شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

اسلامی ممالک اسرائیل کے خونخوار جرائم روکنے کے لیے متحد ہو جائیں

اسلامی ممالک اسرائیل کے خونخوار جرائم روکنے کے لیے متحد ہو جائیں

شيخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے دس نومبر دوہزار تئیس کے خطبہ جمعہ میں غزہ پر اسرائیل کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل کے دیگر حامیوں اور اتحادیوں پر فلسطینیوں کے قتل عام اور غزہ کی موجودہ تباہی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔

اسرائیل غزہ کی مکمل تباہی پر تلا ہوا ہے اور وہاں کے تمام باشندوں کو بے خانماں کرنا چاہتا ہے
غزہ میں اسرائیل کی حالیہ جارحیت پر پوری دنیا کے باضمیر لوگوں کے دل زخمی ہیں
خطیب اہل سنت نے کہا: اس دنیا میں زندگی ایک امتحان ہے۔ قادرِ مطلق اللہ تعالٰی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ جب ہم پر ایسی آزمائشوں اور حالات آتے ہیں تو ہم کیسا برتاؤ اور عمل کرتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا مقصود ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو اور اس طرح عمل کریں کہ اس راه میں کامیاب ہوجائیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے آزمائش ہیں۔ انہوں نے کہا: ایسے حالات پر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اردگرد کے مظالم سے لاتعلق نہ رہیں، اسے نظر انداز نہ کریں، یہ ہمارا انسانی فرض ہے کہ جب ہم لوگوں کو مصیبت میں دیکھیں، ان کی مدد کریں۔ ہمیں دنیا کے مسائل سے لاتعلق نہیں رہنا چاہیے۔
ممتاز عالم دین نے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیل کے خونخوار جارحیت پر مبنی ظلم و ستم نے پوری دنیا کے لوگوں کو غمزدہ اور متاثر کردیا ہے۔ یہ ایسے ہولناک جرائم ہیں کہ تمام دنیا کے جذبات کو جھنجوڑ دیا ہے اور انسانی ضمیروں کو زخمی کر دیا ہے، یہاں تک کہ اعتدال پسند یہودی بھی احتجاج اور مظاہرے کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مغربی اور یورپی ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے موقع پر جب کہ دنیا بھر کے ممالک اور حکومتیں اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، مغربی قوتوں کا انتہا پسند اسرائیلی حکومت کے متشدد وزیراعظم کی بیجا حمایت کرنا دراصل ایسے ہولناک جنگی جرائم کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔
ایرانی صوبہ بلوچستان کے وفاق المدارس کے سربراہ نے نماز جمعہ کے خطبے میں سامعین پر واضح کیا: اس وقت غزہ میں جو خون کا دریا بہایا جارہا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، اس جنگ میں اگر چہ یہودی اور اسرائیلی بھی قتل ہوئے ہیں لیکن اسرائیل نے اس کے بدلے میں غزہ کے لوگوں کو کئی گنا زیادہ نقصان پہنچایا اور بیس لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل علاقے کو مکمل تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں جان بوجھ کر غزہ میں بنیادی ڈھانچہ اور سڑکوں کو تباہ کیا جارہاہے اور عام شہریوں کو مارا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا: اس وقت غزہ کے مظلوموں پر جیسا ظلم کیا جارہا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اتنے سنگین جرائم اور ناانصافی کو کوئی بھی عقلمند اور منصف قبول نہیں کرسکتا۔
شیخ الاسلام نے حالات کی سنگینی سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: کسی مسلح گروپ اور ملیشیا کے خلاف لڑائی کرنا الگ بات ہے لیکن یہاں تو فلسطینی خواتین اور معصوم بچوں سمیت بے گناہ اور لاچار زخمی لوگ مارے جارہے ہیں، ہسپتال تباہ ہو رہے ہیں۔ مساجد، چرچ اور مذہبی مقامات محفوظ نہیں ہیں، ان کو تباہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا: کوئی مذہب یا قانون خواتین اور بچوں کے قتل عام اور ہسپتالوں اور مذہبی مقامات کو تباہ و برباد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
مولانا عبدالحمید نے اس بات پر زور دیا کہ ہسپتالوں، عبادت گاہوں، مذہی مقامات، عورتوں اور معصوم بچوں پر حملہ نہ کیا جائے۔
خطیب جمعہ زاہدان نے مزید کہا کہ حق تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کی روشنی میں ایسے حالات کے بارے میں خبردار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مقدس مقامات کے دفاع کے لیے جہاد کو جائز قرار دیا ہے ۔
صدر دارالعلوم زاهدان نے فرمایا: غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں تقریباً 5 ہزار بچے اور تقریباً 3 ہزار خواتین ہیں۔ غزہ کے لوگوں کی اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کو بلا تمیز نشانہ بنایا جارہا ہے۔
خطیب جمعہ نے امریکہ اور اسرائیل کے تمام حمایتوں پر واضح کیا کہ وہ بےگناہوں کے قتل عام اور غزہ کی تباہی میں اسرائیل کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی مذہب اور انسانی حقوق کی تنظیم جنگ میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے یا عبادت گاہوں اور ہسپتالوں کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
نامور عالم دین نے مزید کہا: امریکہ اسرائیل کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور اس معاملے میں علاقائی ممالک کی سفارتی مداخلت کو روکتا ہے، لہٰذا امریکہ اور وہ تمام لوگ جو اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں اس قتل و غارت میں شریک ہیں۔ حالانکہ انہیں ایسی تباہی کو روکنا چاہیے تھا، حکومتوں اور اقوام کی درخواستوں اور غزہ میں جنگ روکنے کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں کے باوجود اسرائیل جنگ بندی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور غزہ کو تباہ اور اس کے باشندوں کو بے گھر کرنا چاہتا ہے۔
دارالعلوم زاہدان کے سربراہ نے مسلم ممالک کے حکام کو آواز دی کہ: ہم اسرائیل کے جرائم کی شدید مذمت کرتے ہیں اور تمام مسلم ممالک سے کہتے ہیں کہ وہ اس جرائم کے خلاف متحد ہوجائیں۔ غزہ کی نسل کشی اور تباہی ختم ہونی چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اس جنگ کو روکنے کے لیے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا۔
مولانا عبدالحمید نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا: اس صورتحال میں انسانی حقوق کی تنظیم فعال نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپی ممالک اسرائیل کو کیوں چیلنج نہیں کریں گے؟ غزہ کے بے سہارا لوگ جن کا قتل عام کیا جارہا ہے، کیا وہ انسان نہیں ہیں؟
شيخ‌الحدیث دارالعلوم زاهدان نے حاضرین جمعہ سے فرمایا: ہم غزہ کے لوگوں اور دنیا کے دیگر مظلوموں کے لیے کم سے کم دعا کرسکتے ہیں، ظلم مسلمانوں پر ہو یا غیرمسلموں پر، ہر حالت میں قابل مذمت ہے اس لئے ہمیں بلاتفریق مذہب دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔

جھوٹ اور الزام تراشی مسائل کا حل نہیں، تنقید کرنے والوں کی بات تحمل سے سنی جائے
مولانا عبدالحمید نے کہا: جھوٹ اور الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہوتے، تنقید کرنے والوں کو برا بھلا کہنے اور الزامات لگانے کے بجائے ان کی بات سنی جائے، انہوں نے جامع مسجد مکی زاہدان کے عملے پر لگائے جانے والے حالیہ بہتان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ہم بہت حیران ہیں کہ حالیہ واقعہ میں بعض خبررساں ایجنسی اور حکومتی اداروں سے منسلک تنظیموں نے جھوٹ اور بہتان کا سہارا لیا۔ انہیں اس طرح کھلم کھلا تہمت لگانے کی جرأت کیسے ہوئی؟
کیا اسلام نے مسلمانوں کو جھوٹ بولنے اور دوسروں پر الزام لگانے کی اجازت دی ہے؟ کون سا مذہب مخالفین پر جھوٹ بولنے اور ان پر بہتان لگانے کی اجازت دیتا ہے؟ ایسا سلوک کرنے والوں کو اپنے ہی ایمان پر شک کرنا چاہیے۔ ہم کسی بھی قسم کی بہتان تراشی کی اجازت نہیں دیتے اور کسی کے خلاف جھوٹ کو قبول نہیں کریں گے۔
ہم اخلاص اور سچائی پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں کسی بھی حال میں سچائی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
انہون نے مزید کہا: بظاہر کچھ لوگ ناقدین کو میدان سے ہٹانا چاہتے ہیں، حالاںکہ ناقدین اور مخالفین کو سننا چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے اندر کوئی کمزوریاں نہیں ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی ایمانداری سے ہم پر تنقید کرنا چاہے تو ہمیں خوشی ہوگی اور اپنی کوتاہیوں کو اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ سب کو اپنے مخالفین کی بات سن کر اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لئے دوسروں پر الزام نہ لگائیں اور نہ کسی جھوٹ کا سہارا لیں کیونکہ دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا حرام ہے۔

صحافیوں اور میڈیا کی قانونی آزادی کو یقینی بنایا جائے
صحافیوں کی گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہیں
اہل سنت ایران کی ممتاز عالم دین نے میڈیا کے کارکنوں پر شدید دباؤ پر تنقید کرتے ہوئے کہا: پوری دنیا میں میڈیا معاشرے کی حقیقتوں کو پیش کرتے ہیں اور عوام کی خواہشات اور آراء کو حکام تک پہنچاتیں ہیں اور حکام کی آراء کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
میڈیا کی آزادی درحقیقت کسی بھی معاشرے اور قوم کی آزادی ہے۔ میڈیا اور صحافیوں کو حقائق آشکار کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ میڈیا کارکنوں پر ہرگز دباؤ نہیں ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صحافیوں اور میڈیا کے کارکنوں کو معمولی وجوہات کی بنا پر طلب یا گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ یہ قطعاً اچھی کارکردگی نہیں ہے کہ میڈیا صرف حکومتی آراء کو پیش کرے بلکہ ان کو اصل حقائق پیش کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے سماجی کارکنوں کے خلاف سخت پابندیوں کی طرف اشارہ کیا اور صحافیوں کی گرفتاریوں پر سخت تنقید کی اور کہا: بدقسمتی سے ایرانی اہل سنت کے پاس کوئی میڈیا نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کے پاس سیٹلائٹ اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک نہیں ہے جبکہ دنیا میں ہر جگہ مذہبی جماعتیں اور مذاہب کو ایسی سہولیات ملتی ہیں۔ لیکن ایران کے اہل‌ سنت کو یہ آزادی حاصل نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہماری ویب سائٹ (ایرانی اہل سنت کی آفیشل ویب سائٹ) شروع سے ہی بلاک کی گئی تھی۔ میرے دفتر سے تعلق رکھنے والی ویب سائٹ کو بھی لانچ ہوتے ہی بلاک کر دیا گیا، قطع نظر اس کے کہ ویب سائٹ پر کیا ہو رہا ہے۔ اب فوٹوگرافروں اور میڈیا کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ہم ایسے رویے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی پر مکمل پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے آخری کلمات میں حکام کو مخاطب کرتے ہوئے صحافیوں کی آزادی کا مطالبہ کیا اور کہا: ایک ایرانی کی حیثیت سے ہم قلم اور بیان کی آزادی چاہتے ہیں۔ ہم حکام سے درخواست کرتے ہیں کہ صحافیوں اور میڈیا کی سرگرمیوں کے سلسلے میں گرفتار ہونے والوں کو رہا کیا جائے۔ اس قسم کا رویہ حکومت اور قوم دونوں کے مفاد میں ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں