بيويوں كى شكايت كرنے والے كو پندونصائح

بيويوں كى شكايت كرنے والے كو پندونصائح
rights_of_husband_wifeجناب مولانا صاحب ميرا سوال بيويوں كے ساتھ تعامل كے متعلق ہے كيونكہ ميري دو بيوياں ہيں پہلى بيوى سے ميرے تين بچے ہيں اور وہ چوتھے بچے كى ماں بننے والى ہے، اور دوسرى بيوى سے ميں تقريبا سات ماہ قبل شادى كى ہے، جناب مولانا صاحب ميرا سوال يہ ہے كہ:

ايك دن مجھے دوسرى بيوى كہنے لگى: مجھے آپ كى پہلى بيوى نے بطور نصيحت يہ بات كہى كہ: عنقريب تم اپنى شادى پر نادم ہوگى، يعنى ميں نے اتنى مدت سے اپنے بچوں كى وجہ سے صبر و شكر كر رہى ہوں.
دوسرى بيوى كہنے لگے: اس نے مجھے آپ كے متعلق بہت باتيں كيں ليكن ميں نے اسے خاموش كرا ديا، اور اسے كہا كيا تمہيں علم ہے كہ يہ غيبت اور چغلى شمار ہوتى ہے؟ اور اسے نصيحت كى اور اللہ كا خوف دلايا، اس طرح كى حالت اور موقف ميں كيا كرنا چاہيے ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميں نے دونوں ميں سے كسى ايك كے ساتھ بھى كوئى كمى و كوتاہى نہ برتى، اور انہيں آپس ميں بہنيں بن كر رہنا ديكھنا پسند كرتا ہوں، اور ميں ان دونوں كے ساتھ اسى بنياد پر سلوك كرتا ہوں، اور استطاعت كے مطابق كوشش كرتا ہوں كہ ايك كى جانب سے نكلى بات كو دوسرے سے چھپاؤں اور اسے پردہ ميں ركھوں، اور استطاعت كے مطابق كوشش كرتا ہوں كہ ان دونوں كے ذاتى اخراجات ميں بھى عدل سے كام لوں اور رات بسر كرنے ميں بھى، اور باقى حياۃ زوجيت ميں بھى برابرى كى كوشش كرتا ہوں.
اور ميں پسند كرتا ہوں كہ ہم ايك ہى خاندان كى طرح اكٹھے جائيں اور گھوميں، برائے مہربانى كوئى نصيحت فرمائيں ؟

الحمد للہ:

اول:
ايك سے زائد بيويوں والے شخص كے ساتھ گھر ميں اس كى بيويوں كے مابين جو كچھ ہوتا ہے وہ ايك طبعى چيز ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے عورتوں كو سوكنوں كى غيرت پر پيدا كيا ہے، اس سے تو وہ عظيم عورتيں جو مومنوں كى مائيں تھى يعنى امہات المومنين بھى نہ بچ سكيں، ذيل ميں ہم ان كے متعلق چند ايك قصے اور واقعات ذكر كرتے ہيں:
1  ـ  انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى ايك بيوى كے پاس تھے كہ امہات المومنين ميں سے كسى ايك نے آپ كو ايك پليٹ ميں كچھ كھانے كى چيز بھيجى تو جس كے گھر ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تھے اس بيوى نے خادم كے ہاتھ پر مارا تو وہ پليٹ نيچےگر كر ٹوٹ گئى اور كھانا بكھر گيا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اس كھانے كو پليٹ ميں جمع كرنا شروع كر ديا اور فرمانے لگے:
” تمہارى ماں كو غيرت آ گئى ” پھر خادم كو روك ديا اور جس گھر ميں آپ تھے وہاں سے اسے صحيح پليٹ دى اور ٹوٹى ہوئى پليٹ اس گھر ميں ركھ دى جہاں ٹوٹى تھى “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4927 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ان يعنى اكثر شارحين حديث كا كہنا ہے: اس حديث ميں اشارہ ہے كہ غيرت كى وجہ سے اگر كسى سے كچھ صادر ہو جائے تو اس كا مؤاخذہ نہيں كرنا چاہيے؛ كيونكہ اس حالت ميں شدت غضب كى بنا پر اس كى عقل پر پردہ پڑا ہوتا ہے جو غيرت كى بنا پر ہے، اور ابو يعلى نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے سندا مرفوع بيان كيا ہے جس ميں كوئى حرج نہيں كہ:
” غيرت والى عورت اوپر سے نيچے كى طرف نہيں ديكھ سكتى “
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 325 ).
ـ  انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ ہى سے روايت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نو بيوياں تھى، جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان ميں بارى تقسيم كرتے تو پہلى بيوى كے پاس نو دن كے بعد ہى جاتے، وہ سب بيوياں ہر رات اس بيوى كے گھر جمع ہوتيں جس كى بارى ہوتى تھى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كےگھر ميں تھے تو وہاں زينب رضى اللہ تعالى عنہا آئيں تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے ان كى جانب اپنا ہاتھ بڑھا كر كہا يہ زينب ہے ” تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا ہاتھ روك ديا، چنانچہ وہ ايك دوسرے كو كچھ كہنے لگيں حتى كہ ان كى آواز بلند ہو گئى اور آپس ميں خلط ملط ہو گئى اور نماز اقامت ہو گئى تو وہاں سے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو گزر ہوا تو انہوں نے دونوں كى آواز سنى اور كہنے لگے:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نماز كے ليے تشريف لے چليں اور ان كے منہ ميں مٹى ڈاليں، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چلے گئے تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: اب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى نماز پورى كريں گے اور ابو بكر آ كر ميرے ساتھ يہ يہ كريں گے، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز مكمل كر لى تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ آئے اور عائشہ كو سخت باتيں كيں اور كہنے لگے: تم ايسا كرتى ہو ؟ “
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1462 ).
استخبتا يہ سخب سے ہے اور آوازوں كا آپس ميں ملنے اور بلند ہونے كو سخب كہا جاتا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا زينب كى طرف ہاتھ پھيلانا اور يہ كہنا كہ: يہ زينب ہے، اس كے متعلق كہا گيا ہے كہ يہ عمدا اور جان بوجھ كر نہيں تھا، بلكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اسے بارى والى گمان كيا تھا؛ كيونكہ يہ رات كا وقت تھا اور گھروں ميں چراغ نہيں تھے، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ ان كى رضامندى سے تھا….
اور اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حسن معاملہ اور نرمى اور سب كے ساتھ حسن اخلاق كے ساتھ پيش آنے كا ثبوت پايا جاتا ہے”
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 10 / 47 – 48 ).
يہ سوكنوں كے آپس ميں كچھ حالات تھے، اور وہ بھى امہات المومنين اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں كے اس ليے جو بھى ايك سے زيادہ شادياں كرنا چاہتا ہے اس كے ذہن ميں يہ ہونا چاہيے كہ اس كى بيويوں كے مابين غيرت اور بہت سارا كمپيٹيشن ہو سكتا ہے، ليكن ان مواقف اور حالات سے نپٹنے كے ليے اس كے سامنے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بطور نمونہ ہوں، وگرنہ اس كى زندگى ان كے ساتھ اجيرن ہو سكتى ہے.
اس ليے ميرے سائل بھائى يہ معاملہ صبر و تحمل اور سوكنوں كے حال كا اندازہ لگانے سے ہى حل ہو سكتا ہے، اور اس كو مدنظر ركھ كر ہى طے كيا جائے كہ ان ميں فطرتى طور پر اللہ نے غيرت ركھى ہے.
امام ذہبى رحمہ اللہ نے مغيرہ بن شعبہ كا قول نقل كيا ہے كہ:
” ايك بيوى والے شخص كى حالت يہ ہے كہ اگر بيوى بيمارى ہوئى تو وہ بھى بيمار، اور اگر بيوى كو حيض آگيا تو اسے بھى حيض آ گيا، اور دو بيويوں والا شخص تو دو آگ كے شعلوں كے درميان ہے “
ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 3 / 31 ).

