گزشتہ ہفتہ اتوار چوبیس جولائی کی شام کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں ممتاز بلوچ عالم دین مولانا مفتی احتشام الحق آسیا آبادی اور ان کے بیٹے کی شہادت نے سب کو متاثر کیا۔ مولانا آسیاآبادی کسی مخصوص علاقے اور گروہ تک محدود نہ تھے اور ان کی خدمات سے سب فیض یاب ہوتے رہے۔
قندیل بلوچ کو قتل کر دیا گیا۔ قتل کا اعتراف بھائی نے کیا جس کا کہنا ہے کہ اُس نے یہ قتل غیرت کے نام پر کیا۔
مولانا نذرالحفیظ نے دریافت کیا: حضرت! حق واضح ہوتاہے اور اس کے دلائل بھی صاف اور روشن ہوتے ہیں، مگر پھر بھی لوگ اس کو تسلیم نہیں کرتے، سب سے بڑا مانع کیا ہے؟
ہمارے یہاں سے جو طلبہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں پڑھنے کے لیے جاتے تھے، ان کو وہاں صوفی اور حنفی کہہ کر پریشان کیا جاتا تھا۔
’’ستارہ! یہ فیشن آخر تمہارے کب تک چلیں گے، کب سے آئینے کے سامنے بال بنا رہی ہو تم، بور نہیں ہوتیں اپنی شکل دیکھ دیکھ کر؟‘‘
مقصود صاحب نے پوچھا: انگریزوں نے تعلیم و صحافت کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا، اس کی وجہ حضرت کی نظر میں کیا ہے؟
ابھی حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی رحمہ اللہ کا صدمہ وفات قلب حسرت ناک سے جدا نہیں ہوا تھا کہ شہید امارت اسلامیہ افغانستان اور انقلاب طالبان کے عظیم مربی اور محسن حضرت مولانا مفتی رشید احمد بھی داغ مفارقت دے کر مولائے حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون
جامعہ اشرفیہ کے مہتمم، سراپا اخلاق و تبسم، زندہ دل، خندہ جبیں، علم و حلم کا حسین امتزاج، شکوہ علم کے بغیر کوہ علم اور زعم تقویٰ سے خالی زبدہ اتقیاء۔
’’اف! پھر وہی مصیبت، دو وقت کے لیے بنایا تھا، سارا سالن دن ہی میں ختم ہوگیا۔ رات کے لیے پھر بنانا پڑے گا۔ کس نے ختم کیا سارا سالن؟‘‘ میں چلائی۔
انابیہ نے گلی میں جھانک کردیکھا تو ہر طرف سناٹا تھا، وہ ایک ہی جست میں رافعہ کے دروازے پر پہنچ گئی۔