تبلیغی جماعت کے عالمی سطح کے امیر مولانا زبیر الحسن دس روز کی علالت کے بعد بھارت میں انتقال کر گئے۔
انکی نمازجنازہ منگل کے روزرات 10 بجے بنگلہ والی مسجد نظام الدین نئی دہلی میں ادا کر دی گئی۔ نماز جنازہ میں پاکستان کے امیر حاجی عبدالوہاب سمیت دنیابھر کے علما نے شرکت کی۔ مولانا زبیر الحسن کے انتقال پر پاکستانی تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا عبدالوہاب، رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن، جامعیہ نعیمیہ کراچی کے مہتمم مفتی نعیم، تبلیغی جماعت کے امیر مولانا طارق جمیل، جنید جمشید ،سابق قومی کرکٹر سعید انور،جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، امیر جماعت اسلامی منور حسن ، اہلسنت و الجماعت کے امیر علامہ محمد احمد لدھیانوی، جامعہ اشرفیہ لاہو رکے مہتمم حضرت مولانا محمد عبیداللہ ، مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی، سنی اتحاد کونسل کے رہنما صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر،قاری ارشد عبید، حافظ اسد عبید، مولانا اجود عبید، مولانا زبیر حسن، حافظ خالد حسن ، مولانا محمد اکرم کاشمیری، پروفیسر مولانا محمد یوسف خان، مولانا فہیم الحسن تھانوی اور مولانا مجیب الرحمن انقلابی نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا زبیر الحسن اکی تمام زندگی دعوت وتبلیغ اور دین کی اشاعت میں گزری۔ مرحوم نے اپنے والد تبلیغی جماعت کے سابق مرکزی عالمی امیر حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلوی ؒکے مشن کو پوری دنیا میں عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا زبیرالحسن کی وفات سے عالمِ اسلام دین کے عظیم مبلغ اور داعی اور جید عالمِ دین سے محروم ہوگیا ہے۔ انہوں نے مرحو م کیلئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور لواحقین کیلئے صبرِ جمیل کی دُعا کی۔
حضرت مولانا زبیرالحسن صاحب کاندهلوی رحمۃ اللہ علیہ :ایک اجمالی تعارف
ولادت:مولانا زبیرالحسن صاحب کی پیدایش1950میں ہوئی ۔
والد:حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ الله علیہ ۔
تعلیم:حفظ القرآن پاک کی بسم الله حضرت اقدس راے پوری کے پاس ہوئی ۔
حفظ قرآن کے بعدعربی کی تعلیم مختلف اساتذه سے حاصل کی 1971میں مظاہرالعلوم وقف سہارنپورسے فراغت حاصل کی۔
نکاح:15جنوری 1969میں مولانا حکیم محمد الیاس صاحب کی صاحبزادی اور حضرت شخ الحدیث کی نواسی سے ہوا۔
اولاد:مولوی زہیرالحسن ، مولوی محمد شعیب، حافظ خبیب اور تین صاحبزادیاں ۔
دعوت وتبلیغ کے سلسلےمیں سب سے پہلی تقریرآپ نے9اگست 1974میں جمعہ کے دن مدرسہ قدیم مظاہر علوم وقف سہارنپورکی مسجد میں کی۔
تکمیل علوم کے بعدآپ حضرت مولانامحمد زکریا صاحب سے بیعت ہوے۔
10فروری 1978بروز جمعہ حضرت شیخ نے آپکو اجازت بیعت وخلافت سے نوازا۔
آپ کو حضرت مولانا الیاس صاحب کے سلسلے میں اپنے والد سے بهی اجازت وخلافت حاصل تهی۔
آپ کے اساتذہ میں مولانامحمداسعداللہ ،مفتی مظفرحسین، مولانامحمدیونس اور مولانامحمدعاقل لائق ذکرہیں۔
آپ نے فراغت کے بعدکاشف العلوم نظام الدین میں درس دیناشروع کیااورتقریبا25سال تک بخاری شریف پڑھانے کاشرف حاصل کیا۔
18مارچ 2014کوانتقال ہوا ۔رات 10بجے نمازجنازہ ہوگئی اورتدفین اپنے والدکے جوارمیں ہوئی۔
فرحمہ اللہ رحمہ واسعہ
نوائے وقت+بصیرت نیوزسروس
پیدائش 1950میں اور پہلی تقریر 1947 میں کیسے ہوئی.
1974 hai, 4 or 7 ka jaga typing mai change howa hai, pher bhi shokria