مولانا عبدالحمید:

زاہدان کے خونین جمعہ کے حل کے لیے کھڑکی سے نہیں، دروازے سے آئیں

زاہدان کے خونین جمعہ کے حل کے لیے کھڑکی سے نہیں، دروازے سے آئیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بائیس ستمبر دوہزار تئیس کو زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے بعض پولیس حکام کی جانب سے زاہدان کے خونین جمعہ کے شہدا کا کیس نمٹانے کی کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا اس مسئلے کا حل درست انداز میں کرکے دروازے سے آئیں۔

علما اور عمائدین کے درمیان کوئی فاصلہ پیدا نہیں کرسکتا
ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے زاہدان کے خونین جمعہ کے مسئلے کو حل کرانے کے لیے بعض ‘‘سرگرمیوں’’ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: گزشتہ دنوں بعض افراد نے سرگرم ہوکر خونین جمعہ اور اس کے بعد پیداہونے والے مسائل کو کسی طرح حل کرانے کی کوششیں تیز کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مسئلے اور مشکل کے حل کے لیے کوئی راستہ رکھاہے۔ اللہ کا حکم ہے کسی گھر میں داخل ہونا ہو تو دروازے سے اندر جائیں، کھڑکی سے گھسنے کی کوشش نہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا: الحمدللہ اس خطے کے علما، عمائدین اور عوام متحد ہیں اور ان کے درمیان کوئی جدائی نہیں ڈال سکتا۔ علما اور عمائدین کے باہمی تعلقات اور ان کے عوام سے تعلقات میں خلل پیدا نہیں ہوسکتا۔اگر کوئی کچھ کرنا چاہتاہے، اسے سمجھ لینا چاہیے کہ یہاں علمائے کرام اور قبائلی عمائدین عوام سے الگ نہیں ہیں، بلکہ وہ عوامی ہیں اور ان ہی عوام کے فرزند ہیں۔ یہاں اتحاد پایاجاتاہے اور یہ اللہ کی رحمت اور نعمت ہے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: میں یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ ہم کسی کے بھی نقصان کے لیے نہیں سوچتے ہیں چاہے وہ حکمران طبقے سے ہو یا قوم سے۔ لیکن ہم اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ مظلوم کا ساتھ دیں گے۔ جس نے ظلم کیا ہے اسے نصیحت کرتے ہیں اور جو کچھ اس کے مفاد میں ہو، وہی زبان پر لاتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ عوام کے فلاح و بہبود کے لیے محنت کرتے، اپنی اولاد کے لیے نہیں
ممتاز عالم دین نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: آپﷺ کی بعثت سے پہلے عدل و انصاف ناپید تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کو اعلیٰ ظرف کے ساتھ بھیجا تاکہ ایک ایسی قوم کی رہ نمائی و ارشاد فرمائے جو اخلاق و عقیدے میں بری طرح گرچکی تھی۔ ایک طرف قرآنی تعلیمات اور وحی کے چشمے سے اور دوسری طرف نبی کریم ﷺ کے حکیمانہ طریقوں اور منصوبہ بندی سے کمترین وقت میں سب سے بڑی تبدیلیاں مکہ، حجاز اور بحیرہ عرب میں دیکھنے میں آئیں۔
خطیب اہل سنت نے کہا: معاشرہ اور امت کی تربیت میں سب سے اہم نکتہ نبی کریم ﷺ کی والاہمتی کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا عمل تھا۔ آپﷺ آسمانی تعلیمات پر خود بھی عامل تھے۔ اپنے لیے کوئی جاگیر یا خاص جائیداد نہیں مانگتے تھے۔ اگر صحابہ ؓ نے بھوک کے مارے پیٹ پر ایک پتھر باندھا، آپﷺ نے دو پتھر باندھے۔ اگر صحابہؓ کے گھروں میں ایک یا دو دن فاقہ تھا، رسول اللہ ﷺ تین دن اور اس سے زیادہ ایام تک گھر میں کھانے کو کچھ نہ پاتے۔ اگر آپﷺ اپنے صحابہ ؓ کو تہجد پڑھنے کی نصیحت کرتے، خود بھی نماز پر اتنا کھڑے رہتے کہ پاؤں میں ورم سوجن ہوجاتی۔
انہوں نے مزید کہا: رسول اللہ ﷺ ہرگز اس فکر میں نہ تھے کہ اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی دوسروں سے بہتر بنائیں اور مزید خوشحالی میں انہیں دیکھیں۔ اگر آپﷺ اور ان کے اہل خانہ خوشحال ہوتے اور دوسرے لوگ فاقہ اور بھوک سے نالاں ہوتے، ہرگز آپ ﷺ کو اتنی بڑی کامیابی حاصل نہ ہوجاتی۔ آپﷺ اس فکر میں رہتے کہ دوسروں کی زندگی بہتر ہو۔ اسی لیے تھوڑے وقت میں آپﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں دنیا کی ایک تہائی توحید کے جھنڈے تلے آئی اور دنیا میں ایک بڑی تبدیلی پیش آئی۔

نبی کریم ﷺ کی زندگی میں کوئی جیل نہ تھی
آپﷺ پولیس گردی سے کوئی کام نہیں کرواتے
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: نبی کریم ﷺ نے کسی بھی کام کو زور زبردستی اور پولیس گردی نہیں کروایا۔ کسی کو بھی سواری سے نہیں اتارا، کسی کو گرفتار نہیں کیا؛ آپﷺ کے سب کام ارشاد سے ہوتے۔ پردے کے بارے میں اگر کوئی نصیحت فرماتے، کسی کے لیے راستہ بند نہ کرتے۔ عقیدہ، توحید، نماز اور اس طرح کے دوسرے امور کے بارے میں بھی ان کا شیوہ یہی تھا۔ آپﷺ صرف شرعی حدود کو نافذ فرماتے جو بعض خاص احکام کے بارے میں ہیں اور لوگ خود اعتراف کرتے۔ آپﷺ کی حیات طیبہ میں کوئی جیل نہ تھی۔ کسی قیدی کو مسجد کے ستون سے باندھا گیا۔ وہ آپﷺ کے اخلاق سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوا۔
انہوں نے کہا: سب وہ لوگ جو اسلامی حکومت اور نظام بنانا چاہتے ہیں، نبی کریم ﷺ کی سیرت ان کے لیے بہترین مثال اور ماڈل ہے۔ اگر لوگ بھوکے ہیں، تو حکمرانوں اور ان کے بچوں کو بھی بھوک کا احساس ہونا چاہیے۔ حکمران خود کو عوام سے نیچے سمجھیں، دورنگی چھوڑدیں اور عوام کے سامنے جس زبان سے بات کرتے ہیں، ان کی غیرموجودی میں بھی اسی زبان سے بات کریں۔ عوام کی توقع ہے کہ حکمران چاہے دین کے دعویدار ہوں یا تدین کا دعویٰ نہ کریں، وہ عوام کے ساتھ برابر ہوں۔ یہی توقع علمائے کرام اور عمائدین سے بھی ہے جن کو عوام اپنا پیشوا سمجھتے ہیں۔
خطیب اہل سنت نے مزید کہا: اناسی کے انقلاب کے بعد ملک میں ایک اچھا موقع فراہم ہوا تھا کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ و اہل بیتؓ کے منہج پر عوام کی تربیت ہوجائے۔ اگر حکام ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے اور عوام کے ساتھ رہ کر ان کی دنیا آباد کرتے اور خود سختی برداشت کرتے، آج عوام ان سے پیار کرتے اور ان کے دلدادہ بن جاتے۔ کوئی ضرورت نہ تھی کہ پردے کے بارے میں پیچیدہ قانون سازی کی جائے اور خواتین کو زبردستی کرکے پردہ کرنے کا حکم دیا جائے۔ اگر خواتین کا احترام کیاجاتا اور انہیں ان کا جائز مقام دیاجاتا، اگر نوجوانوں کی عزت کا خیال رکھاجاتا اور ان کے لیے مناسب منصوبہ بندی ہوتی، تو کوئی ضرورت پیش نہ آتی کہ نوجوان سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں۔
انہوں نے مزید کہا: واحد حل یہ ہے کہ خواتین اور نوجوانوں کی عزت کریں۔ نوجوانوں کو علم و دانش کے زیور سے آراستہ کرکے ان کے لیے روزگار فراہم کریں اور انہیں مایوسی سے نجات دلائیں۔ جب نوجوان مایوس ہوں اور اپنے لیے کوئی روشن مستقبل نہ دیکھیں، وہ اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی مسائل پیدا کردیتے ہیں۔ جب خواتین یوں محسوس کریں کہ سماج میں ان کی کوئی عزت نہیں ہے، تو جو خواتین پردہ پر یقین رکھتی ہیں، وہ بھی دوپٹہ اتار دیتی ہیں۔

