بے پردگی کا وبال

بے پردگی کا وبال

’’ستارہ! یہ فیشن آخر تمہارے کب تک چلیں گے، کب سے آئینے کے سامنے بال بنا رہی ہو تم، بور نہیں ہوتیں اپنی شکل دیکھ دیکھ کر؟‘‘
’’لو کبھی حسین چہرے دیکھ کر بھی دل بھرا کرتے ہیں؟ اور میں نیٹ پر سرچ کیے تھے بالوں کے نئے نئے اسٹائل، دیکھنا چارہ رہی تھی مجھ پر سوٹ کون سے کرتے ہیں۔‘‘
ستارہ نے ناز سے کہا اور ایک بار پھر سے بالوں کا کیچر کھول دیا۔
’’سیدھے سیدھے دوبل ڈال کر چوٹی بنالو، کیوں خود کو مشقت میں ڈالتی ہو؟‘‘
بال دوبارہ کھولتے ہوئے عمارہ نے ستارہ کو دیکھا تو اپنی رائے دی۔
’’تم تو چپ ہی رہو، ہر وقت تیل بہتا رہتا ہے تمہارے بالوں سے تمہیں کیا پتہ، آج کل کیا فیشن چل رہا ہے۔
’’سب پتہ ہے مجھے، مگر ہر چیز مجھے اچھی نہیں لگتی، میری اپنی ایک پسند ہے، ایک معیار ہے۔ تمہاری طرح ذرا ذرا سی رنگ برنگی چیزیں دیکھ کر نہیں پھسلا کرتی میں۔‘‘
’’اچھا اچھا بس! زیادہ لیکچر مت دو اب، یہ لیکچر سنبھال کر رکھو، امی بتا رہی تھیں فیاض بھائی، خالہ اور شازیہ آرہے ہیں آنے والے جمعے، سو یہ لیکچر ان ہی کو دینا۔‘‘
’’اچھا!۔۔۔‘‘ عمارہ کی خوشی سے باچھیں اور حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں۔
’’کیوں جھٹکا لگ گیا، اب کچھ کچھ اچھے اچھے فیشن کی کلاسیں تم مجھے سے لے لو، فیاض بھائی بے چارے کیا کہیں گے کہ ان کی ہونے والی بیوی کتنا پرانا ماڈل ہے۔۔۔‘‘
’’بکواس بند کرو، میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘ عمارہ چڑسی گئی۔
’’مگر۔۔۔ وہ اتنی اچانک کیوں آرہے ہیں؟ امی کہہ رہی تھیں، چھے آٹھ مہینے تو لگیں گے۔‘‘
’’فیاض بھائی کو شادی کی جلدی ہو رہی ہے۔ سعودیہ میں جاب کا سلسلہ ہورہا ہے، وہ چاہ رہے ہیں جلدی ہوجائے سب کچھ، اسی مقصد کے لیے تشریف آوری ہو رہی ہے۔‘‘
ستارہ نے بالوں کی ایک لٹ پیشانی کے دائیں طرف نکالتے ہوئے جواب دیا۔
یہ اس کا پانچواں اسٹائل تھا بالوں کا، جو شاید اس کے بھاگیا تھا۔۔۔ کیوں کہ وہ آئینے میں ہر زاویے سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے عمارہ کو معلومات فراہم کررہی تھی۔
’’ویسے کتنے عرصے بعد آرہی ہوں گی خالہ!؟‘‘ ستارہ نے عمارہ سے پوچھا۔
’’مجھے تو صحیح یاد بھی نہیں، شاید کوئی دس سال کے بعد۔۔۔ خالو کا جب ٹرانسفر پنجاب میں ہورہا تھا تو خالہ اور امی کو ایک دوسرے کے بچھڑنے کا دکھ لے ڈوب رہا تھا۔ انہوں نے پھر نجانے کیوں فیاض اور میری بات پکی کردی، میں اس وقت دس ہی سال کی تو تھی۔ اس وقت تو مجھے صحیح علم بھی نہیں تھا کہیہ بات پکی کرنا کیا ہوتی ہے۔
’’پر تم جو گدھی کی گدھی ہی رہیں، آج کل لوگ کیسے اسکائپ اور واٹس اپ پر باتیں کرتے ہیں اور تم نے یہ سب نہیں کیا، کم سے کم دیکھ تو لیتے کہ وہ کیسے ہوگئے اور تم کیسی۔۔۔؟ فرض کرو وہ بہت موٹے ہوگئے ہوں تو؟ پہلے تو بہت بدلے پتلے ہوا کرتے تھے ناں۔۔۔‘‘
ستارہ نے یاد کرانے کی کوشش کی اور عمارہ کو چھیڑا۔
’’اب تو ندنکل آئی ہو یا دانت باہر نک آئے ہوں۔۔۔ شادی تو کرنی پڑے گی۔‘‘
عمارہ نے سر جھکا کر چہرے کے تاثرات کو چھپانا چاہا۔
’’اچھا۔۔۔ فیاض بھائی نے کبھی ضد نہ کی تمہیں دیکھنے کی، کہ ان کی ہونے والی بیوی کیسی ہے!؟‘‘
’’امی کہتی ہیں وہ خالہ کے بہت ہی فرمانبردار ہیں اور ویسے بھی انہیں پتہ تھا میں کتنی اچھی ہوں اور خالہ نے کیا کم ذہن سازی کی ہوگی ان کی۔‘‘ عمارہ ایک ادا سے بولی۔
’’اوہو۔۔۔ جناب خوابوں سے باہر آجائیے۔‘‘
ستارہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا۔
ستارہ کے ہوش میں لانے پر وہ شرمندہ سی ہوگئی، عمارہ کی خوشیوں بھری کیفیات دیکھ کر ستارہ اس کے گلے لگ گئی۔
’’اللہ تمہیں تمہارے خوابوں کی خوبصورت تعبیر عطا کرے، تم یہاں سے پنجاب اور پھر سعودیہ روانہ ہوگئیں تو میں کتنی اکیلی رہ جاؤں گی۔‘‘ ستارہ اداسی سے بولی۔
’’اچھا، زیادہ مسکہ مت لگاؤ، ویسے یہ ہیئر اسٹائل تمہارا بالکل جھاڑو جیسا نہیں ہے؟ تنکوں کی طرح بال اکڑ گئے ہیں۔۔۔، چلو جاؤ کوئی او ہیئر اسٹائل ٹرائی کرو، میں امی کے پاس جارہی ہوں۔۔۔‘‘ عمارہ اس کے بال کھینچ کر بھاگی۔
’’عمارہ کی بچی دیکھ لوں گی تمہیں۔‘‘ بال خراب ہونے پر ستارہ جھنجھلا گئی۔
خالہ کی آمد ہوچکی تھی۔ فیاض بھائی کی نظریں مسلسل عمارہ کیتعاقب میں تھیں۔ کئی دفعہ وہ جھینپ سی گئی۔
’’فیاض بھائی آپ تو بالکل ہی تبدیل ہوگئے ہیں، میں تو سمجھی تھی، بڑی سی توند ہوگی، باہر نکلے ہوئے دانت، موٹے موٹے نقوش اور رنگ بھی جلا جلا ہوگا، مگر ماشاء اللہ لگتا ہے پنجاب کا پانی آپ کو راس آگیا۔۔۔ بہت اچھے۔۔۔‘‘ ستارہ نے انہیں دیکھ کر اپنی رائے دی۔
’’تمہیں بھی تو کراچی کی روشنیوں نے چار چاند لگادیے ہیں اور ستارہ تو تم ہو ہی۔۔۔ فیشن بھی خوب ہیں تمہارے۔‘‘
’’اصل میں، یہ فیشن بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی، اس کے لیے بھی دماغ کی ضرورت ہوتی ہے اور شازیہ بھی تو گوبھی کا پھول بن کر آئی ہے پنجاب سے۔‘‘
’’کیا؟۔۔۔ میں گوبھی کا پھول اور تم ستارہ۔۔۔ یہ لو۔۔۔‘‘
شازیہ نے اپنا مذاق اڑانے پر کشن اس کی طرف پھینکا۔
’’یہ عمارہ کی بولتی کیوں بند ہے؟‘‘
شازیہ عمارہ کی طرف مخاطب ہوئی جو صرف ان کی باتیں سن رہی تھی۔
’’یہ ٹھیٹھ دلہنوں کی طرح شرما رہی ہے، فیاض بھائی کو دیکھ کر۔۔۔‘‘
’’کیوں؟ میں تو نہیں شرما رہا اور ویسے بھی شرمانے کی کیا بات ہے ہم ایک دوسرے کو سنیں گے نہیں۔۔۔ تو سمجھیں گے کیسے۔۔۔‘‘ فیاض نے مسکراتے ہوئے کہا۔
*
’’میں چارہ رہی تھی، نکاح کردیتے ہیں۔ ٹھیک تین ماہ بعد رخصتی کی تیاری رکھنا۔‘‘
خالہ جو پہلے سے منصوبہ بندی کرکے آئیں تھیں، امی کو اطلاع کررہی تھیں۔
’’وہ تو ٹھیک ہے پر عمارہ کے ابو کو تو آلینے دو، کچھ مشورہ کرلیتے ہیں۔‘‘
’’بھائی صاحب سے تو میں خود ہی کہہ دوں گی، ویسے اپنی عمارہ نے خوب رنگ روپ نکالا ہے، میرے فیاض کے ساتھ تو جوڑی بہت ہی خوب صورت لگ رہی ہے۔‘‘
خالہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کمرے کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ رہی تھیں جہاں فیاض اور عمارہ دھیمے دھیمے بات کررہے تھے۔
’’اپنا فیاض بھی تو کتنا کاٹھ والا ہوگیا ہے، ماشاء اللہ۔۔۔ اللہ ان کی جوڑی کو نظر بد سے بچائے۔‘‘
’’کیا دعائیں مانگی جارہی ہیں؟‘‘ ستارہ اور شازیہ نے اپنی اپنی خالہ کے گلے میں ہاتھ ڈالا۔
’’تم لڑکیوں کے گھر سے نکالنے کا سوچ رہے ہیں، پہلے عمارہ، پھر شازیہ اور پھر ستارہ۔۔۔‘‘
’’اچھا! آپ اماؤں کا تو بس یہی کام ہے، بس کسی طرح بوجھ سر سے اتر جائے۔‘‘
شازیہ نے گلے گلے خالہ سے کہا۔
’’اللہ نہ کرے، بوجھ کیوں؟ ذمہ داری ہے جتنی جلدی پوری ہو، اتنا اچھا ہے۔‘‘
’’اور تم دونوں بڑوں کی بات میں کیوں ٹپک گئیں،‘‘ ماہ نور خالہ نے ستارہ سے پوچھا۔
’’وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ ہم نے سوچا، کباب میں ہڈی کیوں بنیں، لہذا یہاں چلے آئے۔‘‘
’’ہوں ۔۔۔ بہت ہی پر، پرزے نکالے ہیں تمہاری ستاری نے بھی، طبیعت میں بڑا ہی چنچل پن ہے۔۔۔ ‘‘ خالہ نے اس کا گال تھپتھپایا۔
’’یہ چنچل پن خالہ۔۔۔ سب کو چل چل کردیتا ہے۔۔۔‘‘
’’اچھا تو میری بنو! آج تک کتنوں کا بوریا بسترا گول کیا ہے۔۔۔؟‘‘ خالہ کو اس کی باتیں مزہ دے رہی تھیں۔
’’کچھ اندازہ نہیں ہے کہ کتنی چل چل کے جل ہوچکے ہیں۔۔۔‘‘
ستارہ نے بے تحاشا کھلکھلاتے ہوئے کہا۔
’’چلو ہٹو یہاں سے لڑکیوں!۔۔۔ کچن میں جاکر کچھ کھانے پینے کا بند و بست کرو۔‘‘
’’جی اب تو آپ اپنی بہو کے ہاتھوں کا کھانا کھایے، میں ذرا شہزادی صاحبہ کو باقی دنیا کا احساس دلاتی ہوں‘‘
وہ بھاگ کر اس کمرے میں گئیں جہاں فیاض بھائی اور عمارہ باتیں کررہے تھے۔
’’اگر آپ کی باتیں ختم ہوگئی ہوں تو براہ مہربانی کچن کی طرف کچھ نظر ثانی فرمائیں۔۔۔ اماں جان اور آپ کی ساسو جان کہہ رہی ہیں۔‘‘
کمرے میں داخل ہوتے ہی ستارہ عمارہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگی۔
’’اچھا! میں ابھی دیکھتی ہوں، عمارہ فوراً ہی فرمانبرداری سے اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر چلی گئی۔ ستارہ واپس جانے کے لیے مڑی تو فیاض بھائی نے اسے روک دیا۔
’’ستارہ!‘‘ انہوں نے آواز دی۔
’’جی!‘‘ وہ واپس پلٹی۔
’’تم کیا یوں ہی شور مچاتی رہتی ہو گھر میں۔۔۔‘‘ فیاض بھائی مسکراتے ہوئے بولے۔
’’ہاں، ہاں۔۔۔ نن نہیں تو۔۔۔‘‘ وہ اچانک سے سوال پر جھینپ سی گئی۔
’’کون سے کالج میں پڑھ رہی ہو؟‘‘ وہ اس سے باتیں کرنے کے موڈ میں تھے۔
’’ڈگری کالج‘‘
’’اوہو! نائس، پر یہ عمارہ نے ہسٹری کیوں لی ہے؟‘‘
’’کیوں کہ اسے بوڑھوں کے درمیان زیادہ مزہ آتا ہے، وہ ایسے ہی ہے آثار قدیمہ میں دلچسپی لینے والی۔‘‘
’’ہوں اور تم؟‘‘
’’اور میں۔۔۔ ارے جناب میں تو ہر اس چیز میں دلچسپی لیتی ہوں جس میں زندگی کے رنگ بھرے ہوں۔‘‘ وہ وہیں کرسی پر براجمان ہوگئی۔
’’میرے خیالات بھی کچھ تم سے مختلف نہیں، زندگی کو زندگی کی طرح جینا چاہیے، پھیکی پھیکی بے رنگ زندگی، جس میں کوئی نہ مقصد ہو نہ تجسس، نہ کچھ پانے کی خواہش ہو، نہ کچھ کرنے کی دھن، میں بھی زندگی میں کچھ اچھے سے اچھا کرنا چاہتا ہوں، بقول تمہارے میں ہر اس کام میں دلچسپی لیتا ہوں جس میں زندگی کے رنگ ہوں۔‘‘
’’بہت اچھی باتیں کرتے ہیں آپ فیاض بھائی۔‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
’’عمارہ میری وجہ سے خاموش ہے یا بولتی ہی کم ہے۔‘‘ فیاض بھائی نے کریدا۔
’’ارے نہیں فیاض بھائی، اپنی عمارہ کی زبان بھی قینچی کی طرح چلتی ہے نان اسٹاپ۔‘‘
’’ہوں! پر لگتا ہے کراچی کے فیشنز سے اسے کوئی دلچسپی نہیں، بہت سادہ سادہ سی ہے۔‘‘
’’سادگی بھی حسن کا ایک رخ ہوتی ہے۔‘‘ اس نے طرف داری کی۔
’’ہاں مگر زندگی میں رنگ تو زندہ دلی ہی سے آتے ہیں ناں!‘‘
’’آپ سب چائے پی لیں، خالہ اور امی آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘
عمارہ نے دھیمے لہجے میں آکر کہا۔
’’واؤ، یہ ہوئی ناں بات! ویسے میں چائے بنانے کی بہت چور ہوں۔‘‘
ستارہ اچھل کر کھڑی ہوگئی۔
’’پتہ ہے فیاض بھائی، امی اور خالہ نے مجھے چائے بنانے کے لیے کہا تھا اور میں نے یہاں آکر عمارہ کو پھنسادیا۔‘‘ وہ اپنے کیے پر دیدہ دلیر تھی۔
’’اوہ! یعنی چوری اور اوپر سے سینہ زوری۔۔۔‘‘ وہ مسکرائے۔
’’اسی کا تو دور ہے فیاض بھائی۔۔۔‘‘ وہ باتیں کرتے ہوئے صحن میں آگئے۔
’’ویسے میں بھی کچھ کم نہیں ہوں۔ تمہیں پتہ ہے کہ جب امی کسی کام کے لیے میرے پیچھے پڑتی ہیں تو میں شازیہ کو پھنسا دیتا ہوں۔۔۔‘‘
’’ہوں! اس کا مطلب آپ بھی چھپے رستم ہیں۔‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
’’نا بابا میں تو کھلا رستم ہوں۔ مجھے تو لگتا ہے تمہاری بہنا ہی چھپی رستم ہے۔ دیکھو خالہ کے سامنے کیسے اپنے نمبر بڑھوا رہی ہے۔‘‘ ستارہ نے عمارہ کی طرف دیکھا تو وہ خالہ کی خاطر مدارت میں مصروف تھی۔
’’یہ لیں چائے۔‘‘ عمارہ نے چائے کا کپ فیاض کی طرف بڑھایا۔
’’شکریہ۔۔۔‘‘ فیاض نے ستارہ کی کسی بات پر ہنستے ہوئے کہا۔ عمارہ ایک نظر ستارہ کے لاپروا انداز پر ڈال کر رہ گئی۔
*
’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے ہو۔۔۔عمارہ سے نہیں ستارہ سے شادی کرو گے، دماغ ٹھکانے ہے یا نہیں؟‘‘
’’میرا فیصلہ یہی ہے، اب آپ سوچ لیں۔‘‘ فیاض نے حتمی فیصلہ سنایا۔
’’مگر بھائی! عمارہ اتنی اچھی تو ہے، آخر اس میں کیا کمی ہے؟ خوبصورت ہے، سلیقہ مند ہے۔‘‘
’’میں نے کب کہا، وہ بدصورت اور بدسلیقہ ہے، بس مجھے عمارہ سے زیادہ ستارہ اچھی لگی ہے، اس کی باتیں، اس کا انداز۔۔۔ جو خاکہ میں نے عمارہ کے لیے تیار کیا تھا اس پر ستارہ پوری اترتی ہے۔‘‘ عمارہ خاموش سی ہے سادہ سی، میرا مزاج اس نہیں مل پائے گا!
’’تم بالکل باؤلے ہوگئے ہو، عماہ ذہنی طور پر تم سے شادی پر تیار ہے اور میں جاکر کہہ دوں کہ دو لہے میاں تم کو نہیں تمہاری بہن کو پسند کرتے ہیں، اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ فیاض یہ بچپن کی بات ہے، ایک وعدہ ہے اور وعدہ خلافی ہمیں زیب نہیں دیتی۔ اب عمارہ اچھی لگے یا بری اسی سے تمہاری شادی ہوگی۔ میں اپنا اور تمہارا مذاق بننے نہیں دوں گی۔ غضب خدا کا، گڈے گڑیا کا کھیل ہوگیا یہ شادی۔‘‘ وہ اپنا فیصلہ سنا کر بڑ بڑانے لگیں۔
’’امی! بچپن کی بات ہے، کوئی نکاح تو نہیں، اور یہ وعدہ اسی وقت کیا گیا جب مجھے شعور نہیں تھا۔ لاشعوری میں کیا گیا فیصلہ اب میں ہوشمندی میں کیسے قبول کرلوں، بس میں نہیں کروں گا یہ شادی، ورنہ میں سعودیہ ایسے چلا جاؤں گا، بغیر کسی کو کچھ بتائے۔‘‘
’’شازیہ پلیز تم ہی کچھ سمجھاؤ امی کو، کم از کم میری پسند کا تو کیال کریں۔‘‘
وہ بہن کے قریب آبیٹھا۔
’’بھائی عمارہ یہ برداشت نہیں کر پائے گی اور ستارہ اور خالہ جان بھی کبھی راضی نہیں ہوں گی اس رشتے پر۔‘‘
’’دیکھو، ستارہ سے میں خود بات کرلوں گا اور خالہ پہلی بیٹی کی شادی کریں یا دوسری کی، بات تو ایک ہی ہے ناں! داماد تو ہر صورت میں ان ہی کا بنوں گا، اب پہلی بیٹی کا شوہر بنوں یا دوسری کا، کیا فرق پڑتا ہے؟ پلیز امی آپ نے خالہ کے یہاں شادی کرنے کا کہا، میں تیار ہوں، مگر پلیز عمارہ نہیں ستارہ۔‘‘
’’کس مشکل میں پھنسا دیا تم نے مجھے فیاض، ایک طرف بیٹے کی خوشیاں، دوسری طرف میری بہن اور بھانجی۔۔۔ مجھ میں حوصلہ نہیں ہے فیاض یہ بات کرنے کا! خدا را میرے بڑاپے کا ہی کچھ خیال کرلو۔‘‘
امی کی آنکھیں بھیگ گئیں اور شازیہ گم صم سی ہوگئی۔
’’اچھا ٹھیک ہے پھر میں خالہ سے خود ہی بات کرلیتا ہوں۔‘‘
وہ حتمی فیصلے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
دل ٹوٹنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ گھر میں ایک دھماکہ سا ہوگیا۔ ستارہ نے سنا تو اپنی اور اپنی بہن کی نظر میں خود کو گرا ہوا محسوس کرنے لگی۔ امی نے سن کر دل تھام لیا۔ ابو حالات کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے اور عمارہ، سب سے بڑا درد تو شاید اس کا تھا، ٹھکرائے جانے کا، بے وقعت ہوجانے کا، ناقدری کا احساس، جذبوں کی بے بسی بن کر آنسوؤں کا سہارا تلاش کرنے لگا۔ ستارہ فیاض بھائی کے سامنے آنے سے کترانے لگی۔ عمارہ کمرے تک محدود ہوگئی۔ امی ابو کے لیے فیصلہ مشکل ہوگیا۔ خالہ کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ اصرار کرتیں، خاموش، خاموش سی بیٹے کی خواہش کے آگے مجبور۔
فیصلہ کچھ بھی ہو، دل کسی کا بھی ٹوٹے۔ یہ ایسے واقعات اور قصے کہانیاں ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں۔ اگر ایسے حالات، واقعات کو زندگیوں سے بے دخل کرنا ہے تو بے پردگی، بے حیائی کو زندگیوں سے بے دخل کردیجیے۔
ایسے واقعات میں لوگ حالات و واقعات کو قصور وار سمجھتے ہیں، مگر یہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اصل بنیادی وجہ جو کہ اکثر نظر انداز کردی جاتی ہے وہ بے پردگی کا وبال ہے، جو ایسے ہی خوشیوں کے انبار کو راکھ کا ڈھیر بنادیتی ہے کہ بھائی بھائی اور بہن بہن کی دشمن بن جاتی ہے، آزادانہ میل جول، کزن اور دوستوں کی مخلوط محفلیں ایسے ہی گہرے بدرنگ دھبے زندگی پر چھوڑ جاتی ہیں جن سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔

تحریر: اہلیہ راشد اقبال
خواتین کا اسلام میگزین، نمبر ۶۸۷


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں