سعودی عرب نے حماس کے ساتھ جھڑپوں اور غزہ پر بمباری کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے ہونے والے مذاکرات معطل کردیے۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات کے حوالے سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ سعودی عرب نے فیصلہ کیا ہے کہ ممکنہ تعلقات کے قیام کے لیے ہونے والے مذاکرات معطل کردیے جائیں اور اس حوالے سے امریکی حکام کو بھی آگاہ کردیا ہے۔
سعودی عرب کے حوالے سے یہ رپورٹ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے دورہ سعودی عرب کے بعد سامنے آئی ہے جہاں انہوں نے اپنے سعودی ہم منصب سے ملاقات کی تھی اور اس حوالے سے خطے کے دیگر 6 ممالک کا بھی دورہ کیا۔
مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لیے مرکز کی حیثیت رکھنے والے سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ کبھی بھی سفارتی تعلقات نہیں رہے ہیں اور نہ ہی 2020 میں امریکی ثالثی میں ہونے والے ابراہم معاہدے کا حصہ بنا ہے، جس کے تحت متحدہ عرب امارات اور مراکش سمیت متعدد ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر دیے ہیں۔
سعودی عرب کے تجزیہ کار ہاشم الغنم نے بتایا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا اقدام امریکی منصوبہ ہے، جس سے سعودی عرب نے اس صورت میں خیرمقدم کیا تھا کہ اگر امریکا اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کا حل نکال سکتا ہے، جس سے فسلطینی بھی تسلیم کرلیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حقیقت میں اسرائیل اس بات پر تیار نہیں تھا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ معاہدہ کرے کہ ان کو کم از کم ان کی ضروریات کی اجازت دی جائے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ڈائریکٹر مشرق وسطیٰ جوسٹ ہلٹرمین کا کہنا تھا کہ کسی بھی عرب ملک کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کو موقع اس وقت نہیں ہے جب ان کے عوام کو غزہ کے حالات نظر آ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے حالیہ مہینوں میں سعودی عرب پر زور دیا تھا کہ وہ بھی ابراہم معاہدے کی طرح اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دور میں ریاض نے واشنگٹن کے ساتھ سیکیورٹی ضمانتوں سمیت تعلقات معمول پر لانے اور سویلین نیوکلیئر پروگرام بنانے میں مدد کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
فوکس نیوز کو ایک انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم معاہدے کے قریب آرہے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے فلسطین کا مسئلہ بھی اہم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس مسئلے کا حل نکالنا بھی ضروری ہے، ہمیں فلسطینیوں کی زندگی آسان بنانے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کو اسرائیل اور حماس کے درمیان موجودہ جنگ سے قبل ماہرین ایک بڑا سنگ میل قرار دے رہے تھے۔
دونوں فریقین کے درمیان تعلقات قائم کرنے کا موقع گزشتہ ہفتے حماس کی جانب سے اسرائیل پر اچانک حملوں کے بعد کھٹائی میں پڑا گیا ہے جہاں اسرائیل کے ایک ہزار 300 سے زائد شہرہ ہلاک ہوگئے ہیں۔
اسرائیل کی کارروائیوں میں غزہ میں اب تک 2 ہزار 215 افراد جاں بحق ہونے کی رپورٹس آئی ہیں۔
غزہ کے شہریوں کو شمالی علاقے چھوڑنےکے الٹی میٹم کے بعد 11 لاکھ آبادی کے حامل علاقے سے شہریوں کی نقل مکانی شروع کردی ہے جبکہ غزہ میں بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بھی بند کردی گئی ہے۔
اس حوالے سے امریکا نے کہا تھا کہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملوں کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ممکنہ طور پر تعلقات کی بحالی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہو سکتا ہے۔
سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ یہ بات حیران کن نہ ہو گی کہ اس کارروائی کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کو یکجا ہونے سے روکنا اور ان ممالک کو بھی روکنا ہو گا جو اسرائیل کے ممکنہ طور تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔
آپ کی رائے