اسلامی شریعت میں کوئی کمزوری نہیں؛ کمزوری افراد کے اعمال میں ہے
مولانا عبدالحمید نے معاشرہ میں دین بے زاری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہمیں بڑا افسوس ہوتاہے یہ دیکھ کر کہ معاشرے میں دین بے زاری بڑھ چکی ہے، اور بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات کے ذمہ داری دین ہی ہے، حالانکہ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ کمزوری افراد میں پائی جاتی ہے اور دین اسلام، شریعت اور نبی کریم ﷺ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہیں۔ موجودہ مسائل غلط پالیسیوں اور ذاتی آرا پر مبنی اعمال کی وجہ سے پیدا ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا: ہمیں خوشی ہوتی اگر دنیاوالوں کے سامنے اور اقوام متحدہ اور دنیا کے قائدین کے جلسوں میں کوئی ماڈل پیش کرتے جو پوری دنیا کے لیے قابلِ تقلید ہوتا۔ اس سے ہماری عزت بڑھ جاتی اور دنیا کے قائدین ایک مہذب قوم کا پیغام حاصل کرتے؛ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

حقیقی اتحاد کے لیے عمل کی ضرورت ہے
خطیب زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ‘‘ہفتہ وحدت’’ کی آمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: گزشتہ چار عشروں سے ملک میں ہفتہ وحدت سالانہ منایا جاتاہے۔ ان چوالیس سالوں میں جب بھی اتحاد بین المسلمین کے نام پر ہم نے ساتھ دیا اور جب بھی دعوت ہوئی، ہم نے کانفرنسوں میں شرکت کی، بات بھی کی؛ لیکن میرا خیال ہے کہ حقیقی اتحاد عمل کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر ہم عمل کریں، اس کا اثر بہت زیادہ ہوتاہے؛ ایک لفظ بھی زبان پر نہ لائیں، لیکن عمل کریں اس کا مثبت اثر زیادہ ہوتاہے۔ لیکن محض بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: اگر امتیازی سلوک اور نابرابری کی بیخ کنی ہوتی اور اتحاد کے نعروں کے پیچھے عمل بھی ہوتا، اس کا اچھا اثر پڑتا۔لیکن تمام تر مسائل، امتیازی رویوں اور نابرابری کے ہوتے ہوئے کانفرنسوں اور نعروں کا خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلتاہے۔ ہم اتحاد کے مخالف نہیں ہیں، بلکہ اس قرآنی حکم پر یقین رکھتے ہیں، لیکن بشرطیکہ اتحاد نعروں کی حد تک محدود نہ ہو، اس کے پیچھے کچھ عمل بھی ہو اور عملی طورپر مختلف مسالک میں کوئی فرق نہ ہوا۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں گزشتہ سال ملک گیر احتجاجی تحریک میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے اور انہیں سوگ منانے سے روکنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا لوگوں کو سوگ منانے سے منع کرنا المناک ہے۔ دنیا اور اسلامی روایات میں ہے کہ صاحبِ درد سے ہمدردی کی جاتی ہے؛ انہیں گرفتار کرکے سوگ سے منع نہیں کیا جاتاہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں