اطلاعات کے مطابق افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں منگل کی شب نامعلوم مسلح افراد نے چار افغان پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا ہے۔
یہ واقعہ مرکزی شہر لشکر گاہ میں اطلاعات اور ثقافت کے سرکاری دفاتر کے قریب ایک چیک پوائنٹ پر پیش آیا۔ صوبائی گورنرکے ایک ترجمان داؤد احمدی کاکہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کے محرکات ابھی واضح نہیں ہوسکے ہیں۔ ان کے بقول بظاہر ان اہلکاروں سے ملنے کے لیے کچھ لوگ آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ تحقیقات کی جارہی ہیں کہ یہ واقعہ سیاسی یا ذاتی نوعیت کا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کے جنوبی حصوں میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے نمٹنے اور امن وامان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے امریکہ اور نیٹو کے تقریباً 37000تازہ دم فوجی تعینات کیے جارہے ہیں۔
طالبان کی طرف سے گزشتہ چند میں اتحادی اور افغان سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جس کا مقصد امریکی حمایت یافتہ صدر کرزئی کی حکومت کو کمزور کرنا ہے۔
دریں اثناء صدر حامد کرزئی نے اقوام متحدہ سے کہا ہے وہ طالبان رہنماؤں کے نام اپنی بلیک لسٹ سے خارج کردے تاکہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مصالحتی حکمت عملی کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ ایک روز قبل ترکی میں ہونے والے سہ فریقی سربراہی اجلاس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ان کے اس مصالحتی پروگرام کو امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل ہے جس کے تحت ایسے طالبان ،جن کا القاعدہ یا کسی اور دہشت گرد گروپ سے تعلق نہ ہو،سے مذاکرات کیے جائیں گے۔
افغانستان کی ترقی اور یہاں امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے جمعرات کو ایک اہم اجلاس لندن میں ہورہا ہے جس میں 70سے زائد ممالک کے نمائندے شرکت کررہے ہیں۔ برطانوی عہدیداروں نے توقع ظاہر کی ہے کہ طالبان سے مفاہمت کی اس حکمت عملی کے لیے عالمی برادری کرزئی حکومت کو امداد دینے پر آمادہ ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ افغانستان کے جنوبی حصوں میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے نمٹنے اور امن وامان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے امریکہ اور نیٹو کے تقریباً 37000تازہ دم فوجی تعینات کیے جارہے ہیں۔
طالبان کی طرف سے گزشتہ چند میں اتحادی اور افغان سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جس کا مقصد امریکی حمایت یافتہ صدر کرزئی کی حکومت کو کمزور کرنا ہے۔
دریں اثناء صدر حامد کرزئی نے اقوام متحدہ سے کہا ہے وہ طالبان رہنماؤں کے نام اپنی بلیک لسٹ سے خارج کردے تاکہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مصالحتی حکمت عملی کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ ایک روز قبل ترکی میں ہونے والے سہ فریقی سربراہی اجلاس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ان کے اس مصالحتی پروگرام کو امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل ہے جس کے تحت ایسے طالبان ،جن کا القاعدہ یا کسی اور دہشت گرد گروپ سے تعلق نہ ہو،سے مذاکرات کیے جائیں گے۔
افغانستان کی ترقی اور یہاں امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے جمعرات کو ایک اہم اجلاس لندن میں ہورہا ہے جس میں 70سے زائد ممالک کے نمائندے شرکت کررہے ہیں۔ برطانوی عہدیداروں نے توقع ظاہر کی ہے کہ طالبان سے مفاہمت کی اس حکمت عملی کے لیے عالمی برادری کرزئی حکومت کو امداد دینے پر آمادہ ہوجائے گی۔
آپ کی رائے