دوم:
تو چيز تو ضرور متوقع ہے كہ ايك بيوى دوسرى كے مقابلہ ميں دوسرى پر طعن كر كے خاوند كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كرے، اور اس پر خاوند كو ناراض كرنے كى كوشش كرے اور يہ بھى متوقع ہے كہ ايك بيوى دوسرى پر جھوٹ بولے؛ تا كہ وہ اپنے خاوند كے سامنے ظاہر كر سكے تا كہ خاوند اسے دوسرے سے زيادہ محبت كرے اور زيادہ چاہے، يا پھر اس كى بارى ميں دوسرى سے زيادہ سعادت و خوشى اختيار كرے.
اسماء رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك عورت نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
” ميرى ايك سوكن ہے تو كيا ميرے ليے جائز ہے كہ ميں اس كے سامنے خاوند جو مجھے ديتا ہے اس سے زيادہ جھوٹ موٹ زيادہ رجى ہوئى اور سير ہوئى بن كر دكھاؤں؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جو اسے نہ ديا گيا ہو اس سے بڑھ كر دكھانا ايسے ہى ہے جيسے كسى نے جھوٹا لباس زيب تن كيا ہو “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4921 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2130 ).
امام بخارى رحمہ اللہ نے اس حديث پر باب باندھتے ہوئے كہا ہے:
” ايسے شخص كے متعلق جو اس سے بڑھ كر دكھانے كى كوشش كرے جو اسے نہيں ملا، اور سوكن پر فخر كرنے كى ممانعت “
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” قولہ: ” المتشبّع ” يعنى وہ شخص جو ايسى زينت اختيار كرے جو اس كے پاس موجود نہ ہو، اور وہ اس سے زيادہ دكھانا چاہتا ہو، اور باطل كے ساتھ مزين ہو، مثلا اس عورت كى طرح جو كسى شخص كى بيوى ہے اور اس كى سوكن بھى ہو تو اس كے پاس جو كچھ ہے اس سے زيادہ ہونے كا دعوى كرے؛ اس سے اس كا مقصد سوكن كو ستانا اور غصہ دلانا ہو…..
اور ” ثوبى زور ” ميں تثنيہ كا حكم يہ ہے كہ: يہاں اس طرف اشارہ كيا گيا ہے كہ اس نے دو قسم كا جھوٹ بولا ہے؛ كيونكہ ايك تو اس نے اپنے ساتھ جھوٹ بولا جو چيز اس نے لى ہى نہيں اور دوسرے شخص كے ساتھ بھى جھوٹ بولا جو اسے ديا ہى نہيں گيا، اور اسى طرح جھوٹى گواہى دينے والا بھى اپنے ساتھ بھى ظلم كر رہا ہے اور جس كے بارہ ميں گواہى دے رہا ہے اس كے ساتھ بھى ظلم كر رہا ہے….
اس سے مراد يہ ہے كہ جو ذكر كيا گيا ہے اس سے عورت كو نفرت دلائى جائے؛ اس خدشہ كے پيش نظر كہ خاوند اور اس كى سوكن كے مابين فساد اور خرابى پيدا نہ ہو، اور ان ميں بغض و عناد پيدا نہ ہو، تو يہ اس جادوگر كى طرح ہو گى جو خاوند اور بيوى كے مابين جدائى ڈالنے كى كوشش كرتا ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 317 – 318 ).

سوم:
ہمارے سائل بھائى: آپ جو يہ چاہتے اور رغبت ركھتے ہيں كہ دونوں بيويوں كو جمع كريں اور انہيں دو بہنوں كى طرح بنا ديں يہ اچھى چيز ہے، اور ہو سكتا ہے ہر خاوند كى رغبت بھى يہى ہو جو ايك سے زيادہ بيوي ركھتا ہے، ليكن سوكنوں كا ايك دوسرے كے ساتھ بغض ركھنا آپ كو ان كے ساتھ ايسے معاملات كرنے كى دعوت ديگا جو آپ كو ان كى غيرت اور ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كى كوشش كو مد نظر ركھ اس كا علاج كرنا ہو گا.
ہم ذيل ميں چند ايك نصيحتيں كرتے ہيں جن پر عمل كر كے آپ كے ليے ان ازدواجى مشكلات كا علاج كر سكتے ہيں:

1  ـ  آپ ان ميں سے دوسرى كى بارہ ميں ايك كى كلام پر كان مت دھريں، اور اس كا قلع قمع كرنے كے ليے آپ انہيں بالكل اس بات كى اجازت نہ ديں كہ وہ ايك دوسرے كى بات آپ كے ساتھ كريں.

2  ـ  جب دونوں بيويوں ميں كوئى مشكل پيدا ہو جائے تو آپ كو يہ نصيحت ہے كہ آپ انہيں ايك ہى جگہ جمع كريں اور دونوں كى باتيں سن كر ہر ايك كى دليل ليں، اس طرح ايك دوسرى كے بارہ ميں بہت سارا جھوٹ اور بہتان اور مبالغہ ختم ہو جائيگا.

3   ـ  دونوں بيويوں ميں سے كسى ايك كے سامنے آپ دوسرى كى برائى ظاہر مت كريں، اور آپ اور دوسرى كى سوكن ميں جو بات چيت ہوئى ہے وہ كسى كے سامنے مت كريں، نا كہ كوئى خير و بھلائى كى كلام تا كہ دوسرى اس سے حسد اور غيرت ميں مبتلا نہ ہو جائے، اور نہ ہى كوئى برائى اور شر كى كلام تا كہ وہ دوسرى كو برا نہ كہے.

4  ـ  آپ دونوں بيويوں كے مابين عدل و انصاف كرنے كى پورى كوشش كريں، اور اس سلسلہ ميں كوتاہى سے كام مت ليں حتى كہ ان اشياء ميں بھى جسے آپ واجب نہيں سمجھتے.
جابر بن زيد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ميرى دو بيوياں تھيں تو ميں ان ميں عدل و انصاف سے كام ليتا حتى كہ ان كا بوسہ لينے ميں بھى “
اور مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” وہ بيويوں كے مابين عدل و انصاف كرنا مستحب قرار ديتے تھے حتى كہ خوشبو ميں بھى، وہ ايك كو خوشبو لگاتے تو دوسرى كو بھى اسى طرح كى خوشبو لگاتے “
اور محمد بن سيرين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” خاوند كے ليے مكروہ ہے كہ وہ ايك بيوى كے گھر ميں وضوء كرے اور دوسرى كے گھر ميں نہ كرے “
اور يہ علم ميں ركھيں كہ جب يہ پورا عدل و انصاف ہو گا تو اس سے سوكنوں كى اكثر مشكلات ختم ہو جائينگى.

5  ـ  بعض ان امور ميں جنہيں آپ مناسب سمجھتے ہيں كہ ان كى حد مقرر ہونى چاہيے اس ميں سختى اور شدت اختيار كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ہم اس كا اعتراف كرتے ہيں كہ كمال نرمى اور آسانى و رحمدلى ميں ہى ہے، ليكن بعض اوقات يہ نرمى اور رحمدلى كسى كو اچھى نہيں لگتى جو اس كى قدر نہ كرتا ہو، اور جس ميں ايجابى اثر ہو.
اس ليے خاوند كو بعض اوقات اپنى بيويوں كے ساتھ شدت اور سختى سے بھى كام لينا چاہيے جب ديكھے كہ ان كے ليے سختى ميں اصلاح ہے، جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى بيويوں كے ساتھ نرمى و شفقت برتى اسى طرح بعض اوقات سختى بھى كى، جيسا كہ صحيح حديث سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى بيويوں سے ايك ماہ تك گھروں سے باہر چھوڑے ركھا، اور بلاشك يہ ان كے ليے بہت شديد اور سختى تھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پاس نہ جائيں اور ان سے عليحدہ رہيں، يہى وہ حكمت ہے جو ہم نے جواب كے شروع ميں بيان كي ہے، چنانچہ مطلقا نرمى و شفقت اور رحمدلى ہى حكمت نہيں، بلكہ چيز كو اس كى مناسب جگہ ركھنا، اور نفع مند دوائى كو اس كے مناسب موقف كے مطابق استعمال كرنا ہى نرمى اور شفقت و رحمدلى ہے.

6 ـ  يہ ضرورى ہے كہ آپ اپنى بيويوں كو وعظ و نصيحت خيال سے كيا كريں، اور ان كى راہنمائى اور نصيحت كرتے رہيں؛ كيونكہ وہ اس كى زيادہ محتاج اور ضرورتمند ہيں، كيونكہ وہ اللہ كے قرب والے كاموں سے بہت زيادہ غفلت برتتى ہيں، اور دنيا اور اس كى زينت ميں ايك دوسرے سے آگے نكلنا اور فخر نہ كرنا بھى ان ميں بہت ہى كم پايا جاتا ہے، اور اس بنا پر ان ميں كذب بيانى اور جھوٹ و غيبت اور چغلى پائى جاتى ہے، اور ايك دوسرے كے بارہ ميں خرابياں پيدا كرتى ہيں، اس ليے آپ كو اس كا ادراك اور علم ہونا چاہيے، اس سلسلہ ميں كوئى كمى اور كوتاہى مت كريں، ان شاء اللہ آپ اس كا اثرضرور ديكھيں گے اور آپ كو ازدواجى زندگى ميں سعادت حاصل ہو گى.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ سب كو ايسے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جس ميں اللہ كى رضا ہے اور وہ آپ كو اپنى عنائت ميں ركھے اور آپ كا حامى  وناصر ہو.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم.

الاسلام سوال و جواب


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں