قرآن مجید میں کلمۃ ” الفتنۃ ” کا معنی

قرآن مجید میں کلمۃ ” الفتنۃ ” کا معنی

میں نے دیکھا ہے کہ قرآن مجید میں کلمۃ ” الفتنۃ ” کئ سورتوں اور آیات میں باربار استعمال ہوا ہے ، تو کیا اس کی تفسیرمیں کوئ اختلاف ہے ، اور اس میں کون کون سے معنی پاۓ جاتے ہيں ؟

الحمد للہ
الفتنۃ کی تعریف :
اول :
لغت میں فتنہ کی تعریف :
ازھری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ : کلام عرب میں فتنہ کے جمیع معنی : ابتلاء ، امتحان ،کے ہیں ، اور اس کا اصل یہ ہے جیسا کہ آپ کہیں فتنت الفضۃ والذھب ، یعنی میں نے سونے اورچاندی کوآگ میں پگلایا تا کہ ردی اوراچھے کی تمیزہوسکے ۔
اور اسی سے اللہ تعالی کایہ فرمان ہے :
{ یومھم علی النار یفتنون } یعنی انہیں آگ میں جلایا جاۓ گا ۔( تھذیب الغۃ 14 / 296 ) ۔
ابن فارس کا کہنا ہے : فاء ، تاء اورنون اصل صحیح ہیں جوکہ ابتلاء اور امتحان پردلالت کرتے ہیں ( مقاییس اللغۃ 4 / 472 ) ۔
تولغت میں فتنہ کا اصلی معنی یہی ہے ۔
ابن اثیر رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے :
الفتنۃ : امتحان اور اختبار ( آزمائش ) کو کہتے ہیں ، اس کا کثرت سے استعمال ناپسندیدہ آزمائش میں نکلنے میں ہوتا ہے ، پھر اس کا استعمال گناہ ، کفر، اور قتال ولڑائ ، جلانے اور زائل اور کسی چيزسے ہٹانے پر ہونے لگا ( النھایۃ 3 / 410 ) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے بھی فتح الباری میں اسی طرح بیان کیا ہے ( 13 / 3 ) ۔
اور ابن اعرابی نے فتنہ کے معانی کی تلخیص کرتے ہوۓ کہا ہے :
امتحان فتنہ ہے اور آزمائش بھی فتنہ ہے اور مال واولاد فتنہ ہے ، اور کفراور لوگوں کا آراء میں اختلاف بھی فتنہ ہے ، اور آگ کے ساتھ جلانا بھی فتنہ ہے ( لسان العرب لابن منظور ) ۔
دوم :
کتاب وسنت میں فتنہ کے معنی :
1 – ابتلاء اور اختبار کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے : { احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لایفتنون } ( کیا لوگوں نے یہ خیال کررکھا ہے کہ صرف ان کے اس دعوے پرکہ ہم ایمان لاۓ ہیں ہم انہیں بغیرآزماۓ ہوۓ ہی چھوڑ دیں گے ؟ ) العنکبوت ( 2 ) یعنی انہیں آزماۓ بغیر ہی اور اسی طرح ابن جریر میں بھی ہے ۔
2 – الصد عن السبیل والرد ، اللہ تعالی کے راستہ سے روکنے کے معنی میں : جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :
{ واحذرھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک } آپ ان سے ہوشیار رہیے کہ کہیں وہ آپ کو اللہ تعالی کے اتارے ہوۓ کسی حکم سے ادھر ادھر نہ کردیں ۔ المائدۃ ( 49 ) امام قرطبی کہتے ہیں کہ : آپ کوروک اور ہٹادیں ۔
3 – عذاب کے معنی میں : جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :
{ ثم ان ربک للذین ھاجروا من بعد مافتنوا ثم جاھدوا وصبروا ان ربک من بعدھا لغفور رحیم } جن لوگوں نے فتنوں میں ڈالے جانے کے بعد ھجرت کی پھر جھاد کیا اور صبر کا ثبوت دیا بیشک آپ کا رب ان باتوں کے بعد انہیں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا ہے ۔ النحل ( 110 ) یہاں فتنوا ۔عذبوا کے معنی میں استععال ہوا ہے ،
4 – شرک اور کفر کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان میں ہے :
{ وقاتلواھم حتی لاتکون فتنۃ } اور ان سے لڑو جب تک کہ شرک مٹ نہ جاۓ ۔البقرۃ ( 193 )ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس کا معنی شرک ہے۔
5 – معاصی اور نفاق میں وقوع کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان میں ہے :
{ ولکنکم فتنتم انفسکم وتربصتم وارتبتم وغرتکم الامانی } لیکن تم نے اپنے آپ کوفتنہ میں پھنسا رکھا تھا اورانتظار میں ہی رہے اور شک وشبہ کرتے رہے اور تمہیں تمہاری فضول تمناؤں نے دھوکے میں ہی رکھا ۔ الحدید ( 14 ) ۔
امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : تم نے اسے نفاق میں ڈال دیا اور معاصی اور شھوات کے استعمال سے اسے ہلاک کرڈالا ۔
6 – حق کا باطل سے اشتباہ کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے اس فرمان میں ہے :
{ والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر } کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور زبردست فساد ہوگا ۔ الانفال ( 73 ) ۔
تو معنی یہ ہے کہ : اگر مومن کافر کے علاوہ دوستی نہیں لگائيں گے اگرچہ وہ رشتہ دارہی کیوں نہ ہو توزمین میں حق وباطل کے درمیان شبہ پیدا ہوجاۓ گا ۔ جامع البیان لابن جریر ۔
7 – اضلال کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے اس ارشاد میں استعمال ہوا ہے :
{ ومن یرد اللہ فتنتہ } اورجس کا اللہ تعالی کوگمراہ کرنامنظورہو ، تویہاں پرفتنہ کا معنی اضلال گمراہ کرنا ہے ۔ البحر المحیط لابی حیان ( 4 / 262 ) ۔
8 – قتل اور قید کے معنی میں استعمال ہوا ہے :
جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان ہے :
{ وان خفتم ان یفتنکم الذين کفروا } اگر تمہیں ڈرہوکہ کافرتمہیں ستائيں گے ۔
یہاں پر کافروں کا مسلمانوں پر نمازمیں سجدہ کی حالت میں حملہ کرنا مراد ہے تاکہ وہ انہیں قتل کردیں یا پھر قیدی بنا لیں ۔ ابن جریر نے اسی طرح کہا ہے ۔
9 – لوگوں ميں اختلاف اور دلوں کا مخالف ہونا کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان میں ہے :
{ ولاوضعوا خلالکم یبغونکم الفتنۃ } بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑاتے اور تمہیں فتنہ میں ڈالنے کی تلاش میں رہتے ۔
یعنی تمہارے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کرتے ، الکشاف ( 2 / 277 ) ۔
10 – جنون کے معنی میں استعمال ہوتا ہے : جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : { بایکم المفتون } تویہاں پر مجنون کے معنی میں ہے ۔
11 – آگ سے جلانے کے معنی میں : اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : { ان الذین فتنوا المومنون والمومنات } بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں کوستایا ۔البروج ( 10 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
اس کی مراد سیاق وسباق اور قرائن سے معلوم ہورہی ہے ۔ فتح الباری ( 11 / 176 )
تنبیہ :
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
وہ فتنہ جس کی اضافت اللہ تعالی اپنی طرف یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کریں مثلا اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ وکذالک فتنا بعضھم ببعض } اوراسی طرح ہم نے بعض کوبعض سے آزمایا
اور موسی علیہ السلام کا قول ہے
{ ان ھی الافتنتک تضل بھا من تشاء وتھدی من تشاء }
تو یہ اور معنی میں ہوگا جو کہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کوخیر وشراورنعمتوں اور مصائب سے ابتلاء اور امتحان و آزمائش کے معنی میں ہے ۔
تو یہ ایک رنگ ہے اور مشرکوں کا فتنہ اوررنگ ہے ، اور مومن آدمی کا فتنہ اس کے مال و اولاد اور پڑوسی میں ہونا اس کا رنگ اور ہے ، اور وہ فتنہ جو اہل اسلام میں پیدا ہوتا ہے جیسا کہ علی اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھیوں کے درمیان پیدا ہوا ، اور اہل جمل کے درمیان ، اور مسلمانوں کے درمیان حتی کہ وہ آپس میں لڑائ کریں یہ اور قسم ہے ۔ زاد المعاد ( 3/ 170 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں