سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت اور اس کی نگارش کا طریقہ و منہاج (پہلی قسط)

سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت اور اس کی نگارش کا طریقہ و منہاج (پہلی قسط)

سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت کے بیان میں اس سے زیادہ اور کسی بات کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں انسانی افراد اور جماعتوں کے لیے وہ کامل اور سدابہار نمونہ ہے جس کو اسی لیے تیار کیا گیا تھا کہ فرزندان آدم ہر حال میں اس سے اپنے لیے رہنمائی اور ہدایت کی روشنی حاصل کریں، خاص طور پر اہل ایمان کے لیے اس کا ہر پہلو لائق اقتدا، اور واجب اتباع ہے۔
اللہ کی قدرت اور نبوت محمدی کا اعجاز دیکھئے کہ محمدرسول اللہ کی نبوت کے ۲۳ سال کے مختصر عرصہ میں ذات نبوی علی صاحبہا السلام پر ان سارے حالات و کیفیات کا گذر ہوگیا جن سے قیامت تک کسی انسان کا سامنا ہوسکتا ہے۔ فتح و شکست، غربت و امیری، شاہی و گداہی، خوشی و مسرت، غم واندوہ، اقبال و ادبار، عزت و بے عزتی، غلبہ و مغلوبیت، سفر و حضر، تجارت و مزدوری، شادی و غمی و۔۔۔ غرض وہ کون سی حالت ہے جو آپ پر نہ آئی ہو اور اس سلسلے میں آپ کا سنہرا نمونہ نہ ملتا ہو۔ آپ باپ بھی بنے شوہر بھی بنے، آپ رشتہ داریاں بھی کیں، تعلقات قائم کئے اور مجبورا توڑے بھی، آپ نے معاہدے کیے، آپ کو دھوکہ بھی دیا گیا اور آپ کے اوپر چھوٹے الزام بھی لگائے گئے، آپ کو نفاق کے موذی مرض کا سامنا کرنا پڑا اور آپ کو ایسے وفادار دوست بھی ملے جنہوں نے مہر و وفا کے بے نظیر نقوش صفحہ تاریخ پر ثبت کیے۔۔۔ ایک عاشق رسول نے اس جامعیت کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
’’عجب دربار!! سلاطین کہتے ہیں: شاہی دربار تھا کہ فوج تھی، علم تھا، پولیس تھی، جلاد تھے، محتسب تھے، گورنر تھے، کلکٹر تھے، منصف تھے، ضبط تھا، قانون تھا۔ مولوی کہتے ہیں:مدرسہ تھا کہ درس تھا، وعظ، افتا تھا، قضا تھا، تصنیف تھی، تالیف تھی، محراب تھی، منبر تھا۔ صوفی کہتے ہیں: خانقاہ تھی کہ دعا تھی، جھاڑ تھا، پھونک تھا، ورد تھا، وظیفہ تھا، شغل تھا،۔۔۔ (چلہ) تھا، گریہ تھا، بکا تھا، حال تھا، کشف تھا، کرامت تھی، فقر تھا، فاقہ تھا، زہد تھا، قناعت تھی،۔۔۔ مگر سچ یہ ہے کہ وہ سب کچھ تھا، کیوں کہ وہ سب کے لیے آیا تھا، آئندہ جس کو چلنا تھا، جہاں کہیں چلنا تھا، جس زمانہ میں چلنا تھا اسی کی روشنی میں چلنا تھا۔‘‘ (النبی الخاتم ص:۱۰۱)

نبوت: انسانیت کی بنیادی ضرورت
سیرت رسول کے مطالعے اور اس کی نگارش کا سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کے ہر فقرے اور ہر مرحلے پر یہ بات ظاہر ہو کہ یہ ایک نبیِ ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، اس مطالعے میں ہر وقت یہ شعور تازہ رہنا چاہئے کہ انسانیت کو نبوت کی کتنی اور کیونکر ضرورت ہے؟
انسان کے پاس جو حواس ہیں اور علم کے جو ذرائع ہیں وہ اس کو یہ نہیں بتلاسکتے کہ اس کو کس نے پیدا کیا ہے؟ وہ کیسا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ اس کا اپنی مخلوق سے کس قسم کا رشتہ ہے؟ انسان کا اس کائنات میں کیا مقام ہے؟ اس کا مقصدتخلیق کیا ہے؟ اس عالمِ زندگی کا کیا انجام ہے؟ ۔۔۔ اللہ کا نبی اللہ کی طرف سے براہ راست ان سارے سوالوں کے جواب لے کر آتا ہے۔۔۔۔ انسانوں کو اندر فتنہ و فساد کی جو فطری خرابیاں رکھی گئی ہیں، اور جو انسانی زندگی کو لگاتار مبتلائے آزمائش رکھتی ہیں، اخلاق کو تباہ کرتی، آبادیوں کو اجاڑتی، تمدنوں کے فساد کا باعث ہوتی اور نفرت و ہوس کی آگ بھڑکاتی ہیں، ان خرابیوں کی اصلاح کا صحیح اور کامیاب طریقہ اس علم و یقین کے ذریعہ ہے اور اس نسخے سے ہی ممکن ہے جو انبیاء علیہم السلام لے کر آتے ہیں۔
سیرت کے مطالعے اور اس کی نگارش کے وقت نبوت اور کار نبوت کی اہمیت اور انسانیت کی اس کے سامنے محتاجی کا اعلان ہونا چاہئے، سیرت کو اس طور پر دیکھا جائے اور پیش کیا جائے کہ وہ اس عالم گیر فساد کا تریاق ہے جس نے انسان کو خدا کی رحمت سے دور اور گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹکا رکھا ہے۔ یہ بھی پیش نظر آتا رہے کہ کس طرح سارے علم وہنر کی ترقیوں اور وسائل کی بہتات کے باوجود معاصر دنیا کی عقلیں عالمی جاہلیتِ عظمی کے علاج، اور اس فساد کے انسداد میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ اس پر متفکر نہیں، مگر اس کے باوجود جاہلیت کی یلغار کے سامنے ایک ایک کر کے مورچے ہار رہی ہیں، اور ایک ایک کر کے ظلم و فساد کو اخلاقی جواز عطا کرتی جارہی ہیں۔

اصلاح کی شاہ کلید
سیرت نبوی کا ایک اہم باب یہ بھی ہونا چاہئے کہ انسانی بگاڑ کے علاج کی وہ کون سی شاہ کلید تھی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال؟ جس سے سارے عقدے کھلتے چلے گئے۔
انبیاء علیہم السلام انسان کے علم و ارادے کو شر سے موڑ کر خیر کی طرف لگاتے ہیں۔ وہ اس میں بھلائی کی محبت اور طلب پیدا کرتے ہیں۔ اپنی جماعت کے اندر وہ یہ احساس پیدا کردیتے ہیں کہ دنیا میں بھلائی اور نیکی کو فروغ دینا ان کا فرض منصبی ہے۔ انسان کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں ہیں، مگر ہوس و طمع اور شیطان ان کو صرف ظلم و شر اور نفسانیت کی طرف لے کر چلتے ہیں، یہ انبیاء کا کارنامہ ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے اندر خداطلبی کا وہ ذوق پیدا کرتے ہیں کہ ان کے لیے بھلائی کے راستے کی مشکلات آسان ہی نہیں لذیذ ہوجاتی ہیں، سیرت نبوی کا یہ عظیم ترین کارنامہ ہے اس کے بغیر ہم کسی بھی مطالعے کو مکمل نہیں کہہ سکتے۔

نبی کا پیغام و دعوت
سیرت نبوی کی محض روایتی تاریخی پس منظر میں دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو واقعات و حوادث کا بیان سمجھ لیا جاتا ہے، جس میں خوش عقیدگی کے روغن کا اضافہ ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں بقول بعض معاصر علماء کے وہ ’واقعات کی کھتونی‘ بن کر رہ گئی ہے، حالانکہ نبی کی سیرت کی اصل اہمیت اس کی ہدایت و رہنمائی اور اس پیغام کی وجہ سے ہوتی ہے، جس کے لیے وہ اللہ کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے، اسی کو وہ اپنی زندگی کا مشن بلکہ اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے، اسی کا فروغ اس کا مقصدِ زندگی ہوتا ہے، سیرت کے مطالعے کے وقت فوکس اور توجہ اگر اس مشن اور پیغام سے ہٹی اور وہ کہیں پس منظر میں چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ تاریخ کی ورق گردانی بن کر رہ جائے گا، محمد رسول اللہ کے سیرت نگار کو حیات طیبہ کو اس طرح پیش کرنا چاہئے کہ اس کا سب سے نمایان اور اہم عنصر ’’رسالت و نبوت‘‘ اور اس کی دعوت و پیغام کے تمام پہلو بھی اپنی عظمت و رعنائی اور معجزانہ شان کے ساتھ سامنے آ جائیں۔

اسوۂ حسنہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت رسول، اللہ کے دین اور اس کے پیغام کے مبلغ بھی ہیں، اور انسانوں کے لیے کامل اور حسین ترین نمونہ بھی، آپ کی ذات اپنے اخلاق و صفات، مزاج و کردار، عادات و معاملات، تمناؤں اور جذبات ہر چیز میں عملی نمونہ ہے، آپ کی شب روز کی زندگی کے بغیر اور آپ کے اعمال و اخلاق کے بغیر بحیثیت رسول آپ کی سیرت نامکمل ہی رہے گی۔
یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ ہماری روایتی سیرت نگاری میں آپ کے خِلقی اوصاف کے بیان پر جو توجہ ہوتی ہے آپ کے اسوہ کے بیان پر اس سے بہت کم توجہ ہوتی ہے، دوسری طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی حقیقت بینی اور بلندیِ ذوق ملاحظہ ہو کہ روایات کے ذخیرہ میں آپ دین اور پیغام اور اسوہ حسنہ پر بلامبالغہ ہزارہا ہزار روایات ہیں اور آپ کی خِلقی کیفیت پر روایات گنتی کی چند۔۔۔۔ سیرت نگاری نے اخیر زمانوں میں کافی ترقی کی ہے، اور اب اسوہ حسنہ سیرت کا ایک اہم جز بنتا جا رہا ہے، مگر اس کو ابھی مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔

نبوی مزاج کی خصوصیات
انبیاء علیہم السلام کی طرف سے جو دین لے کر آتے ہیں وہ محض خشک الفاظ کے سانچوں میں ڈھلا ہوا نہیں آتا، ایسا نہیں ہوتا کہ ان کو صرف واجبات و فرائض اور اوامر و نواہی کی ایک فہرست دے دی جائے، بلکہ اللہ تعالی ان کو کتاب و شریعت کے الفاظ کے ساتھ اس کی روح و مزاج کیفیات و احساسات، اور جذبات کی آئینہ دار زندگی کے ساتھ بھیجتے ہیں، یہ زندگی خود ان انبیاء کی ہوتی ہے، جو اس دین و شریعت کی اتنی صاف اور مفصل تشریح کرتی ہے کہ ان کا ہر پہلو اس کے آئینے میں مجلّیٰ ہوجاتا ہے۔
سیدنا محمدرسول اللہ کی زندگی نبوی مزاج کا آئینہ اور ان جذبات و کیفیات کا مجموعہ ہے جو براہ راست نبوت کا خاص مقصود ہیں۔ اللہ تعالی نے جس طرح آخری دین کے اوامر و نواہی کو بحفاظت ہم تک پہونچایا ہے اسی طرح اس نے ان کیفیات کو بھی ہم تک بحفاظت پہونچایا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ان کیفیات کا رنگ اس طرح چھایا ہوا تھا، کہ اگر سیرت نگار نے یا سیرت کا مطالعہ کرنے والے نے اس رنگ کو چھوڑ دیا تو سیرت کے صحیح خد و خال اور اس کی اسپرٹ اور روح سامنے نہیں آسکتے اور نہ مطالعہ سیرت کا اصل مقصود پورا ہوسکتا ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کیفیات کے جلی عناوین ہیں: خداطلبی و تعلق مع اللہ، اللہ سے محبت اور اسکا خوف، اس پر توکل یقین، عشق و سرافکندگی، خدا مستی و بے خودی، عبودیت و تذلل، آخرت کا استحضار و یقین، زہد و استغناء، مخلوق خدا پر شفقت و رحمت، دلسوزی و دردمندی، دین پر عزیمت و استقامت، اس کی راہ میں جد و جہد و جانبازی۔۔۔۔
شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ ذات نبوی کی یہ ربانی کیفیات سیرت نگاری کی بہت سی کوششوں میں واضح طور پر نظر نہیں آتیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیرت کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے رسول اللہ کی سیرت کسی دوسری قومی مصلح و قائد کی سیرت سے زیادہ مختلف نہیں رہتی، وہ اس سے متاثر ہوسکتا ہے، عقیدت کا اظہار بھی کرسکتا ہے، مگر اس کے دل میں وہ ایمان پیدا نہیں ہوسکتا جو مطالعہ سیرت کا گوہرِ مقصود ہے۔

تعبیرات و اصطلاحات کی نزاکتیں
انسانی عقل و خرد اپنے ماحول اور تجربات کی روشنی میں پیغام رسانی کے لیے نئی نئی تعبیرات و اصطلاحات اختیار کرتی ہیں۔ یہ اصطلاحات جس ماحول میں پیدا ہوتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں اپنے ساتھ وہ ان کے اثرات جرور رکھتی ہیں۔ کسی طرح وہ اپنے پس منظر سے آزاد نہیں ہوسکتیں۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے زمانوں میں اور ان سے پہلے دنیا میں مختلف اصلاحی اور فکر تحریکیں قائم ہوچکی تھیں، الگ الگ قسم کے اخلاقی اور الٰہیاتی فلسفے تھے، جنہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں سکہ جمایا تھا، مگر قرآن مجید کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دین کے حقائق کے تشریح اور اپنی دعوت کے لیے ان اصطلاحات اور تعبیرات کو مستعار لینا اور ان سے کام چلانا کبھی گوارہ نہیں کیا۔ اس کے بجائے ان کو اپنی پیغام رسانی کے لیے نہایت سادہ اور حقائق پر مبنی الگ اصطلاحات اور منفرد تعبیرات اللہ کی طرف سے دی گئی تھیں۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تحریف شدہ یہودیت و نصرانیت کے علاوہ حکمت و فلسفہ یونان و ہند اور فارس و مصر و روما پر چھائے ہوے تھے، ہر ذہین آدمی ان سے متاثر ضرور تھا۔ مگر نبوت محمدی نے انسانی زندگی کی پیچیدہ گتھیوں کے کھولنے اور انسان کے لیے صحیح اور متوازن طرز زندگی کی تشریح میں ایمان، احسان، تزکیہ، عبادت، تقوی، خشیت، آخرت، رسالت، نبوت، وحی، علم، عدل، انصاف، مواسات و ہمدردی اور اخلاق جیسی اصطلاحات استعمال کیں۔
رسول اللہ کی سیرت اور آپ کے پیغام کی تشریح کے لیے نہ قدیم فلسفی و اجتماعی اصطلاحات موزون تھیں اور نہ عصر حاضر کے ازموں اور سیاسی و اجتماعی تحریکوں کی اصطلاحات۔ ماضی قریب اور معاصر لٹریچر میں سیرت نبوی کے سلسلے میں جمہوریت، اشتراکیت اور سوشلزم و غیرہ کی اصطلاحات بعض لوگوں نے فراخ دلی کے ساتھ استعمال کی ہیں۔ ہر کچھ دنوں کے بعد کوئی نیا ازم یا فلسفہ دنیا پر فیشن کی طرح چھا جاتا ہے، پھر جب وہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے انتشار و عدم توازن اور انفرادی و اجتماعی مسائل کو مزید بڑھا کر رخصت ہوتا ہے تو کوئی نیا ازم دنیا پر مسلط کردیا جاتا ہے، اور اس کا ایسا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ دنیا کے سارے مسائل کا حل اسی میں نظر آنے لگتا ہے۔ اس فضا سے ہم بھی متاثر ہوجاتے ہیں، کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں جمہوریت کی صدا سنائی دینے لگتی ہے، تو کوئی اس کو ایک موزوں اشتراکی تحریک کہنے لگتا ہے، کوئی سوشلسٹ اصطلاحات میں رسول اللہ کی اقتصادی اصلاحات بیان کرتا ہے، تو کوئی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کق اشرافیہ کے اقتدار اور ملوکیت کے خلاف قومی بغاوت کا نام دیتا ہے، یہاں تک کہ بعض مستند علماء بھی جو سیرت کا اس کے اصل تناظر میں مطالعہ کرتے ہیں آں حضرت کو جمہوری لیڈر اور آپ کی اصلاحات کو جمہوری یا سوشلسٹ اصلاحات کہہ جاتے ہیں۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ ان تعبیرات کا پیرہن، نبوی پیغام کے لیے قطعا ناموزوں ہے، انبیاء علیہم السلام اللہ کی طرف سے ’دین‘ لے کر آتے ہیں۔ ان کا کام انداز و تبشیر ہوتا ہے، ہدایت و تزکیہ ان کا طریقہ کار اور انسانوں کو اپنے خدا سے جوڑنا اور اس کی رحمتوں سے فیضیات کرانا ان کا مشن ہوتا ہے، ان کا پیغام نہ کسی فاسد تمدن کا رد عمل ہوتا ہے، اور نہ کسی ظالم اقتصادی و سیاسی نظام کے خلاف عوامی جذبے کا اظہار، وہ صرف وحی نبوت کا نتیجہ ہوتا ہے، اور اس کے لیے یہی تعبیرات زیادہ صحیح اور موزوں ہیں۔
حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت طیبہ کے بیان اور آپ کے پیغام کی تعبیر و تشریح میں نہایت احتیاط کرنی چاہیے، اور اس کے لیے وہی اصطلاحات و تعبیرات باقی رکھنی چاہییں جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں اور آپ کو سب سے زیادہ جاننے اور سمجھے والے صحابہ کرام نے استعمال کی ہیں، نیز سیرت طیبہ کے بیان کو جو عمومی رنگ اور فضا ہو وہ اسی رنگ اور فضا سے بالکل ہم آہنگ ہونی چاہیے جس کا قرآن اور حدیث رسول کا گہرا مطالعہ کرنے والا مشاہدہ کرتا ہے۔

قدیم سرمایہ سیرت پر ایک نظر
جامع اور متوازن سیرت نگاری اور تجزیاتی مطالعے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس سیرت پر جو مواد موجود ہے اس کی نوعیت پر نظر ہو، یہ بھی معلوم ہو کہ کسی عہد میں اس فن کے داغ بیل پڑی؟ وہ کس ماحول میں تیار ہوا؟ جس زمانے میں وہ پروان چڑھا اس کے رجحانات کیا تھے؟ یہ بھی تفصیل سے معلوم ہو کہ اس سرمایے کے اپنے مآخذ کیا ہیں؟ ان کی استنادی حیثیت اور مرتبہ کیا ہے؟ اور اس کی جانچ پر کھ کے کیا اصول ہیں؟۔
جہاں تک سیرت کے مآخذ کی درجہ بندی اور ان کے تاریخی و روایتی استناد کا تعلق ہے، یہ ایک طویل موضوع ہے۔ ہمارے ہندوستانی مؤلفین میں علامہ شبلی اور ان کے بعد کے کئی محققین نے اپنی کتب سیرت کے مقدموں میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے، بہت کم ہی ضروری مباحث ایسے ہیں جو ان کے یہاں نہیں ملتے، لہذا اس سرمایے سے متعلق کچھ متفرق ضروری باتیں عرض کی جارہی ہیں۔
۱۔ یہ بات خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ اولین سیرت نگاروں نے وسیع معنی میں سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ اپنا مقصود نہیں بنایا تھا، ان کی توجہ کا اصل مرکز یہ چند پہلو تھے۔ :(۱) رسول اکرم کی قبل بعثت زندگی خاص طور پر خاندانی پس منظر، ولادت، رضاعت و غیرہ۔ (۲) بعثت کے بعد کے اہم واقعات و حوادث، خاص طور پر مکی معاشرے کی سیاسی صورت حال۔ (۳) مدنی عہد میں خاص طور پر غزوات و سرایا اور سیاسی آویزشیں، اس صورت حال کا اندازہ کرنے کے لیے صرف اس بات پر غور کرنا کافی ہوگا کہ فن سیرت کا نام ’’علم السیرۃ‘‘ کے بجائے ’’علم المغازی‘‘ رکھا گیا، شاید بلکہ غالباً اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان حضرات نے ان پہلوؤں کو خاص طور پر محفوظ کرنا چاہا جن کو محدثین کرام اپنے موضوع بحث سے کسی حد تک خارج سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے جمع و تدوین اور بحث و تحقیق کے دائرے میں صرف آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی ارشادات، احکام و قضایا، مواعظ و خطبات اور سنن و فرائض کی ادائیگی کے طریقے اور حقائق دین و ایمان سے متعلق روایات کو ہی رکھا تھا۔
ابن اسحاق دوسری صدی میں اپنی مغازی ترتیب دے چکے تھے، موسی بن عقبہ بھی ان کے ہم عصر تھے، انہوں نے اس فن کی طرح جن بنیادوں پر ڈالی وہ اسی پر قائم رہا، ابن سعد اور طبری جیسے مورخین نے بھی عہد نبوی کی تاریخ کے لیے ان ہی بنیادوں کو استعمال کیا، ابن قیم کی زاد المعاد اور چند دوسری کوششوں کے استثناء کے ساتھ فن سیرت جدید دور (یعنی چودھویں صدی ہجری) سے پہلے ان خطوط پر ہی اپنا سفر طے کرتا رہا، محدثین کے حلقے نے اس پر شمائل اور دلائل نبوت کا اضافہ بھی کیا۔
۲۔ سیرت و تاریخ اسلام کی روایات جس زمانے میں جمع و تدوین کے مرحلوں سے گذر کر کتابی اور مرتب علمی انداز میں محفوظ کی جانے لگیں، یہ وہ زمانہ ہے جب امویوں کی شمشیر خار اشگاف نے چہار دانگ عالم میں تہلکہ مچا رکھا ہے، اور غلبہ و اظہار دین کا خدائی وعدہ پورا ہوچکا ہے۔ اس فضا کا اثر تھا یا روایتی تاریخ نویسی کا قدیم انداز کہ سیرت نگاری پر ’’مغازی‘‘ کی فضا چھا گئی، اگر آپ سیر و تاریخ کے مآخذ دیکھیں اور حدیث و سنت کے ذخیروں سے اسلام کے روحانی اصلاحی اور اخلاقی کارناموں کو جمع نہ کریں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت نامکمل سیرت ہوگی، جس میں آپ ایک تحریک کے بانی، ایک فاتح، یا ایک مصلح اور فرمانروا زیادہ نظر آئیں گے، ایک نبی و صاحب وحی اور مکمل بشری نمونہ کی تصویر کم بنے گی، آپ کو پورا عہد مدنی غزوات کے اردگرد طواف کرتا نظر آئے گا، اور عہد مدمکی کی اتنی کم تفصیلات ملیں گی کہ بے اختیار تاریخی مآخذ کی تنگ دامانی کا شکوہ کرنے کو دل چاہے گا۔
فن سیرت کے قدیم مآخذ پر ’’مغازی‘‘ کی چھائی ہوئی فضا کو اور اس عہد کے عمومی ماحول کو سامنے ضرور رکھنا چاہئے، اور کوشش کرنی چاہیے کہ اصل واقعہ اور اس ماحول کے زیراثر کی گئی اس کی تشریح و توضیح جو راوی اور مورّخ خود کرتا ہے دونوں کے درمیان فرق کیا جائے۔
۳۔ فن حدیث اور فن سیرت کی روایات کے درمیان ایک اہم فرق بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے، علماء اسلام نے حدیث کو براہ راست دین کا حصہ اور وحی ربانی سمجھ کر جمع کیا، اور اس کے لیے وہی احتیاط برتی جو اس کا حق تھی۔ احتیاط کے پیش نظر ایک ایک روایت کو الگ الگ بیان کیا، ان کے درمیان تاریخی یا فنی ترتیب و تسلسل قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، بیان میں کم از کم اپنے فہم و فکر کو اثر انداز ہونے کا موقعہ دیا، جو راوی نے کود سنا وہ بیان کیا، اپنی طرف سے اسباب و علل کے بیان سے پرہیز کیا۔ پھر اس فن کے ناقدوں نے اس کو دسیوں کسوٹیوں پر رکھا، داخلی و خارجی ذرائع استعمال کیے، اصل واقعے کے بیان میں کہیں کسی سے کوئی تسامح ہوا تو اس کو بھی پکڑا، راوی نے کہیں تشریح و توضیح کے طور پر اپنی طرف سے کوئی بات شامل کردی کیے، اصل واقعے کے بیان میں کہیں کسی سے کوئی تسامح ہوا تو اس کو بھی پکڑا، راوی نے کہیں تشریح و توضیح کے طور پر اپنی طرد سے کوئی بات شامل کردی تھی (جس کو محدثین کی اصطلاح میں ادراج کہتے ہیں) تو اس کو مختلف روایات کے مطالعے کے ذریعہ اس کو بھی الگ کیا۔۔۔۔ اس کے برخلاف سیرت و تاریخ کی روایات میں ایسا نہیں ہوسکا، ابتدائی سیرت نگاروں نے تاریخی تسلسل کو باقی رکھنے کے لیے الگ الگ روایات کو باہم ملایا بھی، اپنے قیاس سے اس کی تفسیر اور اسباب و محرکات بھی بیان کیے۔ ظاہر بات ہے علماء اسلام کے نزدیک تاریخی واقعات کی وہ اہمیت نہیں تھی جو ان کی شریعت اور دینی واجبات کی تھی، اس لیے اس سرمایہ کو فن حدیث کے ’’صرّافوں‘‘ نے اپنے سخت معیاروں پر جانچا بھی نہیں، یہاں تک کہ وہ روایات و اخبار جو محدثین کی کتابوں میں تاریخ و سیرت سے متعلق موجود ہیں، خود محدثین نے ان کی اس طرح جانچ پرکھ نہیں کی ہے جس طرح وہ احکام شریعت کی روایات کی کیا کرتے تھے۔ ہمارے سرمایہ حدیث میں احکام کی روایات پر ناقدین حدیث نے نقد و تحقیق کے اصول زیادہ سختی سے برتے اور باریک بینی سے استعمال کیے ہیں، دیگر روایات میں انہوں نے اتنی باریک بینی سے کام نہیں لیا، اس لیے یہ بات ظاہر ہے کہ دونوں کا درجہ ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔
۴۔ مسلمانوں نے روایات حدیث و تاریخ کی تنقید کے لیے جو منفرد نظام ایجاد کیا وہ بجا طور پر ان کی علمی تاریخ کا ایک درّ بے بہا اور قابل صد فخر کارنامہ ہے، جس سے ممکنہ حد تک کسی تاریخی روایت کی جانچ کی جاسکتی ہے، اور اس کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ عام طور پر یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ سیرت نبوی کی روایات کی جانچ ان اصولوں پر نہیں کی جاسکتی۔ عموما اس کی وجہ یہ خیال کی جاتی ہے کہ یہ اصول نہایت سخت ہیں، اور ان کی معقولیت و افادیت فن حدیث میں اس لیے تھی کہ اس پر عقائد و ایمانیات اور حلال و حرام کا دار و مدار تھا، سیرت نبوی تو محض تاریخی واقعات و حوادث کے قسم کی چیز ہے، اس لیے اس کی روایات کو اتنے سخت اصولوں پر کسنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو صورت حال اس سے مختلف نظر آئے گی، سیرت نبوی کا تعلق براہ راست ہمارے مرکز ایمان یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے، سیرت ہمارے لیے گویا وہی مقام رکھتی ہے جو ابتدائے اسلام کے لوگوں کے لیے ذات نبوی کا تھا، سیرت پوری کی پوری دین ہے، اس میں کمزور روایتیں قدم قدم پر ہماری عقیدت کا امتحان لیں گی۔
ہاں! جو روایتیں خالص تاریخی نوعیت کی ہیں تو ان کو واقعات کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے اور اس عہد کی تصویر کو مکمل کرنے لیے ضرور استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ روایتیں اسلام کے ان اصولوں سے کسی درجہ میں بھی نہ ٹکرائیں جو قرآن اور قوی ترین روایتوں سے ثابت ہوتے ہیں، ان روایتوں کو لازمی طور پر اس معجزانہ حد تک کے پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے جس کا رسول اسلام حامل تھا اور جس کی یقینی گواہی صحیح کتب حدیث کا ایک ایک صفحہ دیتا ہے۔
۵۔ شاید یہ خیال بھی زیادہ صحیح نہیں کہ کتب حدیث کے ذخیرہ میں سیرت نبوی اور عہد نبوی کے تاریخی پہلوؤں سے متعلق روایات بہت کم ہیں، واقعہ یہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں عہد نبوی کے تاریخی پہلوؤں سے متعلق بہت مواد ملتا ہے، اور بسا اوقات تو اس کی نوعیت بڑی اہم اور غیر معمولی ہوتی ہے، کبھی کبھی ان میں ایسے پہلو ریکارڈ ہوجاتے ہیں جن کا کوئی سراغ تاریخ و سیر کی کتابیں نہیں دیتیں۔ یہ روایتیں حدیث کی تمام کتابوں میں بکھری ہوتی ہیں، ان کو جمع کرنا ایک لمبا کام ضرور ہے۔ مگر اب لوگ کرنے لگے ہیں۔ عربی اور اردو میں دو الگ محققین نے بخاری و مسلم کی ان روایات کو جمع کیا ہے جو تاریخی نقطہ نظر سے سیرت نبوی سے متعلق ہیں۔ مسند احمد کی فقہی ترتیب ’’الفتح الربانی‘‘ کی تیر ہویں اور بیسیوں، اکیسویں اور بائیسویں جلد میں سیرت سے متعلق نہایت وافر سرمایہ موجود ہے۔ سیرت کے معروف ماہر اور مورخ ڈاکٹر اکرم ضیاء عمری کے زیرنگرانی متعدد محققوں نے سیرت کے الگ الگ عہدوں اور ابواب سے متعلق حدیث و تاریخ کی روایات جمع کی ہیں، اور ان کی محدثین کے اصول کے مطابق جانچ کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ یہ کام جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) کے پی ایچ ڈی اور ایم اے کے مقالات کی شکل میں تقریبا مکمل ہوچکا ہے۔ کچھ چیزیں طبع ہوچکی ہیں اور کچھ منتظر طباعت ہیں۔(جاری ہے۔۔۔)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مزید پڑھیں: دوسری قسط

بقلم مولانا محمدیحییٰ نعمانی (ایڈیٹر ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ۔ بھارت)
بشکریہ ماہنامہ الشریعہ(اگست 2004ء)


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت اور اس کی نگارش کا طریقہ و منہاج (پہلی قسط)

  1. […] ــــــــــــــــــــــــــــ مزید پڑھیں: پہلی قسط […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں