شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

حکام کو “لوگوں کے مسائل حل کرنے” اور “قومی مفادات کے تحفظ” پر توجہ دینی چاہیے

حکام کو “لوگوں کے مسائل حل کرنے” اور “قومی مفادات کے تحفظ” پر توجہ دینی چاہیے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے (17 نومبر 2023ء) کو زاہدان میں نماز جمعہ کی تقریب کے دوران “قومی مفادات” کے تحفظ کی اہمیت اور انہیں عوام الناس اور قوم کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے اور قومی مفادات کے تحفظ پر توجہ مرکوز کریں۔

’’قومی مفادات‘‘ کا تحفظ حکومتوں کا فرض ہے
خطیب اہل سنت نے کہا: ملتوں اور حکومتوں کے لئے سب سے اہم چیز “قومی مفاد” ہے۔ قومی مفادات کسی بھی قوم کا سب سے بڑا حق ہے جس کا دنیا کی تمام حکومتوں نے تحفظ کیا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے حلف اٹھاتی ہیں۔ قدرتی وسائل، ماحولیات، پانی اور سرمایہ اور وہ تمام چیزیں جو عام لوگ استعمال کرتے ہیں قومی مفاد میں شامل ہیں اور ان کا تحفظ حکومتوں کا فرض ہے۔ قومی مفادات بہت اہم اور نہایت ضروری ہیں اور اگر ان کی حفاظت کی جائے تو معاشرہ متاثر اور تباہ نہیں ہوگا۔ قومی مفادات میں کسی کو دست اندازی نہیں کرنی چاہیے۔
صدر دارالعلوم زاهدان نے فرمایا: ہمارے ملک کے خدشات اور تشویش میں سے ایک کا تعلق ’’قومی مفادات‘‘ سے ہے۔ “قومی کرنسی” بھی قومی مفادات میں شامل ہے، کیونکہ اس کا تعلق پوری قوم سے ہے اور اگر یہ کرنسی متاثر ہوجائے اور اس کی مالی قدر کھو دی جائے صرف ایک صوبہ یا ایک طبقہ متاثر نہیں ہوتا، بلکہ تمام ایرانی عوام کو نقصان پہنچے گا اور اگر کوئی شخص، گروہ، تنظیم یا ادارہ اپنے مفادات کو قومی کرنسی کی گرتے ہوئے قدر میں دیکھتا ہے تو اس سے قومی مفادات کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
نامور عالم دین نے مزید کہا: قومی محصولوں کو خزانے میں جانا چاہیے اور پوری قوم کے مفاد میں استعمال کیا جائے۔ کیونکہ ان آمدنیوں پر تمام لوگوں کا حق ہے اور ان کو محفوظ کیا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ بااثر افراد اگرچہ ایک شخص ہیں لیکن ان کے پاس ایک اہم تنظیم جیسا طاقت ہے۔ کچھ ادارے اور تنظیمیں بھی کوشش کر رہے ہیں قومی مفادات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کریں یا کچھ خاص لوگوں کی جیبوں میں جائیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خزانے میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
شيخ‌الحدیث دارالعلوم زاهدان نے حاضرین جمعہ سے فرمایا: کرنسی کی قدر کی کمی سے قومی مفادات کو بھی دھچکا لگا ہے۔ ان دنوں ملک میں جن مسائل کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے جن کے بارے میں مختلف لوگ اور حلقے شکایت کرتے ہیں اور لوگوں کا جینا مشکل ہو گیا ہے یہی وجہ ہے کہ کرنسی اپنی قدر کھو بیٹھا ہے اور آمدنی زندگی کے لیے کافی نہیں ہے اور کوئی بھی ان لوگوں اور ہم پیشہ انجمنوں کا جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔

حکام کو عوام کے معاشی مسائل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے
معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ’’بنیادی اور ثابت سوچ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے
اہل سنت ایران کی ممتاز عالم دین نے کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ڈالر کو نہیں مانتے اور اس کا نام نہیں لینا چاہیے، یہ نہیں ہوتا کہ آپ کوئی کرنسی کو قبول نہ کریں اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے لاتعلقی کا اظہار کریں۔ ہمارے ملک کی کرنسی پڑوسی ممالک کی کرنسی کے مقابلے میں گر چکی ہے۔ آج خانہ نشین، مزدور، اساتذہ، تاجروں اور دیگر کئی شعبوں کے لوگ مسائل کا شکار اور احتجاج کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اس آواز کو دباؤ کے ساتھ بند کرنا چاہتے ہیں، جب پیٹ بھوکا ہو تو دباؤ اور طاقت کام نہیں کرتا۔ جب بچہ گھر میں کھانے نہ ملنے پر روتا ہے اور ہم اسے مارتے ہیں، ایک لمحے کے لئے خاموش ہوسکتا ہے، لیکن پھر زور سے روتا ہے۔ لہذا جب لوگ زندگی میں چیلنج اور مسائل کا سامنا کرتے ہیں، اور کچھ کہتے ہیں، یہ بھوک کی وجہ سے ہے اور ایسا نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے اکسانے کی وجہ سے کھڑے ہو کر احتجاج کرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ایرانی لوگ دنیا کے بہت سے لوگوں کے ساتھ تجارت اور فروخت کرتے ہیں، اگر ہم سرحدیں بند کر دیں گے تو لوگوں کا زندگی بسر کرنا مشکل ہو سکتا ہے اور یہ کاروبار پیسہ سے ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ کرنسی کی قدر واپس کی جائے۔ اس لیے لوگوں کے معاشی اور مسائل کو حل کرنے کے لیے بنیادی اور ثابت سوچ کی ضرورت ہے۔ عہدیداروں ان مسائل کو نظرانداز نہ کریں۔ بلکہ اس قوم کے مسائل لیے کوئی حل سوچیں۔ حکام عوام کے ساتھ بیٹھیں، ان سے ہمدردی کا اظہار کریں ان کی بات سنیں۔ صدر اور وزراء عوام کے ساتھ جا کر بیٹھ جائیں اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے تلاش کریں۔
عوام کے معاشی اور دیگر مسائل کو حل کرنے کا اہم اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حکومت کو اس مسئلے کے حل پر توجہ دینی چاہیے اور اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھیں جب تک لوگوں کے مسائل حل نہ ہوں۔ اصل یہ ہے کہ ایرانی کرنسی کی قدر واپس آنی چاہیے۔ زیاده سے زیاده دس لاکھ ایرانی تومان ایک ہزار ڈالر ہونے چاہئیں۔ ہم نے ایک ایسا وقت دیکھا جب کہا گیا کہ ایک ڈالر بیس تومان کا ہو جائے گا تو لوگوں نے شور مچایا۔ لیکن اب ڈالر کہاں تک پہنچ چکا ہے؟

قومی مفادات کے تحفظ تک قوم کے مسائل حل نہیں ہوں گے
خطیب جمعہ زاہدان نے مزید کہا: قوم کی ایک اور تشویش پارلیمنٹ اور الیکشن کے حوالے سے لائق شخص کی انتخاب ہے۔ جس کو منتخب کیا جانا چاہئے جو انتظام کرنے کی طاقت اور مکمل اختیار رکھتے ہیں. تمام اختیارات ایک جگہ پر مرکوز نہیں ہونے چاہئیں۔ بلکہ مینیجرز کو بھی بااختیار بنایا جائے کہ وہ قومی مفادات کے انتظام اور تحفظ پر توجہ دیں۔
ہمیں ایسے حکام اور نمائندوں کی ضرورت ہے جو ملکی مفادات سے جُڑے تمام ہاتھ کاٹ دیں اور ان مفادات کو ان کی جگہ پر منتقل کر کے ان کی حفاظت کریں۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا تنظیم نے اپنے مفاد کے لیے قومی مفادات کا کوئی حصہ لیا ہے تو ان کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں اور عوام کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جائے۔ جب تک قومی مفادات کا تحفظ نہیں کیا جائے گا، ایرانی قوم ان مسائل اور پریشانیوں سے نجات حاصل نہیں کرسکے گی۔

ایرانی قوم میں تفریق اسلامی شریعت، بین الاقوامی قوانین اور آئین کے خلاف ہے
صدر دارالعلوم زاهدان نے فرمایا: میرا دلسوزانہ مشورہ یہ ہے آج سب سے اہم فریضہ “ایرانی عوام اور قومی مفادات کا تحفظ” ہے۔ ملکی وسائل جن میں تیل، گیس اور کانیں اور دوسرے ایرانی جائیدادوں کا تعلق صرف ایرانی قوم سے ہے اور ایرانی لوگ ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں۔ خدا کے قانون نے ان کے درمیان فرق نہیں کیا۔ ایران کے لوگ خواہ کسی بھی مذہب، نسل یا رجحان سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں ایرانی قوم کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور ایرانی قوم کے درمیان تفریق کو شریعت، قرآن اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قبول نہیں کرتی اور نہ ہی ہمارے ملک کے بین الاقوامی قوانین اور آئین میں۔ تمام ایرانیوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے، چاہے وہ ہمیں قبول کریں یا نہ کریں۔ حکومت، جماعتوں، سیاست دانوں اور دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ تمام ایرانی عوام کے بارے میں سوچیں۔
شریعت کے مطابق اور قانونی طور پر ایرانیوں کے مفادات دوسروں کے مفادات سے پہلے آتے ہیں جن سے توقعات وابستہ ہیں۔ اگر ایران کا بلاک شدہ پیسہ کہیں سے نکلتا ہے یا کوئی چیز بیچی جاتی ہے تو یہ ساری رقم قومی مفادات پر مرکوز ہونی چاہیے۔ حکام بلاک شدہ رقم کی رہائی کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں اور اس کے لئے حل موجود ہے، انہیں حل سے گزرنا ہوگا تاکہ قومی کرنسی کی قدر واپس آئے۔

کمزور پارلیمنٹ قومی مفادات کو نقصان پہنچاتی ہے اور یہ ملک اور حکومت کے لیے نقصان دہ ہے
مولانا عبدالحمید نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں پارلیمنٹ کے الیکشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا: پوری دنیا میں ہونے والے اہم الیکشنز میں سے ایک پارلیمنٹ الیکشن ہے، کیونکہ پارلیمنٹ قانون سازی کی جگہ ہے اور قانون سازوں کو ماہر افراد اور ملک کی سیاسی اشرافیہ میں سے ہونا چاہیے۔ نااہل افراد کو پارلیمنٹ کے لیے منتخب کیا گیا تو یہ قوم کے لیے تباہی ہوگی۔ جیسا کہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا اور لوگ انتخاب کے عمل سے ناراض تھے۔
انہوں نے مزید کہا: گارڈین کونسل، نگران اور انتظامی بورڈ اور ان کا انتخاب کرنے والے ادارے سخت نہیں ہونے چاہئیں۔ کیونکہ یہ کمزور اور نالائق لوگوں کے عہدوں پر آنے کا باعث بنتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ، حکومت اور گورننس یکساں ہونی چاہیے۔ یاد رکھیں کہ کسی بھی معاشرے میں یکسانیت اس معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ تنوع ہونا چاہیے۔ ایران ایک تکثیری ملک ہے جس کی نسلیں اور مذاہب ہیں۔ اور یہ اتنی ہی بے شمار اور متنوع ہونی چاہیے جتنی کہ ایرانی قوم ہے۔ اسلامی کونسل جو کہ ملت کا خلاصہ ہے، اس میں یکساں کثرت اور تنوع اور مختلف افکار اور مزاج کو ملنا چاہیے تا کہ صحیح قانون اور پالیسی کو منظور کرنے کے قابل ہوجائیں۔
انہوں نے کہا: جب پارلیمنٹ کمزور ہو گی تو ملکی اور قومی مفادات کا تحفظ نہیں ہو گا اور عوام اور حکومت کو نقصان ہو گا۔ اگر پارلیمنٹ حکومت کے اختیار میں ہوجائے تو اس سے حکومت اور ملک متاثر ہوگا۔ رکن پارلیمنٹ کے لیے ضروری نہیں کہ وہ نماز کا پابند ہو، بلکہ اسے ایک ہمدرد، عقلمند اور باضمیر انسان ہونا چاہیے اور قومی مفادات کا خیال رکھنا چاہیے۔ صدر مملکت اور ارکان پارلیمنٹ سیاستدانوں میں شامل ہوتے ہیں اور ہر کوئی سیاستدان نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ان مسائل کے لیے ماسٹر مائنڈ اور قابل لوگوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کو ایسے ہونے چاہئیں جو کسی پالیسی کو چیلنج کر سکیں جو قومی مفاد کے منافی ہو۔
زاہدان کے خطیب نے مزید کہا: بدقسمتی سے اسلامی کونسل کے بہت سے موجودہ نمائندوں کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے جو کہ اس کی سست کارکردگی کے بارے میں شکایات اور تنقیدیں ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس نااہلی کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے تنقید کی۔ تنقید کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے لوگ ہونی چاہئیں جو تنقید کریں، کیونکہ تنقید سب کے لیے اچھی اور نفع بخش ہوتی ہے۔
انہوں نے “خواتین کی صلاحیت” کے استعمال پر زور دیتے ہوئے کہا: ہمیں خواتین کو ایک میدان عمل میں لانا چاہیے اور انہیں ان کی مقام دلوائیں۔ خواتین میں بہت سے قابل لوگ ہیں اور اس صلاحیت کو ملک کے مفادات اور انتظامیہ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

غزہ پر اسرائیل کے حملے “اپنے دفاع” کے لیے نہیں ہیں۔ یہ جرم ہے
مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں نماز جمعہ کے دوران اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں کے تسلسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: غزہ کے مناظر دیکھنا اور اہل غزہ کے حالات سننا کسی بھی انسان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ بدقسمتی سے امریکہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل کو اپنے دفاع کے نام پر غزہ پر حملہ کرنے کا پوری اجازت دے دیا ہے۔ یہ کیسا دفاع ہے کہ اسرائیل تمام عورتوں اور بچوں کو قتل کرتا ہے اور بنیادی ڈھانچے، عمارتوں اور ہسپتالوں کو تباہ کر دیتا ہے؟! کیا یہ اپنا دفاع ہے یا جرم؟!
انہوں نے کہا: سب کو میرا مشورہ ہے کہ انصاف کرو۔ ہم خواتین، بچوں اور بے سہارا لوگوں کی حمایت کرتے ہیں اور دونوں فریقوں سے کہتے ہیں کہ خواتین، بچوں اور بے گناہ لوگوں کو قتل نہ کیا جائے۔ عالمی طاقتیں اسرائیل کو روکیں جو خواتین، بچوں اور بے دفاع لوگوں پر ظلم کرتا ہے۔
تقریباً ایک صدی سے فلسطین کی سرزمین پر تنازعہ چل رہا ہے۔ عالمی برادری اور اسلامی و غیر اسلامی ممالک کو اس تنازعے کے حل کے لیے بنیادی حل سوچنا چاہیے۔ انہیں کوئی حل نکالنا چاہیے تاکہ دونوں فریق بغیر جنگ اور قتل و غارت گری کے ایک ساتھ رہ سکیں۔
اسرائیل اور تمام طاقتوں کو جان لینا چاہیے کہ “جنگ اور لڑائی” حل اور فیصلہ کن نہیں ہے۔ اگر لڑائی ہی حل ہوتی تو اب تک مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ یوکرائن کی جنگ کے معاملے میں اب وہ اسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس سے جانی نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آج دنیا میں لوگوں کی ثقافت اور سوچ جنگ اور لڑائی کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ کچھ یہودیوں نے بھی غزہ پر اسرائیل کے حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور نیتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ جنگ اور خونریزی اور بے گناہ انسانوں کا قتل خدا کے غضب کا باعث بنتا ہے۔

“زبردستی اور دباؤ” کام نہیں کرتا؛ “عوامی تعلقات” واحد راستہ ہے
تمام حکومتوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ زبردستی اور دباؤ کام نہیں کرے گا اور اگر یہ کام کرے گا تو یہ عارضی ہوگا۔ بلکہ بات چیت اور احترام اور حق ادا کرنے سے جواب ملے گا۔ میرے پاس صوبائی عہدیداروں کے لیے بھی ایک سفارش ہے اور میں ماضی میں کہہ چکا ہوں کہ اس صوبے میں جو کچھ ہوا وہ “عوامی تعلقات” ہے۔ اور یہ واحد راستہ ہے جس سے نتیجہ مل جاتا ہے۔ ماضی کی طرح انگریز سمیت بہت سی طاقتیں اس صوبے میں آئیں اور شکست کھا گئیں۔ اس کے علاوہ رضا شاہ اور قاجار کے دور میں بھی آخر کار اسی نتیجے پر پہنچے کہ عوام کے ذریعے اور لوگوں کے ساتھ مل کر اور سوچ بچار کے ذریعے مسائل حل کریں۔
ایک صوبائی کمانڈر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم خطے میں اپنی تیاریوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ زیادہ تیاری نہیں چلے گی۔ بلکہ آپ عوام کے ساتھ بیٹھیں۔ ملک اور صوبے کے عوام اچھے، معقول اور باعزت لوگ ہیں اور جمہوریت کے ذریعے ہی سب کے مسائل حل ہوتے ہیں۔ اس لیے عوام کے جائز مطالبات کا خیال رکھا جائے۔ لوگ انصاف اور برابری چاہتے ہیں۔

خونین جمعہ کے شہدا کے اہل خانہ اور زخمیوں کو تاوان قبول کرنے پر مجبور کرنا “روایات اور قانون کے خلاف” ہے
مولانا عبدالحمید نے زاہدان کی نماز جمعہ کی تقریب کے دوران اپنے خطاب کے آخری حصے میں زاہدان کی خونین جمعہ کے کیس کا ذکر کیا اور کہا: سنا ہے کہ کچھ لوگ خونین جمعہ کے شہداء اور زخمیوں کے اہل خانہ کے پاس جاتے ہیں اور انہیں فدیہ لینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر اصرار کرنا ملک کے روایات اور موجودہ قانون کے خلاف ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم حیران ہیں کہ اس جرم کے مجرموں کو سزا دینے کے لیے آیت اللہ خامنہ ای کے ہدایت کے باوجود اس حکم پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟! اب تک ہم سمجھتے تھے کہ قیادت جو بھی حکم دے، ان کا حکم ملک میں جاری ہوگا اور کم از کم حاکمیت اور حکومتی ملازمین ان کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ اس لیے اچها یہی تھا کہ جب یہ معاملہ قیادت کے سامنے پیش کیا گیا اور انہوں نے احکامات جاری کیں تو اس حکم کی تعمیل کی جائے۔
جس چیز نے لوگوں کے دلوں کو تسلی اور شہداء کے لواحقین اور تمام لوگوں کے زخمی دلوں کو سکون دے سکتا تھا یہ کہ جو لوگ اس جرم میں ملوث تھے انہیں سزا مل جائے۔ اب بھی ہم یہی چاہتے ہیں کہ ان مجرم لوگوں کو قانون کے حوالے کریں اور جو کچھ بھی شریعت اور قانون کہے ہمارے لوگ اس پر راضی ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں