مسخ شدہ لاشیں، پریشانی اور اذیت کی وجہ

مسخ شدہ لاشیں، پریشانی اور اذیت کی وجہ
baloch_missing_campکراچی(بی بی سی) بلوچستان سے نہ قابل شناخت اور مسخ شدہ لاشیں لاپتہ بلوچ نوجوانوں کےگھروں میں پریشانی اور اذیت کا باعث بن رہی ہے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ لاش ان کے لاپتہ نوجوان کی تو نہیں ہے۔

کراچی سے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق پریس کلب کے باہر لاپتہ بلوچ نوجوانوں کے اہل خانہ دوبارہ احتجاجی کیمپ لگاکر بیٹھ گئے ہیں۔
ان کی نظریں آنے جانے والی صحافیوں پر لگی رہتی ہیں کہ وہ کب آکر ان کی کرب ناک کہانی سنیں گے مگر بہت کم ہی صحافیوں کے قدم ان کی طرف اٹھتے ہیں۔
لاپتہ عبدالجلیل بلوچ کے والد عبدالقادر بلوچ جو ’وائس فار مسنگ پیپلز‘ کے وائس چیئرمین ہیں اس کیمپ کے سربراہ ہیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں فریکچر ہے جو پٹی کی مدد سے بندھا ہوا ہے، وہ صبح سویرے آکر لاپتہ نوجوانوں کی تصاویر سجاکر اپنے احتجاج کا آغاز کرتے ہیں۔
’ پچھلے سال بھی ہم کراچی آئے تھے یہاں تین دن کا کیمپ لگایا، پھر اسلام آباد میں چار پانچ روز بھوک ہڑتال کی، اس کے علاوہ کوئٹہ میں پانچ ماہ تک احتجاج کیا، اب دوبارہ کراچی آئے ہیں۔‘
جلیل بلوچ کوئٹہ میں ایک بینک میں ملازم تھے۔ ان کے پانچ سالہ بیٹے کے دل میں سوراخ ہے جسے ڈاکٹروں نے خوش رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔
عبدالقادر بلوچ کے مطابق انہوں نے اپنے پوتے کو سمجھایا ہے کہ ان کے والد کراچی میں کام کر ر ہے ہیں لیکن کب تک وہ جھوٹ کا سہارا لیں گے یہ معلوم نہیں۔ غریب خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے علاج کی پریشانیاں اس تکلیف سے الگ ہیں۔
مسخ شدہ لاشیں جب بھی آتی ہیں تو ایک کہرام سا مچ جاتا ہے، ان کی والدہ، بہنیں، بیوی اور دیگر رشتے دار رونا پیٹنا شروع کردیتے ہیں کہ اے خدا یہ ہمارا لخت جگر نہ ہو، گو کہ سارے بلوچ ہمارے بھائی اور بیٹے ہیں مگر اپنی اولاد سے پیار اور ہوتا ہے۔
کالج کے طالب علم سمیر بلوچ تربت سے لاپتہ ہیں۔ ان کے والد عبدالکریم بلوچ مزدور ہیں اور وہ بھی گزشتہ تین ماہ سے احتجاج میں مصروف ہیں۔’میں نے ان سے معلوم کیا کہ اس احتجاج کا کچھ فائدہ ہوا؟‘
’ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا مگر ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں اسے گم کرنے کے بعد مارکر لاش نا پھینک دیں، کسی کی لاش ملتی ہے کسی کی نہیں ملتی، پچھلے دنوں روپ کے علاقے سے لاشیں ملی تھیں ہم بھی دیکھنے گئے تھے اور جگہوں پر بھی جانا پڑتا ہے۔‘
اس احتجاجی کیمپ کے شرکاء حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے لاپتہ افراد کی رہائی اور انہیں عدالتوں میں لانے کا اعلان کیا ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ اس لیے وہ ایمنسٹی انٹرنشینل اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی مدد کریں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں