزاق ؒ کا شیخ الہندؒسے خاص تعلق اور ان کا جانثار طالب علم بتایا ہے۔اس کے ثبوت میں ایک واقعہ بھی نقل کیا ہے،جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’حضرت رحمۃ اللہ علیہ (مرادحاجی منظور صاحبؒ) حضرت مولانا عبدالرزاق صاحب کی بڑی جامع صلاحیت تھی۔اور حضرت شیخ الہند ؒ کے شاگرد ہونے کی وجہ سے سیاسی سوجھ بوجھ بھی رکھتے تھے۔اور شیخ الہندؒ کے جانثار شاگردوں میں ان کا نام تھا۔دربھنگہ ضلع سے آم کا قلم لے جاکر شیخ الہندؒ کے گھر کے سامنے لگایا کرتے تھے۔بہت سارے پودے لے جاکر آم کا ایک باغ لگایاتھا۔استاد اور شاگر دکے اس گہرے تعلق کی بناپر شیخ الہندؒ نے مولانا موصوف کو دو نادر تحفے دیئے۔ایک اپنی جائے نماز اور دوسری تسبیح‘‘۔ (بحوالہ الاکلیل صفحہ :310-11)
بتایاجاتا ہے کہ تسبیح کہربا کی تھی اور اس کی قیمت کا اندازہ اس زمانے کے مطابق ایک ہزار روپے ہے۔ مولانا عبدالرزاق صاحب نے یہ دونوں تحفے اپنی حیات ہی میں اپنے داماد حاجی منظور صاحب کو منتقل کردیا تھا۔موصوف مصنف کا اعتراف ہے کہ انھیں اس جائے نماز پر نماز پڑھنے کا شرف اس وقت حاصل ہواجب حاجی صاحب نے ان کواجازت بیعت وارشاد دی تھی۔ حاجی منظور صاحبؒ کی وصیت کے مطابق یہ نادر تحفے ان کے قریبی رشتہ دار مولوی مظفرصاحب کے پاس منتقل ہوچکے ہیںاورہنوزان کے پاس محفوظ ہیں۔راقم نے بھی چند ماہ قبل وہ جائے نماز جناب مولوی مظفر صاحب کے پاس دیکھاہے۔

بحیثیت مبلغ امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھارکھنڈ
مولانا عبدالرزاق ؒ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ کا باوقار دینی و ملی ادارہ امارت شرعیہ(قائم شدہ 1921 ء )سے ایک عرصہ تک وابستہ رہے۔آپ ادارہ کے شعبہ تبلیغ سے منسلک تھے۔
شعبہ تبلیغ امارت شرعیہ کا ایک اہم اور فعال شعبہ ہے۔ ماضی میںاس شعبہ نے معاشرہ کی اصلاح وتربیت میں بڑا اہم کردار ادا کیاہے۔ دراصل امارت شرعیہ اس شعبہ کے ذریعہ زمینی سطح پر قوم و ملت کی ہمہ جہت رہنمائی اور خدمات انجام دیتا ہے۔بالخصوص دیہات کے علاقوں کے مسلمانوں اور غیر مسلموں تک اسلامی تعلیمات پہنچانے کا کام انجام دیتا آرہاہے۔اس مشن پر مامور مبلغین حضرات متعلقہ علاقہ کی ایک ایک بستی جاکر ان تک دین کی بات پہنچاتے ہیں۔مقامی افراد اورعلماء کے تعاون سے پروگرام اوراجلاس کرکے ان میں دینی شعور اور بیداری پیداکرتے ہیں۔ان کے ذمہ یہ بھی ہے کہ وہ متعلقہ علاقہ کے مسلمانوں کی مذہبی ،معاشی اور اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیں۔غرض ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ مسلمان شریعت کے مطابق زندگی بسر کریں۔خود کو بے جا رسومات اور دیگر برائیوں سے دور رکھیں۔ مبلغین کی مخلصانہ کوششوں اور دن رات کی محنت کے اچھے نتائج نکلے ہیں۔ان حضرات کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ جب بہت سے قریوں میںمسلمانوں نے غیروں کے رسم و رواج کو اپنارکھاتھا۔ان کی طرز زندگی غیروںکی سی تھی حتی کہ ان کا میلان بت پرستی کی طرف ہوچکاتھا۔ ایسی صورت میں امارت کے مبلغین نے ان پر دین کی محنت کی اور انکو راہ راست پر لانے میں کامیاب ہوئے۔
امارت شرعیہ کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ جب ’سدھی سنگھٹنن، نامی تنظیم نے بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں لے کر مرتد کرنا شروع کردیاتھا۔تو امارت اس تنظیم کے لئے ایک چیلنج بن کر کھڑا ہوا اور اپنے مبلغین کے ذریعے ان پر محنت کی اور مسلمانوں کوکفر وشرک کی لعنت سے بچالیا۔امارت کے ویب پیج کے مطابق دھنباد، پیرولیا اورنیپال کے مضافاتی علاقہ کے لوگ اس کے شکار ہوئے تھے۔اسی طرح قبائلی مسلمانوں میں دینی بیداری اور تعلیم کی طرف رجحان، ان ہی مبلغین کی سعیٔ مسلسل کا نتیجہ ہے۔ جریدہ ’امارت‘ کی پرانی فائلوں کی ورق گردانی کے دوران کئی ایسے ا شتہار راقم کی نظر سے گزرے جو مبلغین کی تقرری سے متعلق تھے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ مبلغ کے لئے جو صلاحیتیں درکار تھیں، اس کے اندراج کے ساتھ یہ شرط بھی ہواکرتی تھی کہ وہ تندرست ہوں یعنی امیدوار دوردراز علاقوں میں پیدل چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اس سے اندازہ کی اجا سکتا ہے کہ کس قدر پرمشقت کام تھا۔
بہر کیف امارت شرعیہ کااولین ترجمان جریدہ’امارت ‘ میں شائع کارگزاری اور رپورٹوں کے مطابق آپ کی خدمات کی مدت کم وبیش ایک دہائی پر محیط ہے۔اس مدت میں مختلف اضلاع اور مقامات سے بحیثیت مبلغ خدمات انجام دی ہیں۔اب تک کی تحقیق کے مطابق سیوان-ضلع چھپرہ ،سیتامڑھی سب ڈویژن، چمپارن، پٹنہ اور بھاگل پور کا علاقہ پورائن سے انھوں نے یہ خدمات انجام دی ہیں۔
امارت شرعیہ کے جریدہ امارت کے مطابق ان کی خدمات کی مدت 1925ء سے 1935تک معلوم ہوتی ہے جیسا کہ امارت شرعیہ کا جریدہ ’ امارت‘ میں ۱۳؍رجب تا ۱۳؍شعبان ۱۳۳۴ھ کی ایک رپورٹ بعنوان ’برکات امارت شرعیہ‘میں ان کی کارگزاری درج ہے۔’امارت‘امارت شرعیہ کا ترجمان (جریدہ) تھا، جو سید شاہ محمد عثمان غنی کی زیر ادارت شائع ہوتا تھا۔ حضرت امیر شریعت اول محمد بدرالدین پھلوارویؒ (متوفی ۱۶؍صفر۴۳ ۱۳ ھ )کے دور سے اس کی اشاعت شروع ہوئی۔اس میں دینی مضامین کے علاوہ حالات حاضرہ سے متعلق آگہی پر مبنی مضامین و تبصرے نیز مبلغین امارت شرعیہ کی کارگزاری کے لیے ایک کالم مختص تھا۔جس میں مبلغین حضرات اپنی کارگزاری بطور رپورٹ لکھتے تھے۔یہ کارگزاری ’برکات امارت شرعیہ ، دفتری اطلاعات امارت شرعیہ ،اور صوبہ بہار کے واقعات‘جیسے عنوانات سے شائع ہوتاتھا۔لیکن بعد میں یہ کالم بہار کے عام ملی و سماجی اور سیاسی خبروں کے لئے استعمال ہونے لگا۔بسا اوقات کارگزاری امارت کے مکمل ایک صفحہ اور کبھی دوصفحات پر بھی مشتمل ہوتا۔راقم کو امارت کے 1925 سے 1936 ء تک کے مختلف شماروں میں اس کالم کے تحت مولانا عبدالرزاق ؒ کی خدمات کے حوالے سے شائع رپورٹ ملی ہیں۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ ایک ایسے دور میں جب کہ نقل وحمل کے وسائل نہ کے برابر تھے۔راستے نہایت مخدوش اور سڑکوں کا جال آج کی طرح پھیلا ہوانہ تھا، سفر کرنا ایک جوکھم بھرا کام تھا۔ ایسے دورمیں ان مبلغین امارت کے ذمہ بڑی ذمہ داریاں تھیں۔متعلقہ علاقہ کے قریوں کا دورہ کرتے ،سواری نہ ہونے کی صورت میں پیدل سفرکرتے۔گاؤں گاؤں جاکر دعوت و تبلیغ اور اصلاح کا کام کرتے تھے۔انفرادی ملاقات اور اجتماعی پروگرام کے ذریعہ امارت کے مقاصد اور مشن سے گاؤں کے بھلے منش لوگوں کوواقف کراتے۔ عمل صالح کی تلقین کرتے اور دین سے جوڑتے تھے۔
ذیل میں دیے گئے رپورٹ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ بہت سے غیر اسلامی رسم رواج اس وقت مسلم سماج میں جگہ پاچکے تھے۔نماز روزے سے غفلت کے علاوہ جوا، تاش، شراب نوشی، اور اس طرح کی دیگر برائیاں عام تھیں۔ خاص طور سے بیوہ عورتوں سے نکاح کو معیوب سمجھا جاتاتھا۔ اورجمع بین الاختین کا مرض ایک عام وبا کی شکل اختیار کرچکا تھا۔
لہذا جس زمانے میں مدارس و مکاتب کاجال آج کی طرح پھیلا ہوا نہ تھا، امارت کے یہی جاںباز مبلغین -جو دنیاوی اعتبار سے یقیناً بے سروسامان تھے، لیکن دین کے پاسبان تھے۔اپنی ذات میں ایک مشعل ،مدرسہ اورمکتب ہوا کرتے تھے – وقت کے بیمار معاشرہ کے مصلح اور معالج وہی تھے۔
مولانا عبدالرزاق ؒ کے حوالے سے امارت میںشائع رپورٹ ملاحظہ کریں ، جو اس دور کے معاشرتی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔

’تلخیص رپورٹ مولانا عبدالرزاق صاحب‘
’’مولانا موصوف نے(یکم ربیع الاول تا۱۶؍جمادی الثانی) اس اثنا میں مع شہر بیتیا ۱۲مواضعات کا دورہ کیا جس میں انفرادی تبلیغ کے علاوہ ۴ ؍مواقع پر وعظ فرمایا ۔ایک خاص علاقہ میں اکثر جگہ جمع بین الاختین کا مرض مسلمانوں میں عام ہے۔ایک جگہ نکاح بیوگان کی تلقین پہلے بھی وفد امارات کے وقت کی گئی تھی۔عدم ازواج بیوگان کے نتائج کا ظہور اس طرح ہوا کہ اب ایک بیوہ کو اس کے ایک رشتہ دار کے ناجائز حمل رہنے پر آپس میں مقدمہ بازی ہوئی، تصفیہ مقدمہ اور تبلیغ نکاح بیوہ کی غرض سے دوبارہ حافظ محمد ثانی صاحب اور شیخ عدالت حسین صاحب اس گاؤں میں گیا، لیکن افسوس کہ ناکامی ہوئی ۔بعد کو مقدمہ میں تصفیہ ہوامگر نکاح نہ ہوسکا۔موضع پرسوتم پورکے اردومڈل اسکول کو ڈسڑک بورڈ نے بند کردیا ہے ۔اسکول کی اچھی خاصی عمارت خالی ہے۔اس سے اس علاقہ کے مسلمانوں کا سخت تعلیمی نقصان ہوا ہے‘‘۔(امارت ص۵،ج۶،نمبر۱۱،شمارہ ۵،جمادی الثانی ۱۳۴۸ھ)
کالم’ صوبہ بہار کے واقعات‘میں دوسری رپورٹ اس طرح رقم ہے۔’مولانا عبدالرزاق صاحب مبلغ امارت شرعیہ ضلع چمپارن کے واقعات لکھتے ہیں‘
۴تا ۲۹ ربیع الاول ۴۸ھ؁… اس مدت میں انفرادی تبلیغ کے ساتھ جلسوں میں وعظ اور سیرت نبوی بیان کی۔۹؍مقامات کادورہ کیا۔۱۰۴؍آدمیوں نے نماز پڑھنے کا وعدہ کیا۔۱۵ نے تاش نہ کھیلنے اور ایک مقام کے لوگوں نے دوسروں کو نماز پڑھوانے کا وعدہ کیا۔(بحوالہ: امارت ص۵،جلد ۶، نمبر ۸۔ ۲۰ ربیع الثانی ۱۳۴۸ھ مطابق 1929 )
مولانا عبدالرزاق صاحب مبلغ ضلع پٹنہ کے حالات لکھتے ہیں۔۴ شوال تا ۷ ذی الحجہ ۱۳۴۹ھ …اس مدت میں ۴۱ مواضع کا دورہ کیا۔اور انفرادی تبلیغ کے علاوہ سات جلسوں میں وعظ کیا۔۲۰ اشخاص نے ترک نماز سے توبہ کیا۔تمام مواضع میں مسلمانوں کو عقد بیوگان کی طرف توجہ دلائی کیوں کہ عام طور سے مسلمان شرفاء عقد بیوگان کو معیوب خیال کرتے ہیں۔( امارت ،شمارہ ۵،صفر ۱۳۵۰؁،جلد۸،نمبر۳،صفحہ۵،)
ان کے ذمہ صرف دینی امور میں رہنمائی نہ تھی بلکہ معاشرہ کی ملی اور سماجی خدمات بھی تھیں۔ جہاں کہیں مسلمان غیروں کے ظلم کا شکار ہوتے، دینی امور میں رکاوٹ محسوس کرتے، امارت شرعیہ کے مبلغ اس مسئلہ کو امارت کو پہنچاتے،پھر امارت شرعیہ اس مسئلہ کو حل کرتا۔چنانچہ ذیل کی دورپورٹوں سے سماج کے تئیں امارت کے اہم کارناموں پر روشنی پڑتی ہے۔
’مولانا عبدالرزاق صاحب مبلغ امارت شرعیہ ضلع چمپارن کے واقعات لکھتے ہیں‘
۱۷؍جمادی الاول تا ۳۰ جمادی الثانی ۱۳۴۸ھ… اس اثنا میں ۲۲ مواضع کا دورہ کیاانفرادی تبلیغ کے علاوہ تین جلسوں میں وعظ بیان کیا۔قومی محصول کی وصولی میں عامل کی اعانت کی۔ایک موضع میں ہندو محض شرارت سے عین اذان کے وقت سنگھ بجانے لگتے ہیں۔جس سے فساد کااندیشہ ہے۔مسلمانوں کو فساد سے بچنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔(امارت شمارہ ۲۰رجب ۱۳۴۸؁ھ ص؍۶،ج ۶،نمبر ۱۴)
دوسری رپورٹ بعنوان ’پورائن ضلع بھاگل پور میں قربانی ہوگئی‘میںامارت کے بروقت اقدام سے نہ صرف ہندو مسلم فساد کاایک بڑا حادثہ ٹلا بلکہ مسلمانوں کو قربانی کرنے کی سہولت ہو گئی۔
’’پورائن……ڈویژن بانکا ضلع بھاگل پور کے مسلمانوں نے دفتر امارت شرعیہ میں اطلاع دی کہ ہم لوگ اپنی سہولت کے لحاظ سے قریب کی ایک بستی میں گائے لے جاکر قربانی کرتے ہیں۔ اس سال ہندؤں نے یہ شرارت کی ہے کہ اس بستی میں جانے کا راستہ بند کردیا ہے۔اس لیے فساد کا اندیشہ ہے۔امارت شریعہ توجہ کرے کہ ہم لوگ قربانی کرسکیں ۔
مولانا عبدالرزاق صاحب مبلغ امارت شرعیہ نے جو اس علاقہ میں کام کررہے ہیں ،یہی لکھا ہے۔چنانچہ ناظم صاحب امارت شرعیہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھاگل پور کو تار دیا کہ پورائن سب ڈویژن بانکا میں قربانی کے موقع پر فساد کااندیشہ ہے۔ایسا نظم کیجیے کہ مسلمان قربانی کرسکیں۔چناچہ ہم کو اطلاع ملی کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھاگل پور نے فوراً ملٹری بانکا بھیج دی اور مسٹر غلام جیلانی صاحب ایس ڈی او بانکا نے حسن نظم سے کام لے کر78 ہندؤں سے دودو سو روپے کی ضمانت لی کہ مسلمانوں سے کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں۔اور 8 مسلمانوں سے بھی ضمانت لی کہ گوشت لانے کے سلسلے میں ہندؤں کی فصل ارہر کو نقصان نہ پہنچائیں گے جو راستہ میں پڑتی ہے۔(بحوالہ: نقیب ص۵،جلد ۴،نمبر ۱،شمارہ ۵؍محرم الحرام ۱۳۵۵؁مطابق ۲۹ مارچ ۱۹۳۶؁ء)
امارت کے مبلغین کی خدمات کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی ایسا قانون پاس ہوتا جو دین و شریعت کے مزاج کے منافی اور متصادم ہوتا تو یہ مبلغین حضرات عوام کو ساتھ لے کر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے۔جلسے جلوس کرتے، حکومتی فیصلے کے خلاف قراردادیں پاس کرکے اس کی پرزور مذمت کی جاتی تھی ۔امارت کے ساتھ جمعیۃ علماہ ہند اس وقت بھی متحرک تھی اورفعال کردار نبھا رہی تھی۔ایسے امور میں ایک بینر تلے متحدہ طور پر یہ کام انجام پارہاتھا۔اس بات کی توثیق ذیل کے رپورٹ سے ہوتی ہے۔جو انھوں نے شیر گھاٹی ضلع گیا سے بھیجی ہے۔
تلخیص رپورٹ مولانا عبدالرزاق صاحب( یکم ربیع الاول تا ۱۶؍جمادی الاول -ضلع چمپارن)…ساردا ایکٹ کے خلاف مسلمانان بہارواڑیسہ کا زبردست احتجاج-
۲۹؍نومبر کو کامیاب ہڑتال کی مختصر روداد…شیر گھاٹی ضلع گیاسے جناب عبدالرزاق صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ جامع مسجد میں زیر صدارت جناب حکیم سید محمد عطاء اللہ صاحب جلسہ ہوااور تجویز منظور کی گئی۔موتیہاری سے جناب مولوی رحمت علی صاحب امام مسجد تحریر فرماتے ہیں کہ جامع مسجد میں زیر صدارت جناب مولوی صدیق صاحب مختار جلسہ ہوا۔مولانا عبدالرزاق صاحب مبلغ امارت شریعہ اور مولوی عبدالمجید صاحب وکیل نے تقریرفرمائیںاور تجویز منظور کی گئی۔مجلس تحفظ ناموس شریعت قائم کی گئی جس کے صدر مولوی محمد صدیق صاحب مقرر کئے گئے۔(بحوالہ :امارت شمارہ ۲۰ رجب ۱۳۴۸؁ھ صفحہ ۴؍۵)
ان کی زندگی کا یہ پہلواب تک کسی کے علم میں نہیں ہے۔ان کے متعلق تحقیق کے سلسلے میںراقم مصرولیا گیا ۔وہاں مولانا مظفر صاحب نے دوران گفتگو تذکرہ کیا کہ مولانا عبدالرزاق صاحب ؒ کی ایک کتاب’حجتہ اللہ البالغہ ‘کا اردو ترجمہ یہاں تھی،یہ کتاب ان کے زیر مطالعہ ہواکرتی تھی۔اس کتاب پر ان کے نام کے نیچے’ مبلغ امارت شرعیہ ‘لکھا ہوا دیکھا تھا۔یہ کتاب 2004 کے سیلاب میں ضائع ہوگئی ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی وابستگی امارت شرعیہ سے تھی۔ اس بات سے راقم کا تحقیقی تجسس بڑھ گیا اور پھر امارت شرعیہ سے بذریعہ موبائل اس کی تصدیق کے سلسلہ میںرابطہ کیا۔لیکن وہاں اتنا پرانا نہ تو ریکارڈ محفوظ ہے اور نہ کوئی شخصی طور پر جاننے والا ہے۔لہذا تصدیق نہیں ہوسکی۔لیکن دل کو اطمینان بھی نہیں ہوا۔لہذا پھر راقم امارت شرعیہ پھلواری شریف گیا اور وہاں متعلقہ شعبہ کے ذمہ دار سے مل کر بات چیت کی۔کئی معمر افراد سے ملاقات کرائی گئی اور ان سے دریافت کیا لیکن کامیابی نہیں ملی۔پھر مشورہ ہوا کہ امارت شرعیہ کے ابتدائی دنوں میں نکلنے والے جریدہ امارت کی فائل دیکھی جائے، چونکہ اس میں مبلغین کے سرگرمیوں کی روداد شائع ہو اکرتی تھیں۔غرض ناظم صاحب کی اجازت سے فائل حاصل کرکے دو دنوں تک اس کی ورق گردانی کی، جو کچھ یہاں پیش کیا گیا ہے، اسی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔
قریبی ذرائع کے مطابق بہار کے ضلع ’گیا‘ کے ’چلمل‘نامی بستی میں آپ کا قیام رہتا تھا۔ وہاں آپ نے 17؍بیگھہ نیلامی کی زمین خریدی تھی۔اس زمین کو فروخت کرکے حج کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، اور وصیت بھی کردی تھی کہ اگر حج کرنے سے قبل ان کی موت واقع ہوجائے تو اس جائداد کو فروخت کرکے حج بدل کرادیا جائے۔ فریضہ حج کی سعادت حاصل نہ ہوسکی اور ۱۹۵۸؁ میں وفات پاگئے۔انکے بڑے فرزند محمد اظہار نے چلمل کی جائداد فروخت کرکے مصرولیا کے حاجی منظور صاحب،جو علاقہ کی بزرگ ہستی تھے، سے حج بدل کرایا۔

معروف عربی نعت کا منظوم ترجمہ
یہاں قیام کے دوران آپ نے ایک معروف عربی نعت کا اردو سلیس اور منظوم دونوں طرح سے ترجمہ کیا ہے، جس کی تاریخ تحریر مع مقام ،۱۶؍نومبر۱۹۳۲، ۱۶رجب ۵۱ھ،شیر گھاٹی،ضلع گیا، درج ہے۔یہ نعت حضرت زین العابدینؒ -جن کا شمار دنیائے اسلام کی نامور ہستیوں میں ہوتاہے- کا تحریر کردہ ہے۔آپ اہل مدینہ میں تابعین کے طبقہ ثانیہ میں شمار کئے جاتے ہیںاور اپنے عہد کے اجلہ تابعین و مشاہیر واعلام کی فہرست میں آتے ہیں۔
نعت کاترجمہ ان کی ذاتی ڈائری میں درج ہے ، جو راقم کو ہاتھ آئی ہے۔اس میں زیادہ تر حاصل مطالعہ درج ہے۔علاوہ ازیں مناجات،مرثیہ قوم،ارتقائے اسلام،مواعظ،یاد حبیب،مواخات اسلامی،حق شناسی، تعمیل ارشاد نبوی ،ایثار نفس، تبلیغ رسالت، ایثار کریم النفسی،ترحم و کرم،جیسے دیگر مختلف عنوانات پر عربی اور فارسی کلام ، اردوشعرا کے کلام اور وعظ و نصیحت کی باتیں درج ہیں۔ بعض تحریریں املا کرائی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جبکہ بعض خود ان کی تحریر ہیں، چونکہ اس میں غایت درجہ کی تحریری پختگی ہے۔ ڈائری کے مشمولات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اچھا شعری ذوق رکھتے تھے۔فارسی زبان پرعبور حاصل تھا۔بلکہ مذکورہ نعت کے منظوم ترجمہ سے اس بات کا غالب گمان ہوتا ہے کہ شاعر بھی تھے،اگرچہ عوامی سطح پراس حیثیت سے معروف نہ رہے ہوں۔ چونکہ کسی کلام کا منظوم ترجمہ فنی مہارت کے بغیر ممکن نہیں ۔مذکورہ ترجمہ میں انھوں نے اپنا تخلص عبدالرزاق ؔتحریر کیا ہے۔جواس بات کا بین ثبوت ہے کہ خود ان کا ترجمہ ہے۔
ان کے اس علمی مرتبہ اور شعری ذوق کے سلسلے میں راقم نے ایک موقع پر گاؤں کے مولانا ایوب خاکیؒ سے ان کی حین حیات دریافت کیاتھا،انھوں نے چونکہ ان کا دور دیکھا تھا اور یہ خود اہل علم تھے، گاؤں کے قریب کی بستی شاہپور ہائی اسکول میں اردو فارسی کے ٹیچر تھے، وظیفہ یاب ہوکر 2015میں انتقال کیا ہے۔ مولاناخاکی مرحوم نے بتایا کہ اس زمانے میں گاؤں میں دو ہی علمی شخصیت تھی، جن میں ایک مولانا عبدالرزاق صاحب ؒ تھے، اور ایک مولانا جمال صاحب ؒ۔مولانا عبدالرزاق صاحب اہل علم تھے، اور دوردراز علاقے تک ان کی شہرت تھی۔اکثر سفر میں رہتے تھے۔گاؤں میں رہنے کا موقع انھیں بہت کم ملتا تھا۔جہاں تک ان کے شاعر ہونے کا سوال ہے ، تو عام لوگ انھیں اس حیثیت سے نہیں جانتے تھے۔چونکہ انھوں نے خود کو اس طور پر ظاہر نہیں کیا ۔
قریبی ذرائع کے مطابق بہار کے ضلع ’گیا‘ میں ’چلمل‘نامی بستی میں بھی آپ کا قیام رہتا تھا۔وہاں آپ نے 17؍بیگھہ نیلامی کی زمین خریدی تھی۔اس زمینکو فروخت کرکے حج کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، اور وصیت بھی کرگئے تھے کہ اگر حج کرنے سے پہلے ان کی موت واقع ہوجائے تو اس جائداد کو فروخت کرکے حج بدل کرادیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ انکے بڑے فرزند محمد اظہار نے چلمل کی جائداد فروخت کرکے مصرولیا کے حاجی منظور صاحب،جو علاقہ کی بزرگ ہستی تھے، کو حج بدل کی ذمہ داری سونپی۔
بتایاجاتا ہے کہ دہلی جب بھی کسی کام سے آتے تو جامع مسجد کے قریب واقع محلہ مٹیا محل میںروم نمبر 1233 میں قیام کرتے۔جالے ضلع دربھنگہ کے شفیع صاحب جن کا کاروبارتھا،سے دوستانہ تعلق تھا،
۱۴؍۸ ؍۱۹۷۳ ء ؁کو حکومت ہند؍ وزارت داخلہ بہار کی جانب سے مجاہد آزادی مولانا مرحوم کے حوالہ سے ان کی اہلیہ محمودہ خاتون (متوفیہ:1984 ( کے نام پنشن جاری کئے جانے کا خط بحوالہ 14/D/20328/73 ،ارسال کیاگیا تھا۔خط کا موضوع کچھ اس طرح درج ہے،
(Grant of pension from central revenues to freedom fighters and their families)اس زمانہ میں 100 ؍روپے ماہانہ پنشن جاری کیا گیا تھا۔آپ کی پانچ اولاد تھیں، جن میں تین لڑکے محمد اظہار،محمد اظہر اورمحمد نسیم اختراور دولڑکیاںرابعہ و سائدہ تھیں۔ان میں محمد نسیم اختر حیات سے ہیں۔وارثین کے مطابق ان کی وفات کے بعد ان کی ساری کتابیں مدرسہ امدادیہ ،ضلع دربھنگہ کو بھیج دی گئی تھیں۔اور جوخطوط و دیگر کاغذات گھر میں رہ گئے تھے، گھرمیں کوئی اس علمی ورثہ کی حفاظت نہ کرسکا۔چنانچہ بہت سے خطوط اور اہم مراسلات لاعلمی میں ضائع ہو گئے٭٭٭

خورشید عالم ندوی،بنگلور
(بصیرت فیچرس)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں