حضرت مولانا قاضی نورمحمد اعوان

حضرت مولانا قاضی نورمحمد اعوان

حضرت مولانا قاضی نورمحمد بن قاضی شیر محمد بن زین العابدین سنہ ۱۸۹۶ء؍ ۱۴۔۱۳۱۳ھ میں موضع پڑی ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ اعوان برادری کے چشم و چراغ تھے۔ تین پُشتوں سے خاندان میں دینی تعلیم کی روایت چلی آرہی تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد حضرت مولانا غلام رسول انہی والے کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر دارالعلوم دیوبند اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ اور دیگر اکابر اساتذہ سے دورہ حدیث پڑھ کر سندِ فضیلت حاصل کی۔ سنہ ۱۹۲۲ء؍۴۱۔۱۳۴۰ھ میں آبائی وطن سے ترک سکونت کرکے قلعہ دیدار سنگھ چلے گئے تھے۔ یہاں ’’مدرسہ محمدیہ‘‘ کی بنیاد رکھی اور تدریسی، تبلیغی اور تصنیفی خدمات میں زندگی گزار دی۔ آپ کو توحید و سنت کی تبلیغ میں شدید انہماک تھا۔ وعظ پر تاثیر ہوتا تھا۔ درس قرآن میں بلا کی روائی تھی۔
آپ حضرت مولانا حسین علی رحمہ اللہ واں بچھراں سے بیعت تھے اور ان کے اجل خلفاء میں شمار ہوتے تھے۔ نہایت عابد و زاہد، ذاکر و شاغل اور خوش پوش عالم تھے۔ جب سنہ ۱۳۸۱ھ میں علمائے دیوبند حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پر دو گروپوں میں بٹ گئے تھے اور تند و تیز تقریریں، مناظرے اور کتابیں لکھی جارہی تھیں تو آپ نے اصلاح کے لئے سعی فرمائی تھی۔ پھر اس سلسلہ میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمدطیب صاحب رحمہ اللہ مہتمم دارالعلوم دیوبند محرم ۱۳۸۲ھ میں پاکستان تشریف لائے اور دونوں گروپوں کے سرکردہ رہنماؤں کو یکجا کیا اور حیات النبی صلی اللہ علیہ ولسم کے مسئلہ پر علمائے دیوبند کا یہ انتشار ختم ہوا۔ دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں اسی مقصد کے لئے علماء جمع تھے۔ حضرت قاضی صاحب بھی جمعیت اشاعت و سنت پاکستان کے مرکزی صدر کی حیثیت سے علماء کے اجلاس میں تشریف لائے تھے کہ اچانک ۲۲؍محرم الحرام ۱۳۸۲ھ (۲۶؍جون سنہ ۱۹۶۲ء) کو روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ ہزاروں علماء اور عقیدت مندوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ امامت کے فرائض حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی رحمہ اللہ نے ادا کئے۔
جناب حافظ محمد ظہور الحق ظہور نے تعزیتی نظم کہی۔ تاریخ وفات اس شعر میں ضبط کی ہے۔

سالِ تاریخ وفاتش ہاتفم در گوش گفت
روحِ اور، بار رحمت خالق، بفضل حق رسید
۱۳۸۲ھ

حضرت قاضی صاحب نے حسبِ ذیل کتابیں تالیف کی ہیں:
۱۔ صاعقۃ الرحمن دو حصے، ۲۔ صلوۃ الرسول، ۳۔ ازالۃ الرین عن مسئلۃ رفع الیدین، ۴۔ ازالۃ اللوہام عن عدم الفاتحہ خلف الامام، ۵۔ ازالۃ الترعن عدد رکعات التراویح و الوتر، ۶۔ مسئلہ علم غیب، ۷۔ مسئلہ حاضر و ناظر، ۸۔ اقامۃ البرہان علی اہل اللطیان و غیرہ۔
حضرت قاضی صاحب قدس سرہ کے جانشین اُن کے صاحبزادے مولانا قاضی عصمت اللہ ہیں جو دینی و تعلیمی خدمات میں مصروف ہیں اور اس وقت ممتاز علماء میں شمار ہوتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں