نمازخانہ مسمارکرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے

نمازخانہ مسمارکرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے

اہل سنت ایران کے ممتاز دینی و سماجی رہ نما، شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے تہران کے مرکزی سنی نمازخانے کے مسمار ہونے پر شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے اعلی حکام سے تخریب کاروں کو ڈانٹنے اور نمازخانے کی تعمیرِ نوکا مطالبہ کیا۔

اکتیس جولائی دوہزار پندرہ (چودہ شوال المکرم) کے خطبہ جمعہ میں زاہدانی سنی عوام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: عبادت اور عبادتگاہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے اہم ہے۔ جو لوگ اپنے رب سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں، حتی کہ بت پرست لوگ، ان کے پوجا کرنے کی جگہ مقدس اور انتہائی اہم ہے۔ اسی لیے دنیا کے مختلف کونوں میں ہر مذہب کی عبادتگاہیں موجود ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اسلام میں مسجد تعمیر کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا مختلف محلوں میں پنج وقتہ نمازوں کے لیے مسجدیں تعمیر کریں چونکہ سب کے لیے مسجدالنبی آنا مشکل تھا۔ قرآن مجید نے بھی اس کام کی ترغیب دی ہے۔ مسلمان چاہے شیعہ ہو یا سنی، مسجد اور جائے عبادت اس کی ضرورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ حتی کہ بعض لوگ جو کام یا تجارت کے سلسلے میں کہیں جاتے ہیں، اگر اذان کی صدا انہیں سنائی نہ دے تو وہ پورا شہر چھوڑکر کہیں اور چلے جاتے ہیں۔

اہل سنت تہران کے لیے مسجد ایک حیاتی ضرورت ہے
انہوں نے مزیدکہا: تہران میں ہزاروں سنی شہری آباد ہیں مگر ان کی کوئی مسجد نہیں ہے۔ انقلاب سے پہلے ملک کی فضا غیردینی تھی، لیکن انقلاب کے بعد فضا مناسب ہوئی تو ہمارے اکابرین نے اعلی حکام کے سامنے اس ضرورت کی تکمیل کی درخواست رکھ دی۔ چنانچہ مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ، بانی دارالعلوم زاہدان، کی درخواست پر آیت اللہ خمینی نے تہران شہر میں اہل سنت کی مسجد اور قیام کے لیے ایک ہوٹل کے الاٹمنٹ کا حکم دیا، اس وقت کے قومی اخبارات میں بھی اس کی خبر چھپ گئی۔ مگر تاحال یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: ایران میں اہل تشیع کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اہل سنت کو تہران سمیت دیگر بڑے شہروں میں مسجد تعمیر کرنے کا حق ہے۔ ہم بھی کئی سالوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش کرتے چلے آرہے ہیں۔ حتی کہ بعض بڑی حکومتی شخصیات کے مشورے پر ہم نے پندرہ سالوں تک چھپ کا روزہ رکھا تاکہ خاموشی سے ہماری مسجد کا مسئلہ حل ہوجائے، مگر ان بڑوں کا وعدہ عمل سے ہمکنار نہ ہوسکا۔ تاہم سنی شہریوں نے کچھ نمازخانے لیے اور کرایے کے مکانات میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے ایک غیرملکی دورے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایک مرتبہ ایک غیرملکی دورے میں کسی بڑی علمی شخصیت نے مجھ سے پوچھا تہران میں اہل سنت کی کوئی مسجد ہے؟ میرا جواب نفی میں تھا، البتہ میں نے کہا ہمارے کچھ نمازخانے ہیں۔ ان کے اس سوال کا کوئی جواب میرے پاس نہیں تھا کہ اہل سنت تہران میں کیوں مسجد تعمیر نہیں کرسکتے؟!

دنیا میں دوسروں کی عبادت کا مسئلہ حل ہوچکاہے
انہوں نے مزیدکہا:اب دنیا میں مختلف مذاہب کی عبادت کا مسئلہ حل ہوچکاہے اور عبادت و مسجد کسی کے لیے دردِسر نہیں ہے۔ حتی کہ کمیونسٹ حکومتیں جو کسی دور میں قرآن پاک اور نماز کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھیں، اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی ملنی چاہیے۔ روس کے دارالحکومت ماسکو میں درجنوں مسجدیں موجود ہیں اور انتہائی زور وشور سے جمعہ و عیدین کی نمازیں قائم ہوتی ہیں۔ مشرقی بلاک میں یہودی، عیسائی اور مسلمان سمیت سب آزاد ہیں، مغرب میں پہلے ہی سے سب کو آزادی حاصل تھی۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: جہاں تک مجھے معلوم ہے دنیا کے ہر دارالحکومت میں مسلمانوں کی مسجدیں قائم ہیں اور کہیں بھی شیعہ یا سنی مسلمانوں کو عبادتگاہ پر پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ تہران میں بھی اگر اہل سنت کی کوئی مسجد ہو، تو اس سے شیعہ برادری یا حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بلکہ یہ حکومت کے فائدے میں ہے اور اس کے مفادات کے عین مطابق ہے۔

شیعہ علما و مراجع اپنا موقف واضح کردیں
زاہدان میں فرزندان توحید سے خطاب کرتے ہوئے صدر مجمع فقہی اہل سنت ایران نے کہا: ہماری نماز سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ شیعہ علما اور مراجع اس حوالے سے اپنا موقف واضح کردیں۔ انہیں معلوم ہے ہمارے نمازخانوں میں ہرگز حکومت کے خلاف کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی ہے اور ہمیشہ اسلام، مسلمانوں اور ملک کے مفادات کا خیال رکھا جاتاہے۔ غلط فہمی سے بچنے کے لیے سیاسی بیانات سے بھی گریز کیا جاتاہے۔
تہران میں مسمارشدہ نمازخانے کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا نے کہا: تہران کے علاقہ پونک میں واقع نمازخانہ کی حیثیت مرکزی ہے اور گزشتہ چند مہینوں سے کچھ مسائل اس کے لیے کھڑے کردے گئے۔ شہری حکام کا دعوی ہے ایک رہائشی مکان کو ’مذہبی‘ مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا تھا جو ’خلاف قانون‘ ہے۔ حالانکہ یہ ایک نمازخانہ ہے اور نمازخانہ ہوتا رہائشی مکان جس میں عبادت کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزیدکہا: اگر قانونی کارروائی کرنی تھی تو اس کا واحد راستہ مسمار کرنا نہ تھا۔ اسی علاقے میں درجنوں غیرقانونی مکانات و تجاوزات پائے جاتے ہیں لیکن مسمار کرنے کے بجائے ان سے جرمانہ لیا گیا ہے۔ بعض نے ایک منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی اجازت لی اور بنائی دس منزلہ عمارت! لیکن ان کی عمارتیں ہرگز مسمار نہ ہوئیں مگر بعض شاذ و نادر صورتوں میں، جب اہل سنت کی باری آئی تو مسمار ہی واحد سزا قرار پائی۔

ہمارے خطوط کو جواب نہیں دیا جاتاہے
صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: پونک نمازخانے کے مقتدی مسئلے کے حل کے لیے کوشاں تھے تاکہ مسمار کرنے کے بجائے کسی پرامن طریقے سے مسئلہ حل ہو۔ لیکن شہری حکام نے واضح کیاہے ان پر دباو ہے کہ ہرحال میں مذکورہ نمازخانہ مسمار کیا جائے۔ تین مہینوں سے یہاں جمعہ قائم کرنے کی اجازت نہ تھی اور عید کی نماز بھی نہیں پڑھنے دی گئی۔ پنج وقتہ نمازوں میں مقتدیوں کی تعداد دس سے بھی اوپر نہیں جاتی، صرف جمعہ کے لیے لوگ یہاں آتے۔ لیکن انتیس جولائی کی صبح یہ نمازخانہ مسمار کردیا گیا جو بالکل اہل سنت کی توقع کے خلاف تھا۔
انہوں نے مزیدکہا: ہم نے اس سلسلے میں متعدد حکام اور ارکان پارلیمنٹ کو خطوط لکھے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ہمارے خطوط کو جواب کے قابل نہ سمجھا گیا اور کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہمیں اس سلسلے میں سب سے زیادہ موجودہ حکومت کے ارباب اختیار سے شکوہ ہے جنہوں نے یہ کوشش کرنے کی زحمت نہ اٹھائی کہ اہل سنت کی عبادتگاہ کا احترام و تقدس محفوظ رہ جائے۔

مرشداعلی اور صدرمملکت ہمارے خطوط پر توجہ دیں
مولانا عبدالحمید نے مرشد اعلی آیت اللہ خامنہ ای اور صدرمملکت ڈاکٹر روحانی کے نام اپنے خطوط کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: اسی مسئلے کے حوالے سے ملک کے اعلی حکام کو خطوط لکھے گئے، امید ہے ان پر توجہ دے کر ہمارا جواب بھیج دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا: اس واقعے سے ٹھیک تین دن پہلے صدر روحانی نے کردستان کے سنی عوام کے سامنے کہا تھا جو شیعہ وسنی کے درمیان فرق رکھتاہے وہ خطا پر ہے۔ کاش مسمار کرنے والے چند دن مزید صبر کا دامن تھام لیتے تا کہ صدر کا یہ بیان پرانا ہوجاتا! ہمارے خیال میں حکومت اور وزرا نے ہمارے حقوق کے مسئلے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی ہے اور وہ اس کی ’قیمت‘ ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
مولانا نے مزیدکہا: میں تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا لیکن اللہ گواہ ہے کہ ہم نے متعدد مقتدر حکومتوں اور عناصر کی پیشکش مسترد کی ہے جو ہمیں اپنے ملک میں بدامنی پھیلانے کے لیے ہر قسم کے تعاون کی پیشکش کرتے اور اس کی ترغیب دیتے رہے۔ ہم اب بھی پرامید ہیں اور باہمی گفت وشنید اور پرامن طریقوں سے اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے امن اور اتحاد کی خاطر دیگر ممالک میں شیعہ مسلمانوں پر حملوں کی مذمت کی ہے۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: ہر قوم کے افراد اپنے حکام سے بعض امور کی توقع رکھتے ہیں؛ اہل سنت ایران کو توقع ہے مرشد اعلی اور دیگر حکام ان کے مذہبی مکانات کی حفاظت یقینی بنائیں گے۔ اپنے دفاتر میں ہمیں راستہ دیں اور شیعہ وسنی میں کوئی فرق نہ دکھائیں۔ جب کوئی خط لکھا جاتاہے تو جواب دے دیں اور انتہاپسندوں کی پرواہ نہ کریں۔
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے کہا: امیدہے حکام اس تخریب کے پیچھے کارفرما لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گے اور مذکورہ نمازخانہ کی تعمیر نو کی اجازت دیں گے۔ آپ لوگوں کا غم وغصہ بھی قابل فہم ہے لیکن آپ صبر سے کام لیں اور کہیں ایسا کوئی اقدام نہ اٹھائیں جس سے ہمارے دشمنوں کو مداخلت کا موقع مل جائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں