مولانا عبدالحمید:

کوئی بھی حکومت عوام کے تعاون کے بغیر اس خطے میں امن برقرار نہیں رکھ سکتی

کوئی بھی حکومت عوام کے تعاون کے بغیر اس خطے میں امن برقرار نہیں رکھ سکتی

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے چھ اکتوبر دوہزار تئیس کو خطبہ جمعہ کے دوران صوبہ سیستان بلوچستان میں قیامِ امن میں عوام کے براہ راست کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کوئی بھی حکومت اور طاقت زورزبردستی اور عوام کے تعاون کے بغیر اس خطے میں سلامتی برقرار نہیں رکھ سکتی ہے۔

جبر و زبردستی ناکام پالیسی ہے؛ عوام کی باتیں سنیں
زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: زور زبردستی ہرگز کامیاب پالیسی نہیں ہوسکتی؛ عوام کو ساتھ رکھنے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ یہ ایک قبائلی علاقہ ہے جہاں بعض بڑے اور طاقتور قبائل ہیں اور بعض چھوٹے قبائل ہیں، جب بھی بڑے قبائل نے زورزبردستی سے اپنی بات چھوٹے قبائل پر ٹھونسنے کی کوشش کی ہے، وہ کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ آخر بات چیت پر مجبور ہوکر بعض اوقات ہاتھ جوڑ کر عاجزی دکھانے پر بھی مجبور ہوئے ہیں تاکہ چھوٹے قبیلے کی رضامندی حاصل کریں۔
انہوں نے مزید کہا: میں کھل کر کہتاہوں کہ اس علاقے کا امن عوام ہی نے برقرار رکھا ہے، کسی کی قوتِ بازو سے یہاں امن قائم نہیں ہوا ہے۔ ہم سب بشمول علما اور قبائلی عمائدین امن و سلامتی کے لیے محنت کرتے ہیں۔ پولیس اور سپاہ پاسداران عوام کے تعاون ہی سے امن قائم رکھتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت عوام کے بغیر اس خطے میں امن قائم نہیں رکھ سکتی۔ ہوسکتاہے تہران میں بیٹھے حکام کو معلوم نہ ہو، لیکن صوبائی حکام اچھی طرح اس حقیقت کو جانتے ہیں اور اسی لیے ان کی کوشش ہے کہ عوام کے ساتھ بیٹھیں؛ جب بھی وہ عوام کے ساتھ بیٹھے ہیں، امن قائم ہواہے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: ہم نے حکام کو گزشتہ جمعہ پیغام پہنچایا کہ خونین جمعے کی برسی پر یہاں کوئی خاص پروگرام نہیں ہے؛ لہذا امن برقرار رکھنے کے لیے عوام ہی پر بھروسہ کریں اور ایسے ہی امن قیمتی ہے۔ اس سے قبل بھی یہاں کوئی خاص احتجاجی پروگرام نہیں رہاہے اور کچھ لوگ اپنے دردوں کا نعرہ لگاتے رہے ہیں۔ دارالحکومت میں بیٹھے حکمرانوں کو اس علاقے کے مخصوص حالات کا علم نہیں اور صوبائی حکام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں قائل کریں قیامِ امن کو عوام ہی پر چھوڑدیں۔ یہاں کے عوام امن برقرار رکھتے ہیں اور کسی سے ان کی کوئی لڑائی نہیں، جو واقعہ پیش آیا تھا (خونین جمعہ)، اس پر صبر سے کام لے رہے رہیں اور اپنے مطالبات کی پیروی کررہے ہیں، اور حکام کو چاہیے اسے برداشت کریں۔ یہ لوگ اپنے شہر اور صوبے کو بدامن نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: صوبائی اور ملکی حکام اور علما کو میرا خیرخواہانہ مشورہ ہے کہ عوام کے ساتھ رہیں اور عوام ہی کی باتیں آگے پہنچائیں۔ جس نے تمہیں کہا ہے کہ یہ لوگ امریکا، برطانیہ یا اسرائیل سے وابستہ ہیں، اس نے جھوٹی رپورٹ دی ہے۔ یہ لوگ بھوکے ہیں اور مسائل سے دوچار ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھیں اور ان کی باتیں سن لیں اور ان کے مسائل حل کرائیں۔ یہ لوگ ایرانی قوم ہی کے افراد ہیں اور اسی ملک کے باشندے ہیں۔ انہوں نے تمہیں ووٹ دیاہے اور تمہارے محسن ہیں۔ اگر کوئی حکومت عوام کو ساتھ نہ رکھے، اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔

آرمیتا گراوند کا کیس ‘غیر جانبداری’ سے ٹھیک ٹھیک چھان بین کریں
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں تہران میں آرمیتا گراوند نامی سکول طالبہ کے لیے پیش آنے واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: تہران میٹرو میں آرمیتا گراوند نامی (سولہ سالہ) طالبہ پراسرار طورپر بے ہوش ہوچکی ہے اور اب اسپتال میں کومے کی حالت میں زیرِ علاج ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں شفا اور صحت عطا فرمائے۔ اس خبر نے ایرانی عوام کو پریشان کیا ہے اور پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ اس کیس کا بہترین حل یہی ہے کہ غیرجانبداری سے ٹھیک ٹھیک مسئلے کی چھان بین اور تحقیق کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا: کوئی بھی اہلکار جب غلطی کا ارتکاب کرتاہے، اسے قرارِ واقعی سزا دی جائے۔ انصاف وہ واحد چیز ہے جس سے ملک اور پوری دنیا میں سکون برقرار ہوسکتاہے۔کسی بھی حکومت کی بقا کا راز نفاذِ عدل میں ہے۔ کوئی بھی شخص چاہے کسی پیغمبر یا امام کا بیٹا ہو یا کسی اعلیٰ حکمران کے، جب اس سے غلطی سرزد ہوتی ہے، اس کے حوالے سے عدل نافذ ہونا چاہیے۔ یہ قرآن کی تعلیم ہے۔ قرآن پاک نے عدل کے حوالے سے کسی بھی شخص کو حتیٰ کہ حکمرانوں کو مستثنی نہیں کیا ہے۔سب کو اپنے اعمال کے بارے میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اگر اخلاقی پولیس یا کسی بھی ادارے کا اہلکار جب ظلم کرتاہے یا اپنی ڈیوٹی میں خطا کا ارتکاب کرتاہے، اس کا مقام خاطر میں لائے بغیر اس کا ٹرائل ہونا چاہیے۔ زاہدان کے خونین جمعہ کے قاتل اور انہیں حکم دینے والے چاہے ان کا تعلق کسی بھی جگہ سے ہو، قرارِ واقعی سزا پاتے، آج ان عوام کو تسلی ہوتی۔

تعلیم حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب میں ایران کے تعلیمی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: وزیر تعلیم نے خبر دی ہے کہ ملک میں دو لاکھ اساتذہ کی کمی ہے اور ساڑے چار لاکھ طلبہ کا کوئی استاذ نہیں ہے۔ یہ بہت سنگین مسئلہ ہے۔ تعلیم کسی بھی ترقی یافتہ ملک اور قوم کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ تعلیم ترقی کی سیڑھی ہے۔ اگر اس میدان میں اچھی طرح منصوبہ بندی نہ کی جائے، ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تعلیمی ذمہ داران اب تک کہاں تھے کہ انہیں پتہ نہ تھا دو لاکھ اساتذہ کی کمی ہے؟ انہیں یہ مسائل دیکھنا چاہیے تھا۔ اب اندیشہ ہے کہ وزارتِ تعلیم جلدی سے بھرتیاں شروع نہ کرے؛ چونکہ اس اہم کام کے لیے باتجربہ اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بارے ہم سب اور ایرانی عوام پریشان ہیں۔ باتجربہ اور انتہائی ماہر اساتذہ کو تنقید کرنے اور طلبا سے حمایت کی وجہ سے یونیورسٹیوں سے نکالے گئے ہیں اور ان کی جگہ نئے افراد لائے جارہے ہیں۔ اس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوچکی ہے۔ اگر کالجوں اور تعلیم کے شعبے کو نقصان پہنچے ، ترقی کے بجائے جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ بھی ہاتھ سے چلا جائے گا۔لہذا تعلیم حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

ناقدین کو برداشت کریں
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: افسوس کی بات ہے کہ سکول اساتذہ کے مسائل اور احتجاجوں پر جو ان کی معیشت کے حوالے سے ہیں، کوئی تشفی بخش جواب نہیں دیاگیاہے۔ استاذ کو فکر معاش سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے تم اساتذہ اور لیکچررز کی پریشانیوں کو سامنے رکھیں تاکہ وہ کسی پریشانی کے بغیر کلاسوں میں حاضر ہوجائیں۔ اگر وہ ناراض ہوجائیں، اچھی طرح نہیں پڑھاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا: بہت سارے اساتذہ کا اخراج ہوچکاہے، کچھ جیلوں میں بند ہیں اور مختلف وجوہ کے بناپر اساتذہ کی کمی پیدا ہوچکی ہے۔ اگر کوئی استاذ تنقید کرتاہے، اسے گرفتار کرنے یا نکالنے کے بجائے برداشت کریں۔ ناقدین کو برداشت کریں؛ جو ملک کے مفاد میں تنقید کرتاہے، اس کی بات سن لیں۔ سب طبقوں کی باتیں سن لیں تاکہ وہ نان شبینہ کے محتاج نہ ہوں اور گھر میں شرمندہ نہ ہوجائیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہم نے بارہا کہاہے کہ ملک کے اہم مسائل کے حل کے لیے ایرانی قوم کی توانائیوں سے فائدہ نہیں اٹھایاجاتاہے۔ قابل افراد سے کام لینا چاہیے جو مختلف محکموں کو اچھی طرح چلاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا: کچھ لوگوں نے کوشش کی حکومت ایک ہی جماعت اور سوچ کے لوگوں پر مشتمل ہو،اس پالیسی کی ناکامی واضح ہوچکی ہے۔ کامیاب پالیسی وہی ہے جو سب برادریوں، لسانی اور مذہبی اکائیوں کی توانائی سے کام لے اور میرٹ کو بنیاد بنائے، نسل اور مسلک کو نہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں