اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے پندرہ ستمبر دوہزار تئیس کے بیان میں واضح کیا آج ایرانی قوم ‘بیدار’ ہوچکی ہے اور بے جا لسانی و مذہبی تعصبات قوم کے افراد میں کم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ بیداری فتح، کامیابی اور ہمہ جہت ترقی کے سفر کا آغاز ہے۔
ایرانی بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ایرانی قوم کی بیداری ہمارے لیے انتہائی مسرت بخش ہے۔ مشکلات اور دباؤ کی وجہ سے ایرانی قوم میں بیداری پیدا ہوچکی ہے۔ جب قومیں بیدار ہوتی ہیں، پھر یہ کامیابی اور ترقی کا آغاز ہوگا اور ایک روشن مستقبل کی نوید ہوگی۔
انہوں نے کہا: ایرانی قوم کی بیداری کی سب سے بڑی علامت یہی ہے کہ ایرانی قوم کے افراد میں جو مختلف مذاہب اور مسالک، اور لسانی برادریوں پر مشتمل ہیں، بے جا لسانی اور مذہبی تعصبات بڑی حد تک کم ہوچکے ہیں؛ آج ماضی کے حالات ملک میں نہیں ہیں۔ آج ایرانی شہریوں میں جس برادری سے ہوں، باہمی بھائی چارہ، اتحاد اور پیار موجزن ہے؛ وہ ایک دوسرے کے لباس اور زبان کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے حالات پر شفقت کرتے ہیں۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: ماضی میں ہمیں نسلی اور مذہبی تعصبات کی شکایتیں تھیں۔ بے جا مذہبی تعصب سے جنون پیدا ہوتاہے اور مذہبی تعصبات کی وجہ سے دوسروں کا حق ضائع کرنے کی سزا بعض اوقات جہنم ہوسکتی ہے۔ الحمدللہ آج شیعہ برادری، سنی برادری، مسلم اور غیرمسلم برادریوں میں یہ بیداری پیدا ہوچکی ہے اور سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا: یہ ایرانی قوم کے لیے خوشخبری ہے کہ قوم بیدار ہوچکی ہے اور اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں کہ دشمن قوم میں مذہبی اختلاف پیدا کرے۔ اگر کوئی انتہاپسند سنی چاہے اہل تشیع کی توہین کرے، خود سنی شہری اسے روکتے ہیں، اور شیعہ برادری میں کوئی فرقہ وارانہ بات کہے، شیعہ برادری میں منفور ہوجائے گا اور لوگ اسے مسترد کرتے ہیں۔ آج ایرانی سماج میں لسانی اور مسلکی تعصبات اور نعروں کی کوئی پذیرائی نہیں ہوتی، اور یہ ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔
ایرانی قوم عدل و انصاف کی پیاسی اور امتیازی سلوک سے تھک چکی ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: آج ایرانی قوم انصاف کے لیے پیاسی ہے۔ ایرانی عوام اندرون و بیرونِ ملک یہی ہے کہ وہ عدل و انصاف اور آزادی چاہتے ہیں اور امتیازی سلوک اور نابرابری سے تھک چکے ہیں۔ 1979ء کا انقلاب انصاف اور آزادی کے لیے تھا۔ ایرانی قوم مشروع، قانونی اور بین الاقوامی آزادی چاہتی ہے۔ لکھاری، صحافی اور ناقدین کو آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا: لوگ چاہتے ہیں میرٹ کی بنیاد پر ملک چلایاجائے اور صرف قابل افراد ہی ملک کے اداروں کو چلانے کی اجازت مل جائے تاکہ عوام اور خدا کی رضامندی حاصل کرسکیں۔ عوام کی ناراضی کی نشانی یہی ہے کہ بہت سارے ماہرین، قابل افراد اور اسپیشلائزڈ افراد ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، بعض دیگر ماہرین گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں اور کمزور اور نالایق افراد نے ان کی جگہ لی ہے۔ بہت سارے ذمہ داران ایران جیسے بڑے ملک کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں اور عوام ناراض ہیں۔
خطیب زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: عوام داخلہ اور خارجہ پالیسیوں سے نالاں ہیں اور کہتے ہیں چوالیس سال سے جاری پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں اور ان میں اس طرح تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ عوام راضی ہوجائیں۔ آج دنیا کے حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور پیوستہ تبدیلی آرہی ہے؛ حکام حالات اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق آگے جائیں تاکہ عوام کی رضامندی حاصل ہوجائے اور ان کے مسائل حل ہوجائیں۔
انہوں نے مزید کہا: ایک بہت بڑا مسئلہ جس سے عوام کے لیے زندگی مشکل ہوچکی ہے، معاشی مسائل ہیں۔ ایرانی کرنسی کی قدر گرچکی ہے اور عوام میں اس حوالے سے کوئی بہتری کی امید بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ عوام کا خیال ہے اگر داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو اچھی طرح سیٹ کیا جائے اور امورِ مملکت قابل افسران اور ذمہ داران کے سپرد ہوجائیں، مشکلات میں کمی آئے گی۔
انصاف اور آزادی ‘امن’ کی ضمانت ہے
اگر مہسا امینی اور زاہدان کے خونین جمعہ و دیگر شہدا کے کیس کا مسئلہ حل ہوتا، عوام کو تشفی ہوتی
مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا: مہسا امینی کو ان کے لباس کی خاطر پولیس نے گرفتار کیا اور پھر ان کا جنازہ گھروالوں کے حوالہ کیا گیا؛ اس سے عوام کو سخت صدمہ پہنچا اور وہ جذباتی ہوئے۔ یہ عوام کے لیے انتہائی المناک تھا کہ کوئی خاتون دوپٹہ نہ پہننے کی وجہ سے یا ناقص پردے کی خاطر موت کا شکار ہوجائے حالانکہ اس نے کسی کو قتل نہیں کیا ہے۔ پرامن احتجاجوں میں متعدد افراد کو سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے قتل کیا یا ان کی آنکھیں ضائع ہوئیں؛ کسی بھی اہلکار کو قانون اور شریعت نے یہ اجازت نہیں دی ہے کہ وہ پرامن شہریوں کو مارڈالے۔
انہوں نے مزید کہا: احتجاجی مظاہرے پوری دنیا میں ہوتے ہیں، لیکن کہیں بھی عوام کو جنگی گولیوں سے نشانہ بناکر قتل نہیں کرتے ہیں، کسی کی آنکھ کو صدائے احتجاج بلند کرنے کی سزا میں ضائع نہیں کرتے ہیں۔ لوگوں کو منتشر کرنے اور دور کرنے لیے آنسو گیس اور پانی جیسے آلات سے استفادہ ہوتاہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ تخریب کاری اور امن کو سبوتاژ کرنا کسی بھی قانون میں درست نہیں ہے اور ہم بھی اسے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ لیکن پرامن احتجاج کو موت کا باعث یا گرفتاری و جیل کا سبب نہیں بننا چاہیے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: جب عوام انصاف کا نعرہ لگاتے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ جس طرح سکیورٹی اہلکاروں کے قاتل جیل جاتے ہیں اور قصاص کی سزا سنائی جاتی ہے، اسی طرح نہتے عوام کو قتل کرنے والے اہلکاروں کو بھی گرفتار کرکے قرارِ واقعی سزا دلوانی چاہیے۔ ان کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے۔ حالانکہ اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ زاہدان میں جو خونین جمعہ کا حادثہ پیش آیا، عوام کا مطالبہ تھا اور وہ اسی مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ جنہوں نے نہتے شہریوں کو شہید کیا ہے یا اس کا حکم دیا ہے، وہ جس سطح کے ذمہ دار ہوں، ان کا ٹرائل ہونا چاہیے اور انہیں سزا دینی چاہیے؛ انصاف یہی ہے۔ اگر مہسا امینی اور ان کے گھروالوں کے حق میں ظلم کرنے والوں کا ٹرائل ہوتا اور عوام کو ناحق مارنے والوں اور انہیں نابینا کرنے والوں کا ٹرائل ہوتا، لوگوں کو تشفی حاصل ہوتی۔
انہوں نے مزید کہا: عوام کی رضامندی عدل و انصاف کے نفاذ میں ہے۔ عدل و انصاف اور آزادی ‘امن’ کی گارنٹی ہیں۔ اگر کوئی کچھ کہتاہے یا لکھتاہے، اسے منع نہ کریں۔ صحافیوں اور سیاسی قیدیوں کو رہا کریں۔ جب فراخدلی ہوگی عوام کو تسلی حاصل ہوجائے گی اور اس کا نتیجہ سب کے لیے اچھا ہوگا۔
شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہمارا خیال ہے اگر کسی حکومت کو صرف ایک سال موقع مل جائے اور وہ اس ایک سال میں انصاف فراہم کرے، گویا اس نے سو سال حکومت کی ہے۔ لیکن اگر سو سال حکومت کرے مگر انصاف فراہم کرنے اور عدل قائم کرنے سے عاجز ہو اور قوم ناراض ہو، ایسی حکومت کا کیا فائدہ؟! کسی سرکاری خطیب نے کہا تھا کہ ہم ہزاروں سال رہیں گے۔ تم دس ہزار سال حکومت میں رہو، لیکن عدل قائم کرو۔ عوام کے لیے عدل، مساوات اور برابری اہم ہے۔ ایرانی عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ انصاف ہو اور انسانی عزت و احترام محفوظ رہے۔
سکیورٹی اہلکار مظاہرین کے سامنے برداشت کا مظاہرہ کریں اور عوام کو نہ ماریں
مولانا عبدالحمید نے فرزندانِ توحید سے اپنے خطاب کے ایک حصے میں ایرانی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: میرا خیرخواہانہ مشورہ اور نصیحت ہے کہ عوام کی اکثریت کا مطالبہ مان لیں اور ایرانی قوم کے ساتھ رہیں۔ یہ دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہوتی ہے۔ حکام اس قوم کے مطالبات پر توجہ دیں اور اگر کوئی پرامن احتجاج کرتاہے، اسے بات کرنے دیں اور بات سن بھی لیں۔ جذبہ خیرخواہی کے بنا ایسا کہتاہوں اور میرا کوئی ذاتی مقصد نہیں ہے۔ پہلے بھی میں نے کہا ہے میرا کوئی ذاتی مطالبہ نہیں ہے اور ہمارا مطالبہ وہی ہے جو ایرانی قوم کا ہے۔ ایرانی شہری بشمول خواتین و حضرات اور سب لسانی و مذہبی برادری ہمارے لیے محترم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: سب سکیورٹی فورسز کو میری نصیحت ہے کہ عوام کے پرامن احتجاج کے مقابل فراخدلی اور برداشت کا مظاہرہ کریں اور عوام کو نہ ماریں۔ یہ ایران ہی کے شہری ہیں اور مرد و زن اس ملک کے باسی ہیں اور تم بھی اسی قوم کے فرزند ہو۔ یہ قوم تمہارا اور سب حکام کی محسن ہے؛ پارلیمنٹ، حکومت اور سب حکام جس سطح پر ہوں، جو کچھ ان کے پاس ہے اسی قوم کی بدولت ہے۔ ان لوگوں سے تمہارا برتاؤ ایسا ہونا چاہیے جیسا کہ یہ تمہارے اپنے ہی ماں باپ، بہن بھائی اور اولاد ہیں۔ جن کا واسطہ جیلوں، قیدخانوں اور عدالتوں سے پڑتاہے، وہ ایران ہی کے شہری ہیں اور تمہیں چاہیے ان کی عزت کریں؛ اسلام کا فرمان بھی یہی ہے۔
ساحلی پٹی کے عوام کی شکایت سن لیں
خطیب زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں صوبہ ہرمزگان کے بندر کلاہی علاقے میں پیش آنے والے واقعات جہاں عوام کو تنگ کیاجارہاہے، پر ردعمل دکھاتے ہوئے کہا: مکران کی ساحلی پٹی کے ترقیاتی پروگرام سے عوام میں بے چینی اور پریشانی پھیل چکی ہے۔ عوام کو شکایت ہے کہ ترقیاتی پروگرام کے بہانے ان کی تاریخی بستیوں اور آباواجداد سے ملنے والی زمینوں سے نکالا جاتاہے اور مقتدر کمپنیاں ہزاروں ایکڑ زمین کو اپنے نام پر رجسٹرڈ کروارہی ہیں۔ جو عوام غربت اور معاشی مسائل سے تنگ آچکے ہیں اور انہوں نے اپنی سرزمین اور ایرانی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر جان کی بازی لگاکر دراندازی کرنے والی فوجوں کے خلاف مزاحمت کی ہے، وہ نظرانداز ہورہے ہیں۔ اس کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتا اور انسانی ضمیر کے لیے بھی ناقابلِ قبول ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بندر کلاہی کے عوام کو باربار تنگ کیا جارہاہے۔ حالیہ کریک ڈاؤن میں ان کی کشتیاں جلائی گئیں اور عوام کا بڑا نقصان ہوا۔ لوگ غریب اور بھوکے ہیں۔ جو تیل کا کاروبار کرتے ہیں، مجبوری اور غربت کے مارے ایسا کرتے ہیں وگرنہ کوئی بھی سمجھدار شخص اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالتا۔ ان عوام کی حالت قابل رحم ہے۔ ان پر سختی نہیں کرنی چاہیے۔ بندر کلاہی ساحلی پٹی کے دیگر عوام کے مسائل کو حل کرانا چاہیے۔ اگر کسی کا حق تلف ہوجائے، عوام احتجاج کریں گے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں سب کو نصیحت کی کہ قبائلی عمائدین اور علما کا احترام کریں اگرچہ ان کے طریقے سے اختلاف رکھیں تاکہ جنی و انسی شیاطین کو دوری پیدا کرنے کا موقع نہ مل جائے۔
آپ کی رائے