شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اسلام کو اعتدال کا دین یاد کرتے ہوئے کہا ہر شعبے میں میانہ روی اختیار کرنا اسلام کا حکم ہے۔
آٹھ مئی دوہزار پندرہ کے خطبہ جمعہ میں قرآنی آیت: «و کذلک جعلناکم أمة وسطا لتکونوا شهداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شهیدا» کی تلاوت کے بعد خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی اختیار کرنا چاہیے۔ اسلام ہمیں یہی سکھاتاہے۔
انہوں نے کہا: اعتدال اسلام کی خصوصیت ہے۔ گزشتہ مذاہب میں پیروکاروں کے معاصی و گناہوں کی وجہ سے ان پر سختی کی گئی اور بعض پاکیزہ و حلال چیزیں ان پر حرام کردی گئیں۔ یہ امر ان کی اصلاح و تربیت کے لیے تھا۔
مولانا عبدالحمید نے اسلامی شریعت کو افراط و تفریط سے دور قرار دیتے ہوئے کہا: شریعت اسلام میں افراط و تفریط دونوں کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اسلام کو ایک آسان دین بناکر بھیجا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد ہے کہ اسلام یکسو ہے اور اس کے دن رات برابر ہیں۔ اس میں کوئی کوتاہی، موڑ اور کجی نہیں ہے۔
انہوں نے مزیدکہا: اسلام کے تمام احکام میانہ روی و اعتدال پر مبنی ہیں۔ ایک مرتبہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے طے کیا کہ ایک شخص ہمیشہ روزہ رکھے گا، دوسرا پوری رات نماز میں گزارے گا اور تیسرا شادی سے امتناع کرے گا۔ جب آنحضرت ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے سختی سے انہیں منع کیا اور سخت برہمی کا اظہار کیا۔
دارالعلوم زاہدان کے مہتمم و شیخ الحدیث نے نبی کریم ﷺ کی سنت کو اعتدال پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا: آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرنا بھی میانہ روی ہے، چونکہ سنت ہمیں اعتدال کا سبق دیتی ہے۔ آپ ﷺ خود پر اور صحابہ پر نہ زیادہ سختی کرتے تھے نہ تساہل اور حد سے زیادہ نرمی کرتے تھے۔
اسراف و زیادہ روی قرآن وسنت کے تعلیمات کے خلاف ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اسراف کی مذمت بیان کرتے ہوئے کہا: اسراف و زیادہ روی حکم الہی اور سنت کے خلاف ہے۔ جس طرح کنجوسی اور بخل مذموم و ناپسند ہے، اسی طرح اسراف اور زیادہ روی بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام نے اس کو حرام قرار دیاہے۔ کھانے پینے اور اوڑھنے کی چیزوں میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزیدکہا: اگر کوئی شخص نیا کپڑا لیتاہے، یا گھر کے لیے کوئی سامان خریدتاہے تو بہتر ہے پرانے کپڑے اور سامان کو نادار و غریبوں تک پہنچائے۔ شادی کی تقاریب میں ضرورت سے زیادہ کھانا تیار نہیں کرنا چاہیے؛ اگر کوئی کھانا بچ جائے تو کچرادان میں ڈالنے کے بجائے غریبوں کو کھلایا جائے۔ افسوس کا مقام ہے بہت سارے مسلم ممالک میں اسراف و تبذیرعام چلن ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: موجودہ حالات میں جب ایران معاشی پابندیوں سے دست و گریبان ہے، بے روزگاری اور معاشی مسائل کی وجہ سے غربت بڑھ چکی ہے، ضرورت اس بات کی ہے ہم زیادہ سے زیادہ میانہ روی کی راہ پر چل پڑیں۔ اسلام ہمیں ہر کام میں ضرورت کی حد تک خرچ کرنے کا درس دیتاہے۔ ہر شخص اپنی آمدنی کے مطابق خرچ کرے اور خواہ مخواہ قرضوں کا بوجھ نہ اٹھائے۔ جن کے پاس مال زیادہ ہے وہ غریبوں کا خیال رکھیں اور ان پر صدقہ کریں۔
شادی کے اخراجات کم کرکے نوجوانوں کی شادی آسان بنائیں
اہل سنت ایران کے ممتاز سنی عالم دین نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں شادی کے مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگر شادی کی تقاریب میں میانہ روی سے کام لینا چاہیے۔ اگر شادی کے اخراجات کم کیاجائے اور تقریبات سنت کے مطابق ہوں تو بہت سارے نوجوانوں کے لیے شادی کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ آج کل درجنوں سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز اور ہزاروں ویب سائیٹس انٹرنیٹ پر بے حیائی و عریانی کی ترویج کررہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے برائی و بے حیائی کو ایک مسلمہ امر اور عام چلن بناکر دکھایا جائے۔ اسی لیے شادی کے مسئلے میں زیادہ روی و افراط نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا: شادی کے حوالے سے افراط و تفریط کا مظاہرہ ہوتاہے۔ بعض اسراف کرتے ہیں اور بعض دوسرے لوگ شادی کو خفیہ رکھتے ہیں، حالانکہ سنت یہ ہے کہ اس کی خبر عام کی جائے اور آس پاس کے لوگوں کو اس کی اطلاع دی جائے۔
شادی سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ کا اہتمام ضروری ہے
عالمی یوم تھیلیسیمیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: تھیلیسیمیا ایک خطرناک بیماری ہے جو بہت سارے خاندانوں کی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ اس بارے میں ماہر ڈاکٹرز کے مشوروں پر عمل کرنا چاہیے تا کہ اس کے خطرات کم ہوں۔ نیز شادی سے پہلے ہی میڈیکل ٹیسٹ کرانا چاہیے تاکہ بعد میں کوئی مسئلہ پیش نہ آئے۔ خاندان کے اندر شادی میں برکت آتی ہے لیکن ہر حال میں شادی سے قبل ضروری ٹیسٹ کا اہتمام کرنا چاہیے۔
انہوں نے شادی رجسٹرڈ کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا: ہمارے خطے میں ایک بری رسم و عادت یہ چلی آرہی ہے کہ سرکاری اور رسمی محکموں میں شادی رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔ بعض شناختی کارڈز لینے کو غیرضروری سمجھتے تھے اور بعض نے اپنے آبائی علاقوں میں زمینوں اور مکانوں کو رجسٹرڈ نہیں کرایا، اب سب کو پریشانی کا سامنا ہے۔ لہذا اس سلسلے میں مزید غفلت نہ دکھائی جائے۔
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے عدلیہ میں بعض سنی ماہرین کو ملازمت دینے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا: عدلیہ میں اس مثبت اقدام پر عدلیہ حکام اور مرشد اعلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ امید ہے ملک کے مختلف محکموں میں اہل سنت کے متخصصین اور ماہرین کو ملازمت دی جائے۔
آپ کی رائے