اور اُس کے نتائج و ثمرات

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (پانچویں قسط)

عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی تربیت (پانچویں قسط)

اُصول اسنتباط کی تشکیل و تدوین میں مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کے تلامذہ کی مساعی جمیلہ
حقیقت یہ ہے کہ شریعت کے تمام ابواب میں غور و خوض کرنے کے اصول کی روشنی میں اسلامی معاشرے میں پیش آنے والے مشکل مسائل کو حل کرنے کے اصول استنباط اور قواعد استخراج کی تشکیل و تدوین میں ائمہ مجتہدین اور ان کے شاگردوں کی مساعی جمیلہ کا یہ ثمرہ ہے، چنانچہ شیخ عبدالقادر بغدادی رحمہ اللہ متوفی ۴۲۹ھ ’’أصول الدین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:
صحابہ میں سے چار صحابی رضی اللہ عنہم
۱: حضرت علی رضی اللہ عنہ، ۲: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ۳: زید بن ثابت انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ، ۴: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے تمام ابواب فقہ (شریعت) میں بحث کی ہے۔ یہ چار صحابی رضی اللہ عنہم کسی مسئلے میں کسی قول پر اتفاق کریں تو مبتدع کے سوا کہ فقہ میں اس کے اختلاف کا اعتبار نہیں، مسلم امہ اُن کے قول پر مجتمع ہوجاتی ہے اور اُسے اجماع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہر وہ مسئلہ جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے قول کے مقابلے میں اپنی رائے اور قول میں منفرد ہوں، اس میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ انصاری رحمہ اللہ (۴۷۔۱۴۸ھ) عامر بن شرجیل شعبی کوفی رحمہ اللہ (۱۹۔۱۰۳ھ) اور عبیدہ بن عمرو سلمانی رحمہ اللہ (۷۲ھ) ان کی اتباع کرتے ہیں۔ اور ہر وہ مسئلہ جس میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ منفرد ہوئے، اس میں امام مالک رحمہ اللہ و شافعی رحمہ اللہ اکثر ان کی پیروی کرتے ہیں۔ اور ہر وہ مسئلہ جس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما منفرد ہوئے، اس میں عکرمہ بن عبداللہ بربری مدنی رحمہ اللہ (۲۵۔۱۰۵ھ) اور سعید بن جبیر کوفی رحمہ اللہ (۴۵۔۹۵ھ) ان کی اتباع کرتے ہیں۔
اور ہر وہ مسئلہ جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ منفرد ہوئے، اس میں علقمہ بن قیس نخعی کوفی رحمہ اللہ (۶۲ھ) اسود بن یزید نخعی کوفی رحمہ اللہ (۷۵ھ) اور ابو ثوار ابراہیم بن خالد کلبی بغدادی رحمہ اللہ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ (۱)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نظر میں ان مذکورہ بالا اربابِ فقہ و نظر اور مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کی فقہی بصیرت و وقت نظر کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان سے مروی احادیث کی موجودگی میں قیاس کی اجازت نہیں دیتے، چنانچہ امام فخر الاسلام بزدوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’راوی کو اگر تفقہ اور اجتہاد میں شرف تقدم و شہرت حاصل ہے، جیسا کہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں اور ان کے علاوہ بھی صحابہ ہیں جن کو فقہ و نظر میں شہرت حاصل ہے، ان کی حدیث حجت ہے، ان کی حدیث کے مقابلے میں قیاس کو چھوڑا جائے گا۔ اور راوی اگر عدالت اور حفظ میں مشہور و معروف ہے، لیکن فقہ میں مشہور نہیں، جیسے: حضرت ابوہریرہ و حضرت انس رضی اللہ عنہما ہیں، ایسے راوی کی حدیث اگر قیاس کے مطابق ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اگر اس کی حدیث قیاس کے مخالف ہے تو اس حدیث کو نہیں چھوڑا جائے گا، مگر ضرورت کی وجہ سے (یعنی قیاس کا دروازہ مطلقاً بند نہ کیا جائے، بلکہ قیاس کیا جائے گا)۔‘‘ (۲)
یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ مذکورہ بالا ائمہ مجتہدین کی مختصر جماعت کو یہ امتیاز و خصوصیت اس لیے حاصل تھی کہ ان برگزیدہ شخصیات کے اجتہادات پر صحت و سلامتی کی مہر تصدیق بارگاہ رسالت سے ثبت ہوچکی تھی اور انہیں افتاء و تعلیم کی اجازت حاصل تھی، چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ متوفی ۱۲۳۹ھ ’’فتاویٰ عزیزی‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’کسانیکہ بحضور آں جناب صلی اللہ علیہ وسلم بپایۂ اجتہاد کامل رسیدہ بودند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اجتہادات ایشاں را تصویب فرمودند و بفتویٰ و تعلیم اجازت فرمودہ بودند، مثل حضرت عمر و علی و مثل عبداللہ بن مسعود و معاذ بن جبل و زید بن ثابت و امثالہم رضی اللہ عنہم‘‘۔ (۳)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں جنہیں اجتہاد کامل نصیب تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اجتہادات پر مہر تصدیق ثبت فرمائی اور انہیں فتویٰ و تعلیم دینے کی اجازت دی تھی، جیسے: حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت معاذ بن جبل، حضرت زید بن ثابت اور انہی کی طرح بعض دوسری شخصیات ہیں رضی اللہ عنہم۔‘‘

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامذہ کا فقہی مقام حضرت عمر رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو اجتہاد و فقہی بصیرت میں ایسا پختہ کیا تھا کہ دور فاروقی و عثمانی اور عہد مرتضوی میں کوفہ کا قاضی حضرت شریح رحمہ اللہ (۷۸ھ) کو بنایا گیا تھا، جنہوں نے بعض مقدمات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف فتویٰ دیا تھا اور انہیں عہدۂ قضا سے معزول نہیں کیا گیا، چنانچہ ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر و حضرت علی رضی اللہ عنہما نے حضرت شریح رحمہ اللہ کو کوفہ کا قاضی بنایا اور ان کے فیصلوں پر اعتراض نہیں کیا، باوجودیکہ قاضی شریح رحمہ اللہ نے بہت سے مسئلوں میں ان سے اختلاف کیا۔‘‘ (۴)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو آتے دیکھا تو حاضرین مجلس سے فرمایا: ’’کنیف ملی علماً‘‘۔۔۔ ’’یہ علم بھرا باڑا ہے‘‘ دوسری مرتبہ فرمایا: ’’کنیف ملیءَ فقھاً‘‘ ’’تفقہ و فقہی بصیرت سے بھرا باڑا ہے‘‘۔ (۵)
خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کو: ’’أصحاب سرج ھذہ القریۃ‘‘(۶) ۔۔۔ ’’یہ اس بستی (کوفہ) کے علمی چراغ ہیں‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ اس سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے علمی مقام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

شاگردان ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فقہی مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی نظر میں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما قدر کرتے اور جب وہ آتے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کی دعوت کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم رحمہ اللہ نے حضرت مسروق رحمہ اللہ کا یہ بیان نقل کیا ہے:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے پاس جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد آتے تو وہ ان کے یے کھانا تیار کراتے، انہیں بلاتے تھے، مسروق رحمہ اللہ نے کہا: ایک بار انہوں نے ہمارے لیے کھاناتیار کیا، پھر مسائل پوچھنے اور فتویٰ دینے لگے اور مسائل میں ہماری مخالفت کرنے لگے، ہمیں جواب دینے سے یہی بات مانع رہی کہ ہم ان کے یہاں کھانے پر مدعو تھے (یہ موقع بحث و مباحثہ کے لیے موزون نہیں تھا، اس لیے ہم نے اس سے گریز کیا)۔‘‘ (۷)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کا عہدِ صحابہ میں اجتہاد اور خدمت افتاء
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ عہد صحابہ میں اجتہاد کرتے تھے اور ان کے فتووں کو مانا جاتا تھا، چنانچہ امام ابواسحاق الشیرازی الشافعی رحمہ اللہ متوفی ۴۷۶ھ تحریر فرماتے ہیں:
’’أصحاب عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کشریح و الأسود رحمہ اللہ و عقلمۃ کانوا یجتھدون فی زمن الصحابۃ و لم ینکر علیھم أحد‘‘۔ (۸)
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد جیسے قاضی شریح، اسود اور علقمہ رحمہم اللہ عہد صحابہ میں اجتہاد کرتے تھے اور کسی نے ان پر نکیر نہیں کی۔‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کا روایتی و ثقاہتی معیار
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کو فقہ و حدیث میں جو مرتبہ و مقام حاصل تھا، ان کا اندازہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے، موصوف لکھتے ہیں:
’’اور لیکن اہل حدیث جیسے شعبہ رحمہ اللہ اور یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ اور اربابِ صحاح ستہ و سنن‘ حفاظ اور غیرثقات میں تمیز کرتے تھے، چنانچہ وہ کوفہ اور بصرہ کے ایسے ثقہ راویوں کو جن کی ثقاہت شک و شبہ سے بالاتر ہے، خوب جانتے تھے اور ان میں بہت سے ایسے راوی بھی ہیں جو بہت سے حجازی راویوں سے بھی افضل و برتر تھے۔ اور کوفی عالم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی ثقاہت کے متعلق شک و شبہ میں پڑتاہی نہیں تھا، جیسے علقمہ رحمہ اللہ، اسود رحمہ اللہ، عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ، حارث تمیمی رحمہ اللہ، شریح قاضی رحمہ اللہ، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ، حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ، ان کے بعد انہی جیسے حفاظ روات سب سے زیادہ معتبر اور سب سے بڑھ کر حافظ موجود تھے۔ چنانچہ علماء اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ شناسانِ حدیث نے جن حدیثوں کو صحیح قرار دیا ہے، ان سے استدلال اور حجت پیش کرنا درست ہے۔ ان اہل علم کا تعلق خواہ کسی شہر سے ہو، اور ابوداؤد سجستانی رحمہ اللہ نے ایسی حدیثوں کو جن کی روایت میں ہر شہر کے علماء منفرد ہیں، انہیں ایک کتاب میں جمع کیا ہے جو ’’مفارید أھل الأمصار‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔‘‘ (۹)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی کوفہ میں تعلیمی خدمات کا فیضان
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی تعلیمی خدمات کے متعلق محمد بن سیرین رحمہ اللہ متوفی ۱۱۰ ھ کے بھائی نامور عالم انس بن سیرین بصری رحمہ اللہ (۳۴۔۱۲۰ھ) کا بیان قاضی حسن بن خلاد رحمہ اللہ متوفی ۳۶۰ھ نے بسند متصل ’’المحدث الفاصل‘‘ میں زینتِ کتاب کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’قدمت الکوفۃ قبل الجماجم فرأیت فیھا أربعۃ آلاف یطلبون الحدیث و أربع ماءۃ قد تفقھوا‘‘۔ (۱۰)
’’میں دیر جماجم کے واقعہ یعنی ۸۲ھ سے پہلے کوفہ میں گیا تو میں نے دیکھا کہ یہاں چار ہزار طلبۂ حدیث پڑھتے تھے اور چار سو طلبہ فقیہ بن چکے اور فقہی بصیرت حاصل کرچکے تھے۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد تابعین میں صرف کوفے میں چار سو فقیہ موجود تھے۔ دوسرے اسلامی قلمرو کے بلاد اور دیہات کا کیا ذکر؟ ذرا نظر کو بلند کیجئے! عہد صحابہ میں کسی صحابی کے شاگردوں کو کہیں ایسے القاب سے یاد کیا گیا ہے اور کیا کسی مجتہد کی تعلیمی و تدریسی خدمات کو خلافت راشدہ میں ایسے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامذہ کو پیش کیا ہے؟ یہ نتیجہ و ثمرہ اس فقہی بصیرت کا ہے جو انہیں حاصل تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی تعلیمی و تدریسی خدمات کے عہد اموی میں جو شاندار نتائج و ثمرات اور ان کے دیرپا اثرات کوفہ میں نکلے، اس کی نظیر اسلامی قلمرو کے وسیع و عریض قطعہ میں کہیں اور مشکل سے ملے گی۔

عہد عباسی میں اس کا اثر کوفہ میں حدیث کی گرم بازاری
کوفہ میں حدیث کی گرم بازاری کا اندازہ قاضی حسن بن خلاد رامہرمزی رحمہ اللہ (تقریبا ۲۶۰۔۳۶۰ھ) نے ’’المحدث الفاصل‘‘ میں محدث بغداد حافظ عفان بن مسلم بصری رحمہ اللہ سے بسند متصل نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’فقد منا الکوفۃ فأقمنا أربعۃ أشھر، و لو أردنا أن نکتب ماءۃ ألف حدیث لکتبناھا، فما کتبنا الا قدر خمسین ألف حدیث و ما رضینا من أحد الا بالاملاء الا شریکاً، فانہ أبی علینا و ما رأینا بالکوفۃ لحاناً مجوزا‘‘۔ (۱۱)
’’ہم کوفہ میں آئے تو چار مہینے ٹھہرے، ہم اگر یہاں یہ چاہتے کہ ایک لاکھ حدیثیں لکھیں تو لکھ سکتے تھے، مگر ہم نے صرف پچاس ہزار حدیثیں لکھیں، پھر کسی اور سے املا کے علاوہ راضی نہ ہوئے، مگر شریک کے سوا کہ انہوں نے ہم سے انکار کیا اور ہم نے کوفہ میں کسی ایسے آدمی کو نہیں دیکھا کو جو عربیت میں غلطی کرے اور اس کو روا رکھے۔‘‘
عفان رحمہ اللہ نے جس شہر میں چار مہینے میں پچاس ہزار حدیثیں لکھیں، اس شہر میں حدیث کی کثرت کا کیا ٹھکانا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی و حوالہ جات
۱: أصول الدین، تالیف عبدالقادر البغدادی، استانبول، مطلبعۃ الدولۃ ۱۳۴۶ھ، ص۳۱۱۔
۲: أصول البزدوی، ص: ۱۵۸۔۱۵۹۔
۳: فتاوی عزیزی، دہلی، مطبع مجتبائی، ۱۳۴۱ھ، ج: ۱، ص: ۱۱۸۔
۴: أصول الجصاص، ج:۲، ص: ۱۵۶۔۱۵۷۔
۵: الطبقات الکبری، ج: ۲، ص: ۳۴۴۔
۶: تاریخ الثقات للعجلی، طبع ۱۴۰۵ھ، ص: ۲۷۶۔
۷: أصول الجصاص، ج: ۲، ص: ۱۵۶۔۱۵۷۔
۸: أبواسحاق شیرازی الشافعی، کتاب اللمع۔
۹: مجموع الفتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، الریاض ۱۳۹۸ھ، ج: ۲۰، ص: ۳۱۷۔
۱۰: المحدث الفاصل، ص: ۵۶۰۔
۱۱: المحدث الفاصل، ص: ۵۵۹۔

جاری ہے

چوتھی قسط

بقلم: مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی
بشکریہ ماہنامہ بینات۔ ذوالحجۃ ۱۴۳۵ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں