لال مسجد آپریشن اور بگٹی کا قتل، سابق سربراہ ایم آئی اور راولپنڈی و کوئٹہ کے کمانڈر ملوث تھے

لال مسجد آپریشن اور بگٹی کا قتل، سابق سربراہ ایم آئی اور راولپنڈی و کوئٹہ کے کمانڈر ملوث تھے
red-mosqueاسلام آباد (رپورٹ: جنگ نیوز)ایک ایسے وقت میں جب مشرف نے پاکستان اور پاک فوج سمیت اس کے حکام کو نادم کرنے کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہیں۔ ایک اہم ذریعہ نے انکشاف کیا کہ سابق آمر نے لال مسجد آپریشن اور بگٹی کے قتل کے دونوں معاملات میں جی ایچ کیو اور اس کے نہایت اہم بازو ملٹری آپریشن ڈائریکٹوریٹ کو بائی پاس کیا۔

ذریعہ نے بتایا کہ ان دونوں انتہائی متنازعہ آپریشنز جس نے بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کا بیج بویا ان میں سے کوئی بھی ملٹری آپریشنز کا منصوبہ نہیں تھا۔ ذریعے نے کہا کہ ان دونوں فوجی آپریشنزمیں جی ایچ کیو اور آپریشن میں براہ راست مصروف فیلڈ کمانڈ میں کوئی رابطہ نہیں تھا۔
ایک نہایت باخبر اور اعلیٰ عہدے پر فائز ذریعہ کا کہنا ہیکہ ”ان دونوں کیسوں میں جنرل مشرف نے جی ایچ کیو اور اس کی ملٹری آپریشن ڈائریکٹریٹ کو بائی پاس کیا اور متعلقہ فیلڈ کمانڈروں کو براہ راست احکامات جاری کئے۔ فوج کے طے شدہ قوانین کے مطابق آپریشن ملٹری آپریشن ڈائریکٹریٹ کی جانب سے پر غور و فکر کئے بغیر اور منظوری حاصل کئے بغیر نہیں کئے جاسکتے۔ بہرکیف مشرف جو اپنے وقت کا نہایت طاقتور آمر تھا اس نے ایم او ڈائریکٹریٹ کو شامل نہیں کیا۔
ذریعہ نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کے معاملے میں جنرل مشرف نے اس وقت کے ملٹری انٹیلی جنس چیف میجر جنرل ندیم اعجاز اور 12ویں کورکی کمانڈ کو ملوث کیا۔ بلوچستان کے مسئلے پر اس وقت کے ڈی جی ایم او نے ایک بریفنگ اور بلوچ نواب کی ہلاکت سے بہت پہلے جنرل مشرف نے بگٹی کی ہلاکت کے آئیڈیا پر بات کی تھی لیکن اس آئیڈیا سے ڈی جی ایم او نے اتفاق نہیں کیا تھا جنہوں نے انتباہ کیا تھا کہ اس سے بے چینی پیدا ہوگی، بعد میں مشرف نے کبھی جی ایچ کیو کو شامل نہیں کیا اور بگٹی کی ہلاکت کو ایم آئی اور 12 ویں کورکے کمانڈر کی مدد سے اس پر عملی جامع پہنادیا۔ بگٹی کے قتل کے بعد جی ایچ کیو کے چند کلیدی جنرلوں نے اپنے گھریلو رابطوں میں کوہلو ملٹری آپریشن پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
لال مسجد آپریشن جس میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، وہ بھی اس ملٹری آپریشن سے مختلف نہیں تھا، جیسا کہ بگٹی کی ہلاکت کیلئے کیا گیا۔ ذریعہ کا کہنا ہے کہ لال مسجد آپریشن کی منصوبہ بندی 10 ویں کورکے کمانڈر جنرل طارق مجید نے ڈکٹیٹر کی براہ راست ہدایات کے مطابق کی۔
ذریعہ نے کہا کہ ”جی ایچ کیو اور ایم او ڈائریکٹریٹ ایسی کسی منصوبہ بندی میں شامل نہیں تھے۔ “ انہوں نے مزید کہا کہ ایک دن بعد لیفٹیننٹ کرنل ہارون لال مسجد آپریشن کے پہلے زخمی تھے۔
مشرف نے اعلیٰ سیاسی اور فوجی اتھارٹیز کے اجلاس میں اپنی اس سو چ کا اظہار کیا کہ ایک بھرپور آپریشن کرنا ہوگا۔ جی ایچ کیو کی ایک کلیدی شخصیت نے اس آپشن کے خلاف بات کی اور مشرف کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کیلئے کہا کیونکہ اس سے 100 سے زائد افراد کی زندگیوں کو خطرہ تھا۔ ڈکٹیٹر سے کہا گیاکہ جب دشمن کے معاملے میں بھی فوج کو باہر جانے کے پوائنٹ کو خالی کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے تو لال مسجد کے انتہا پسندوں کو یہ موقع کیوں نہیں دیا جاسکتا۔ مشرف کو یہ بھی تنبیہ کی گئی کہ اگر لال مسجد آپریشن پر عملدرآمد کیا گیا تو گویا ملک کو چوتھائی صدی تک کی بدنظمی کے حوالے کردیا جائے گا۔
ذریعہ نے کہا کہ مشرف نے جی ایچ کیو کے کلیدی مشیر کی بات پر کان دھرنے کے بجائے افسر کی گوشمالی کی اور ان سے کہا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں۔ بعد میں لال مسجد میں تباہی پھیلانے کی ذمہ داری 10 ویں کور کو سونپ دی گئی جس کیلئے جی ایچ کیو سے ملٹری آپریشن کی کلیئرنس بھی حاصل نہیں کی گئی۔یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ مشرف مرنے والوں کی تعداد چھپانے کیلئے انہیں نامعلوم مقام پر نذر آتش کرکے عوام کو دھوکا بھی دینا چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ سی ڈی اے لال مسجد میں ہلاک ہونے والوں کی خاموشی سے خفیہ تدفین کی ذمہ داری ادا کرے گی۔
مشرف جس نے حال ہی میں رسمی انداز میں سیاست میں شمولیت اختیارکرنے کے بعداس نے کہا ہے کہ اگر اسے موقع ملا تو وہ لال مسجد اور بگٹی کی ہلاکت ایسے آپریشنز دوبارہ کرے گا۔ ان دونوں آپریشنوں سے فوج کی بڑے پیمانے پر بدنامی ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں فوجی افراد اور فوجی تنصیبات پر ملک کے مختلف حصوں میں حملے کئے گئے ہیں۔
2006 میں درگئی کے فوجی یونٹ پر پہلا خودکش حملہ کیا گیا جس میں درجنوں فوجی ہلاک ہوئے، یہ بھی مشرف کی جانب سے باجوڑ مدرسے پر امریکی میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا نتیجہ تھا جس میں 80 بچے ہلاک ہوئے۔ اپنے امریکی آقاؤں کے زیر اثر جن کی اس نے پاکستان کے مفادات کے خلاف خدمت کی، مشرف نے کہا کہ وہ امریکی افواج نہیں تھیں بلکہ پاکستانی فوج تھی جس نے حملہ کیا اور اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو ہلاک کیا جس میں 10 سال کے بچے بھی شامل تھے۔ مشرف نے جھوٹ بولا کہ وہ دہشت گرد تھے، مدرسے سے کوئی ایک گولی بھی برآمد نہیں کی جاسکی۔
آج فوج میں شامل بہت سے افراد اعتراف کرتے ہیں کہ 9/11 کی پالیسیاں اور مشرف کے لال مسجد آپریشن اور بگٹی کو قتل کرنے جیسے فیصلے اور باجوڑ سانحے کی ذمہ داری قبول کرنے سے نہ صرف دہشت گردی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوا بلکہ اس نے فوج کو بھی متنازعہ بنادیا۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں