دس دن یادوں کی پاک سرزمین میں (پہلی قسط)

دس دن یادوں کی پاک سرزمین میں (پہلی قسط)

عبدالحکیم زاہدانی (شہ بخش)
ایک ایسے ملک کا دورہ جہاں آپ نے زندگی کی کئی بہاریں، وہ بھی عین جوانی کی گزاری ہو انتہائی پرکشش اور فطری تقاضوں کے عین مطابق ہوگا۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ آپ نو برس کسی معاشرے کے عوام و خواص کے ساتھ گزاریں، خوشی و غم میں ان کے ساتھ رہیں اور پھر تقدیر آپ کو اس ماحول سے دور لے جائے، مگر آپ کے دل میں دوبارہ اس ماحول میں رہنے اور وہاں کے ملنسار و باوقار لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش نہ ہو!
یہی صورت حال راقم کی بھی تھی؛ نو فروری کو شروع ہونے والا ایک تربیتی اجتماع بہانہ بن گیا اور راقم دو ساتھیوں سمیت دس دنوں تک پاکستان اور اہلیانِ پاکستان کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اس سفر کی مختصر کارگزاری چند قسطوں میں پیش خدمت ہے۔

راقم کی پیدائش ایرانی بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں ہوئی ہے اور رہائش بھی اسی شہر میں ہے جو پاکستانی حدود سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہمارے شہر میں پاکستانی قونصلیٹ کا ایک اہم شعبہ واقع ہے جس کی زیارت روز مجھے نصیب ہوتی ہے۔ مگر اس عمارت کے اندرونی کمروں میں کئی سالوں کے بعد پہلی دفعہ جانا پڑا۔ مقصد حصولِ ویزا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے اور عملہ کے تعاون سے جلد ہی ویزا مل گیا۔ ایک قسم کی ناسپاسی ہوگی اگر زاہدان میں پاکستانی قونصلیٹ کے برخوردار اور عوام دوست ذمہ داران کا شکریہ ادا نہ کیا جائے جو صحیح طورپر اپنے ملک کی نمائندگی کررہے ہیں۔

پاکستان میں خوش آمدید!
ویزا ایشو ہونے کے فورا بعد ہم نے سرحد پار کیا۔ سرحد پار کرتے ہوئے ہمیں خدشہ تھا کہیں زائرین کے ممکنہ دھکم دھکے اور دونوں جانب بیٹھے اہلکاروں کی خواہ مخواہ پوچھ گچھ سے ہمارا ٹائم ضائع نہ ہو۔ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ بارڈر پار کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں سب سے پہلے تفتان شہر کا بازار آتاہے۔ سرحد کے مین گیٹ سے بازار تک ایک پختہ سڑک بچھائی گئی ہے اور قریب ایک خوبصورت عمارت بھی بنائی گئی ہے جس پر خوش آمدید کے کچھ الفاظ لکھے گئے ہیں۔ راستے میں اسماءالحسنی اردو ترجمے کے ساتھ روڈ کی دونوں جانب ترتیب سے آویزاں ہیں۔ تفتان بازار وہی تھا جو چند سال پہلے میں نے دیکھا تھا؛ بازار کے عین وسط میں واقع چورنگی میں اب بھی باجماعت نماز کا اہتمام ہوتاہے۔ اکثر ہوٹل اور ریسٹورنٹ اور ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے دفاتر اسی چورنگی کے اردگرد واقع ہیں۔ منی چینجر حضرات بھی تھیلوں میں پیسہ رکھ کر اسی چورنگی میں بیٹھتے ہیں اور دن بھر اپنی روزی کا انتظار کرتے ہیں۔
اس سفر میں ایک ہمارے انتہائی معزز ساتھی، مولوی شاکر سلمہ اللہ بھی ہمیں ساتھ دے رہے تھے جو پہلی دفعہ ارض پاکستان کا دورہ کررہے تھے۔ لہذا ان کے لیے عجیب و غریب چیزوں کی کمی نہ تھی۔ شاید ان کے عجائب میں ایک داڑھی والے اہلکار اور ملازم تھے جو راستے میں اور پھر ایئرپورٹ میں ہمیں دیکھنے کو ملے۔ دالبندین جاتے ہوئے راستے میں ’جوژک‘ کے علاقے میں ایف سی کا اہم چیک پوسٹ آتاہے۔ ہماری گاڑی روک دی گئی۔ ایک اہلکار نے ہمارے پاسپورٹوں کو ہاتھ میں لیے ایک کمرہ نما برجی کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی دیر بعد راقم بھی وہیں پہنچا۔ کہاں جارہے ہو؟ کہاں سے آرہے ہو؟ جیسے سوال پوچھے گئے اور گاڑی کا نمبر پلیٹ بھی نوٹ کیا گیا؛ اگر چہ وہ بھی غلط! اہلکار پاسپورٹ سمیت اپنے ’بڑے‘ کے پاس گیا اور ان کے ساتھ واپس آیا۔ چیک پوسٹ کے بڑے صاحب نے بڑے غور سے میری طرف دیکھا اور پھر ویزے کے مطالعہ میں مگن ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ راقم نے بھی سمجھانے میں مدد دی۔ ’بڑے صاحب‘ پاسپورٹوں کو تھماکر باہر نکلے۔ ایف سی کے اعلی عہدیدار نے اپنے ساتھیوں سے دور انتہائی تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے وقت کے ضیاع اور مختصر دردسر پر معذرت کی۔ انہوں نے کہا یہ کارروائی ہماری مجبوری ہے تاکہ رشوت ستانی کا کوئی الزام عائد نہ ہو۔ پھر ایف سی کے بڑے صاحب نے چائے بسکٹ سے تواضع کی پیشکش بھی کی اور ہمیں ’مہمان‘ اور علمائے کرام کے القاب سے نوازتے رہے۔ ایف سی کے داڑھی والے اہلکار نے آگے بڑھ کر میرے ساتھیوں سے بھی معافی مانگی۔ پہلی دفعہ کسی سکیورٹی اہلکار سے جب واسطہ اس انداز میں پڑا، تو ساتھی بڑے خوش ہوئے او ر ہم سب نے انتہائی سکون کے ساتھ سفر جاری رکھا۔
جب ہم دالبندین پہنچے رات کا وقت تھا اور کافی دیر ہوگئی تھی۔ دکانیں سب بند تھیں۔ طے یہ ہوا تھا کہ ایک باواسطہ جاننے والے کے بیٹھک میں رات گزاریں۔ ڈرائیور اور ہمارے ساتھ آنے والے ایک مسافر کی بھی خواہش تھی رات ہمارے ساتھ گزاریں، چونکہ دالبندین میں ان کا کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ ہمارے میزبان نے بخوشی انہیں جگہ دی اور کھانا بھی کھلایا۔ مہمان نوازی یہاں بھی لوگوں کے لیے باعث صدافتخار ہے۔

دالبندین ٹو کراچی
صبح ہوتے ہی ہم دالبندین ایئرپورٹ کی طرف چل پڑے۔ ایئرپورٹ کی سکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی تھی۔ شہر کے وسط میں جس چوک سے ایک راستہ ایئرپورٹ کی طرف نکلتا، وہاں بھی کچھ اہلکار چوکس کھڑے تھے۔ پھر آگے دو چیک پوسٹس تھے اور آس پاس بھی کچھ فاصلے پر فوجی اہلکار مسلح کھڑے تھے۔ گاڑیوں میں بھی گشت کررہے تھے۔جو پسماندگی اور سادگی بلوچستان کے اس خطے میں پائی جاتی ہے، پوری طرح اس کی عکاسی دالبندین کے ہوائی اڈے میں آشکار تھی۔
ایئرپورٹ میں ہوائی جہاز تک جانے کے لیے کچھ اہلکاروں کی رہ نمائی حاصل تھی۔ شکار کے لیے آنے والے کچھ عرب حضرات کی سکیورٹی بھی کافی سخت تھی۔ انہیں عام انتظارگاہ میں بٹھانے کے بجائے کسی مخصوص جگہ بٹھایاگیا تھا اور یہ برخوردار مہمان کسی مخصوص ’وی آئی پی‘ راستے ہی سے جہاز تک پہنچے۔ پی آئی اے کے چھوٹے جہاز کے علاوہ ایک اور جہاز بھی میدان میں کھڑا نظر آرہا تھا جس پر سعودی ایئرفورس کا عنوان نمایاں تھا۔ پاکستان میں یہ ہمارا پہلا بائے ایئر سفر تھا اور ہمارے ایک دوست تو پوری زندگی میں پہلی بارہوائی سفرکا تجربہ کررہے تھے۔ اس سفر میں پائلٹ نے سفر کی دعا پڑھ کرہمارے دوست کو حیران کردیا۔ نیز دوران سفر پائلٹ کی گفتگو میں ’ان شاءاللہ‘ جیسے دعائیہ کلمات سن کر ہمیں خوشی ہوئی کہ رب الاسباب پر بھی نظر ہے۔ ہوائی جہاز میں ہمارے دوست کو پہلی دفعہ ایک ایسی خاتون سے واسطہ پڑا جس کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا! ایئرہوسٹس روایتی انداز میں پانی کی ایک بوتل ہاتھ میں لیے مسافروں کو پانی پیش کررہی تھی۔ وہیں محترمہ منتظمہ کو تجویز دی گئی کہ بلوچی زبان کے ضروری الفاظ سیکھ لیں تاکہ میزبانی کرتے ہوئے دالبندین کراچی فلائٹس میں انہیں آسانی ہو۔

سی این جی نہیں!
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی پہنچنے کے بعد اندازہ ہوا موسم کافی خوشگوار ہے۔ عمارت سے باہر کسی ٹیکسی والے سے بات کی تو بات نہ بنی۔ ایئرپورٹ کی حدود سے نکل کر ہم نے سوچا شاید وہاں مناسب کرایے پر کوئی ٹیکسی مل ہی جائے۔ مین روڈ پر جاکر معلوم ہوا سی این جی کی شدید قلت کی وجہ سے رکشہ اور ٹیکسی والے مجبورا پٹرول پر گزارہ کررہے ہیں اور اسی وجہ سے کرایوں میں ’خوب‘ اضافہ کیا گیاہے۔ یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی؛ یہاں ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کی ’شدید قلت‘ یا ’فقدان‘ رہتاہے۔
ہمارا مقصد شہر قائد کے ایک کونے میں واقع عظیم الشان دینی و تعلیمی ادارہ ’جامعة الرشید احسن آباد‘ تھا۔ جامعہ کے سالانہ تربیتی اجتماع میں فضلا احسن آباد پہنچ رہے تھے۔ احسن آباد جاتے ہوئے اندازہ ہوا محلے میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ جس وقت ہم یہاں اساتذہ کے فیض و صحبت سے فائدہ اٹھارہے تھے آبادی بہت کم تھی۔ محلہ ایک رہائشی علاقہ سے زیادہ بڑے گاوںکا منظر پیش کررہا تھا جس میںکچھ مکانات ایک دوسرے سے فاصلے پر واقع تھے۔ اب یہ کافی گنجان ہوچکا تھا اور جگہ جگہ دکانیں نظر آرہی تھیں۔ جامعہ کے آس پاس میں کئی گلی کوچوں میں مکانات تعمیر ہوئے تھے اور متعدد مساجد سے اذان کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

جاری ہے۔۔۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں