دس دن یادوں کی پاک سرزمین میں (دوسری قسط)

دس دن یادوں کی پاک سرزمین میں (دوسری قسط)

آٹھ سال بعد
’مجلس علمی سوسائٹی‘ کے زیرانتظام چلنے والے پرسکون تعلیمی ادارے میں تکمیلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پہلی دفعہ ہمیں جامعہ کی زیارت اور اساتذہ کی ملاقات کی سعادت نصیب ہورہی تھی۔ جامعہ پہنچتے ہی سالانہ اجتماع کی استقبالیہ کمیٹی نے ہمارا شاندار استقبال کیا۔ شربت پلانے کے ساتھ ساتھ نام و دیگر ضروری معلومات قلمبند ہورہی تھیں۔ دوسرے استقبالیہ کیمپ میں دوبارہ نام لکھوایا اور ہماری رہائش کا کمرہ متعین ہوا ۔ ایک ہونہار طالب علم نے ہمارے سامان اٹھاکر ہمیں کمرہ تک پہنچادیا جو جامعہ کے کیمپس IIمیں واقع تھا اور نیانیا تعمیر ہوا تھا۔ چند منٹ آرام کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے اور پھر فضلا کے سالانہ اجتماع کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے تیاریاں شروع ہوئیں۔
ہماری رہائش جامعہ کے کیمپس II میں تھی جبکہ مسجد مین کیمپس میں واقع ہے۔ چنانچہ ظہر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے آٹھ سالوں کے بعد پہلی دفعہ جامعہ کے مین کیمپس کی زیارت نصیب ہوئی۔ دبستانِ علم و آگہی اور مرکزِ فکر و عمل میں قدم رکھتے ہی ایک دم پرانی یادیں تازہ ہوگئیں، ہم اس عظیم الشان دینی و تعلیمی ادارے میں گزرے ایام کے ریویو کے ساتھ ایک ایک شخص کو غور سے دیکھتے تھے، مقصد یہ تھا کہ شاید کوئی جاننے والا ملنے کو ملے۔ چنانچہ سب سے پہلے مولانا شمس الحق صاحب سے ملاقات ہوئی جو سفیدریش اساتذہ کی صف میں شامل ہوچکے تھے۔ انہوں نے شکل سے ہمیں پہچانا۔ جامعة الرشید و دارالعلوم کے اکثر اساتذہ صرف شکل ہی سے راقم کو پہچانتے تھے؛ یہ بھی بندے کے لیے بڑی سعادت تھی۔ نماز کے بعد مولانا فیصل احمد اور مولانا عبدالمنعم فائز جیسے اساتذہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہاں اساتذہ بڑی کشادہ روئی سے ملتے اور ہمیں دیکھ کر بڑی خوشی و مسرت کا اظہار فرماتے جو ان کی اعلی ظرفی، بندہ نوازی اور مہمان نوازی کی واضح دلیل ہے۔

اجتماع کا آغاز
فضلائے جامعة الرشید کے’ سالانہ تربیتی اجتماع 2017ء‘ کی افتتاحی نشست کا آغاز جمعرات نو فروری کو ہوا۔ افتتاحی نشست میں خاص بات یہ نظر آئی کہ اعلی انتظام کے باوجود اندازِ گفتگو انتہائی سادہ اور بے تکلفانہ تھا۔ جس طرح ہمارے ملک میں رواج ہے کہ شروع میں قاری صاحبان لمبی قراءت پڑھ کر حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں اور پھر سٹیج سنبھالنے والے میزبان حضرات کی لمبی تقریر سننی پڑتی ہے جس میں مبہم اور سمجھ سے دور الفاظ اور فقروں کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ لیکن ہمارے سالانہ تربیتی اجتماع کا آغاز بہت ہی سادگی میں ہوا اور اعلی انتظام کے باوجود گفتگو میں کوئی تکلف اور تصنع دیکھنے میں نہیں آیا۔ الحمدللہ۔
اجتماع کے مقاصد و اغراض پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت رئیس الجامعہ نے دوٹوک الفاظ میں بتادیا کہ اس اجتماع کا مقصد ’اجتماع‘ ہی ہے۔مغرب کے بعد اسی دن خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس اجمال کی تفصیل پیش فرمائی۔ ان کا مزید کہنا تھا: یہ اجتماع، نسبت اور ماحول کو تازہ کرنے لیے ہے۔ بیٹری ری چارج کرنے لیے ہے!

مولانا زاہد الراشدی کی مجلس میں
اس نشست کے مہمانِ خاص معروف مفکر مولانا زاہدالراشدی صاحب دامت برکاتہم تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ وہ جب بھی کراچی آتے ہیں، جامعة الرشید کا دورہ ضرور کرتے ہیں۔ ان کی تشریف آوری بھی اسی مناسبت سے تھی جو اتفاقا سالانہ تربیتی اجتماع کی افتتاحی نشست کے ساتھ ہوئی اور اس کا فائدہ شرکا کو ہوا۔
مولانا زاہدالراشدی نے اپنے فی البداہہ خطاب میں مکالمہ بین المذاہب اور اتحاد بین المذاہب کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا: تمام مذاہب کی ’اچھی باتوں‘ کو لے کر ایک ہی مذہب پیش کرنا ایک پرانا نظریہ ہے جو غلط ہونے کے ساتھ ساتھ ناممکن بھی ہے۔
انہوں نے چیلنج کرتے ہوئے سوال پیش کیا کہ دنیاوالوں نے ڈھائی سو سال سے مذہب کو معاشرے سے بے دخل کیا ہے؛ کیا اس کا لوگوں کو نقصان ہوا ہے یا فائدہ؟!
پھر مولانا نے کہا: مذہب کے حوالے سے زیادہ تر کانفرنسز یہ بات ثابت کرانے کے لیے ہیں کہ خرابیوں اور بدامنی کی جڑ ’مذہب‘ ہی ہے۔ ہم ان کی باتیں نہیں مانتے، البتہ اکٹھے رہنے کے آداب کا خیال رکھنا ہماری ضرورت ہے۔ مشترک ماحول میں اخلاقیات اور جائز آداب کا خیال رکھ کر ہم دین کی دعوت کا ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔ اگر ہم یہ آداب نظرانداز کریںگے، نظرانداز ہوجائیں گے۔

اللہ کے لیے اخلاص میں کمی قابل برداشت لیکن اجتماعیت میں سستی ناقابل برداشت!
شب جمعہ کو بعد از مغرب حضرت استاذ صاحب دامت برکاتہم نے شرکا کو ایک بار پھر اجتماع کے مختلف آئٹمز سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت فرمائی اور نظم و ضبط کی خیال داری پر زور دیا۔ انہوں نے کہا اساتذہ و مسﺅلین سمیت ڈھائی سو افراد اس اجتماع کے انعقاد اور خدمت میں مصروف ہیں۔
اجتماعیت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب نے فرمایا: ہم اجتماعیت کے لیے یہاں اکٹھے ہوچکے ہیں۔ اسی نے ہماری کمر توڑدی ہے۔ اخلاص میں کمی اللہ تعالی کے لیے قابل برداشت ہے، لیکن جب اجتماعیت میں سستی آئی تو اللہ نے ردعمل دکھیا بلکہ ایکشن لیا۔ محض جسمانی طورپر اکٹھا ہونا کافی نہیں، ایک ہی مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: اطاعت سے خروج پر ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان ہوا ہے۔ احد کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

تعلیمی نظام بانچھ پن کا شکار ہے
حضرت استاذ صاحب نے واشکاف الفاظ میں برصغیر اور آس پاس کے علاقوں میں رائج تعلیمی نظام کے حوالے سے اظہارِخیال فرمایا۔ انہوں نے اجتماع کے دوران مختلف بیانوں میں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی اور انتظامیہ کی جانب سے بھی بینرز کا انتظام کیا گیا تھا جو اجتماع گاہ آتے ہوئے باربار ان پر نظر پڑتی۔ شرکا بینرز غور سے پڑھتے اور جامعہ کا پیغام ذہن نشین کرتے تھے۔
انہوں نے کہا: اگر ہم سب ایک تعلیمی نظام پر اکٹھے ہوجائیں، بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ ہمارے نظام تعلیم کی افادیت پر سب متفق ہیں؛ طریقہ کار پر اختلاف کرسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے سامنے میں نے شک کا اظہار کیا کہ معلوم نہیں ہمارا نظام تعلیم کتنا فائدہ مند ہوگا اور کیا یہ ہمارے اکابر کی خواہشوں کے خلاف تو نہیں! انہوں نے بڑی تاکید سے فرمایا کہ یہ ہمارے اکابر کی عین خواہش کے مطابق ہے اور ایک ہی نظام تعلیم پیش کرنے کی تمنا 150سالوں سے پوری نہ ہوسکی، اب اس تمنا کو جامہ عمل پہنانے کا اعزاز جامعة الرشید کو نصیب ہوا ہے۔ بعد میں انہوںنے جاتے ہوئے بھی فون پر زور دیا کہ کسی شک کو اپنے دل میں آنے نہ دیں۔ دیوبند پہنچ کر انہوں نے دوبارہ فون کیا کہ ہرگز یہ نظام مت چھوڑیں اور آگے بڑھیں۔
حضرت استاذ صاحب نے فرمایا: ندوة العلماءمیں تمام مکاتب فکر کے چوٹی کے علما اکٹھے ہوئے۔ مولانا احمدرضاخان بریلویؒ بھی ان میں شامل تھے۔ لیکن جب ان حضرات نے اختلاف کیا اور سب نے اپنی راہیں الگ کردیں، پھر ’دارالعلوم ندوة العلما‘ قائم ہوا۔ البتہ دارالعلوم ندوة العلما کے نصاب تعلیم کو برصغیر میں پذیرائی نہیںملی اور میرے خیال میں اس کی وجہ ’درس نظامی‘ کو چھوڑدینا ہے۔ یہ بات میں نے مولانا سیدسلمان ندوی کے استفسار پر بھی انہیں بتائی۔ ندوة العلما کی تاریخ کا ضرور مطالعہ کریں۔

واحد نظام تعلیم کے لیے اکابر کی کوششیں
اکابر کی طرف سے ایک ہی نظام تعلیم پر محنتوں اور کاوشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جامعة الرشید کے مہتمم نے بطور خاص بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمدقاسم نانوتوی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا اشرفعلی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شمس الحق افغانی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانامفتی محمدشفیع عثمانی اور دیگر علمائے کرام کے اسمائے گرامی کا تذکرہ فرمایا۔
ان میں سے بعض نے باقاعدہ نصاب بھی پیش کیا اور بعض نے حکومت کی درخواست پر بڑے غور و خوض کے بعد تعلیمی پالیسی مرتب کرکے پیش کی ہے۔ بلوچستان کے خان قلات نے دارالعلوم دیوبند سے درخواست کی کہ اپنی ریاست کے لیے واحد نظام تعلیم نصاب بنانے کے لیے انہیں ماہر علما کی ضرورت ہے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ التفسیر مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ کی تشکیل اسی مقصد کے لیے قلات ہوئی اور بعد از آں انہیں وزیر معارف و تعلیم بنایا گیا۔

چھ عظیم شخصیات اور ان کے تجدیدی کارنامے
اس موقع پر مناسب ہوگا کہ جامعہ کے منتظمین کی جانب سے ’چھ عظیم شخصیات‘ کے ناموں کا تذکرہ کریں جنہوں نے معاصر تاریخ میں نمایاں تجدیدی کام کیا ہے ۔شیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندی، حکیم الامت مولانا اشرفعلی تھانوی، بانیءجماعت تبلیغ مولانا محمدالیاس دہلوی، مفکر اسلام مولانا ابوالحسن ندوی، بانیءجامعة الرشید مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہم اللہ اور شیخ الاسلام مولانا مفتی محمدتقی عثمانی حفظہ اللہ کی کتابوں، سوانح عمری اور ملفوظات پڑھ کر ان کے تجدیدی کارناموں کا مطالعہ ہر عالم کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے کتنی خوبصورت بات فرمائی کہ اکابر فراغت کے فورا بعد ’اکابر‘ نہیں بنے، بڑی محنت کرنی پڑتی ہے!

برصغیر کے سب سے بڑے لیڈر
استاذ صاحب نے مزید کہا: حضرت شیخ الہند کے سوانح عمری ضرورپڑھیں، خاص کر جو دہلی سے چھپی ہے۔ آپ ؒ برصغیر کے سب سے بڑے لیڈر گزرے ہیں۔ جب تک شیخ الہند کے نظریے سے گریز کریں گے، اس وقت تک مسائل سے نجات حاصل نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے مولانا منظور چنیوٹی اور مولانا زاہدالراشدی کے حوالے سے فرمایا کہ ایک مرتبہ یہ حضرات ایران کے موجودہ سپریم لیڈر سے ملے تھے۔ انہوں نے انقلاب ایران کی کامیابی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے شیخ الہند کی افکار سے استفادہ کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی ایک کتاب میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا ہے جو راقم اپنی طرف سے اس کا اضافہ کرتاہے۔
حضرت رئیس الجامعہ نے تبلیغی جماعت کی افادیت اور عظیم خدمات پر روشنی ڈالی اور میوات سے اپنے آبائی تعلق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ میں تبلیغی جماعت ہی کی برکت سے یہاں آپ کے سامنے بیٹھاہوں۔ انہوں نے کہا: دینی مدارس کے اکثر طلبا بھی تبلیغی جماعت ہی کی محنتوں کے پھول ہیں۔ کام محض تنخواہ سے نہیں، بلکہ دل میں لگنے سے ہوتاہے۔

PTV بہت بڑی نعمت!
مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی الندوی کی شخصیت اور ان کی فکری پختگی واضح کرتے ہوئے مہتمم جامعة الرشید نے کہا: میں مولانا علی میاں ندوی کی کوئی کتاب استثنا نہیں کرتا، ان کی تمام کتابیں پڑھیں، مولانا علی میاں کی کتابوں میں سب کچھ ہے۔ انہوںنے اپنے دورہءپاکستان (غالبا 1974ء) کے موقع پر پاکستان کے بڑے بڑے ذمہ داران کی موجودی میں پی ٹی وی کو ’بہت بڑی نعمت‘ یاد کی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

(پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں