مولانا عبدالحمید:

‘‘انصاف اور برابری’’ سب ایرانی قومیتوں اور مسالک کی پکار ہے

‘‘انصاف اور برابری’’ سب ایرانی قومیتوں اور مسالک کی پکار ہے

ایران کے ممتاز عالم دین مولانا عبدالحمید نے یکم ستمبر دوہزار تئیس کو نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے ‘‘انصاف اور برابری’’ کو ایرانی عوام کا سب سے اہم مطالبہ یاد کرتے ہوئے گزشتہ چوالیس سالوں میں سنی برادری کی مذہبی آزادی کی کمی پر تنقید کی۔

مکمل اعتماد کے ساتھ کہتاہوں ایران میں میرٹوکریسی ناپید ہے
ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں ہزاروں نمازیوں سے بات کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کل ہر ایرانی شہری نعرہ لگاتاہے اور سب لسانی و مسلکی گروہوں کی پکار انصاف اور برابری کے حوالے سے ہے۔ حال ہی میں (جمعرات کو) صدر رئیسی نے اہل سنت ایران کی آزادیوں اور حقوق کے بارے میں گفتگو کی ہے اور اس حوالے سے ضرورت ہے کہ بندہ وضاحت پیش کرے۔
انہوں نے کہا: انقلاب کے بعد گزشتہ چوالیس سالوں میں اہل سنت کا مطالبہ انصاف ہی رہاہے کہ سب لسانی و مسلکی برادریوں کے حقوق محفوظ رہیں؛ وہی حقوق جو آئین، اسلام اور دنیا کے جمہوری ملکوں میں تسلیم کیے گئے ہیں اور ہمارا ملک بھی ‘اسلامی’ اور ‘جمہوری’ نظام کے دعویدار ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ یہ حقوق اب تک پامال ہوتے رہے ہیں۔
مولانا نے مزید کہا: مسلح اداروں میں اہل سنت کی جگہ خالی ہے۔ پہلوی نظام میں اہل سنت فوج، پولیس اور مسلح اداروں میں مختلف عہدوں پر فائز تھے اور اس وقت کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

چوالیس سالوں میں اہل سنت سے ایک وزیر بھی کسی کابینہ میں نہیں رہاہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اسلامی انقلاب سے چوالیس سال گزرچکاہے اور اس دوران ایک سنی وزیر بھی کسی کابینہ کا رکن نہیں رہاہے۔ حالانکہ اہل سنت میں بھی قابل اور ماہر افراد کی کمی نہیں ہے۔ میں مکمل اعتماد کے ساتھ کہتاہوں کہ ایران میں میرٹوکریسی کا راج نہیں رہاہے۔ اس کامطلب یہ نہیں سب وزیر اور حکام کمزور اور نااہل تھے، لیکن موجودہ اور سابق حکومتوں میں کوئی اہل سنت وزیر متعین نہیں ہوا ہے، اسی طرح خواتین سے بھی کوئی وزیر منتخب نہیں کیا گیا۔اگر ایسا ہوتا یہ ملک کے عین مفاد میں تھا جس سے قومی اتحاد کو نفع پہنچتا۔ یہ تمہاری عزت تھی اور ملک کی عزت دنیا کی سطح پر بڑھ جاتی۔
انہوں نے مزید کہا: محترم صدر نے پورے ملک میں بعض سنی افسران کی اعداد و شمار پیش کی ہے۔ یہ درست ہے کہ چھوٹے شہروں میں جہاں اہل سنت اکثریت میں ہیں، ناظم سٹی اور ضلعی گورنرز کا تعلق اہل سنت برادری سے ہے، لیکن صوبائی مراکز کے بارے میں بارہا میں نے بات بھی کی ہے اور خطوط بھی لکھاہے کہ مختلف محکمے سنی برادری سے خالی ہیں اور کچھ افراد جو موجود ہیں، وہ ریٹائرڈ ہورہے ہیں اور ان کی جگہ کوئی سنی شہری بھرتی نہیں ہورہاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: صوبائی مراکز میں بھرتیوں اور افسران کے تقرر میں انصاف ناپید ہے۔ زاہدان اور سنندج جیسے شہروں میں جہاں اکثریت اہل سنت کی ہے انصاف سے کام نہیں لیا جارہاہے۔ جن صوبوں میں سنی برادری کی تعداد کم ہے، وہاں غالبا کوئی بھی سنی شہری سرکاری اداروں میں نہیں ہے۔ پوری انقلاب کی تاریخ میں ایک سنی شہری صوبہ سیستان بلوچستان کی سکیورٹی کونسل کا رکن نہیں رہاہے، حالانکہ ستر فیصد سے زائد آبادی اہل سنت اور بلوچ برادری کی ہے۔ دیگر صوبوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر بھرتیوں اور تعینات میں انصاف کیا جائے، امن اور اتحاد پر خرچ ہونے والے بہت سارے اخراجات کا سد باب ہوگا۔

تہران سمیت دیگر بڑے شہروں میں اہل سنت مسجد کی مشکل سے دست و گریباں ہیں
انہوں نے مزید کہا: صدر مملکت نے اپنے خطاب میں اہل سنت کی مساجد کی تعداد کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ یہ اعداد و شمار بستیوں اور دوردراز علاقوں کی ہے۔ بعض شہروں میں بھی ہماری مساجد ہیں، لیکن مسئلہ تہران اور دیگر بڑے شہروں کا ہے جہاں سنی اقلیت میں ہیں، لیکن ان کی تعداد ایک لاکھ سے دس لاکھ تک ہے لیکن تم نے انہیں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ دارالحکومت تہران میں تم نے انہیں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہ دی حالانکہ یہ ملک کا دارالحکومت ہے اور مختلف ملکوں سے یہاں مہمان آتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں مسجد کہاں ہے کہ جاکر ہم نماز پڑھیں، لیکن کوئی مسجد نہیں۔ کچھ نمازخانے ہیں لیکن ان پر بھی دباؤ ہے اور وہ آزادی کے ساتھ نماز ادا نہیں کرسکتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اگر تہران میں اہل سنت کو مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دیدیتے، اس کا نفع تمہیں پہنچتااور یہ سب کی عزت کا باعث بن جاتا۔ آج تہران سمیت بعض دیگر بڑے شہروں میں سنی شہری نماز کے لیے پریشان ہیں، حالانکہ نماز سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ نیویارک کے میئر نے اعلان کیا ہے مسلمان آزادی کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر سے اذان دے سکتے ہیں اور انہوں نے اس آزادی پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ ماسکو کے دورے میں جب حکام نے کہا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مختلف مذاہب اور مسالک کے امور میں مداخلت نہ کریں، ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ کرملین کے قریب ماسکو کے وسط میں ایک عظیم الشان جامع مسجد تعمیر ہوئی ہے جس کی تعمیر کے اخراجات بیس کروڑ ڈالر ہوئے تھے اور روس کے مسلمانوں نے یہ اخراجات خود اٹھائے؛ صرف ایک مسلمان تاجر نے پندرہ کروڑ ڈالر اپنی طرف سے پیش کیا ہے۔ یہ تاجر اگر بعض مسلم ممالک میں ہوتا، تو اسے اپنا ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑتا؛ چونکہ اس سے پوچھ گچھ ہوتی کہ اتنے پیسے کہاں سے لائے اور کیوں مسجد پر اپنا پیسہ لگارہاہے۔

دین اور مذہب کو حکومتی نہ بنائیں
ممتاز عالم دین نے اہل سنت کے دینی مدارس کے حالات اور ان پر حکومتی کنٹرول کی کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ماضی میں حکومت نے مناسب منصوبہ بندی کے نام پر دینی مدارس اور مساجد کو سرکاری تحویل میں لینے کی کوشش کی جس کی اہل سنت نے سختی سے مخالفت کی۔ جن علاقوں میں مدارس و مساجد حکومت کی تحویل میں ہیں، وہ مدارس کمزور ہوچکے ہیں اور بعض بالکل بند ہوچکے ہیں جن میں کوئی طالب علم نہیں ہے۔ جن مساجد کے ائمہ کو حکومت نے زبردستی متعین کیا ہے ، اب وہاں عوام نے مسجد جانا چھوڑدیاہے۔ پورے ملک میں ایسے واقعات بہت پیش آئے ہیں۔
صدر شورائے ہم آہنگی مدارس دینی اہل سنت سیستان بلوچستان نے کہا: ہم نے کہا یہ عادلانہ نہیں ہے کہ ہمارے مذہبی امور اہل تشیع کے قبضے میں ہوں؛ جس طرح یہ انصاف سے دور ہے اگر اہل تشیع کے مذہبی امور کو اہل سنت سنبھالیں۔ ہر مسلک کے امور ان ہی کے علما کے ہاتھ ہونا چاہیے۔ حکومت مانیٹر کرسکتی ہے، لیکن مداخلت کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا: ہم نے بارہا آواز اٹھائی ہے کہ دین اور مذہب کو حکومتی نہ بنائیں اور مذہبی امور میں مداخلت سے گریز کریں۔ دنیا کی کسی بھی حکومت کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مذہب کو حکومتی بنائے۔ جن ملکوں میں شیعہ اقلیت ہیں وہاں بھی ہماری رائے یہی ہے۔

حکومتیں عوام کی عبادت کے لیے رکاوٹیں کھڑی نہ کریں
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارا مطالبہ تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں آزادی ہوتی اوریہ آزادی اس نظام کی تاریخ اور کارناموں میں رجسٹرڈ ہوتی جس کی سربراہی علما کررہے ہیں۔ تمہیں چاہیے تھا کہ اہل سنت کو آزادی دیتے اور مساجد اور نمازخانوں کا مسئلہ سکیورٹی ایشو نہ بناتے۔
انہوں نے مزید کہا: حالیہ احتجاجوں کے بعد جہاں بے پردگی کا مقابلہ کیا گیا، وہیں ہمارے نمازخانوں کا بھی مقابلہ ہوا۔ ہم نے کہا خواتین کے مسائل کے بارے میں تدبیر سے کام لیاجائے، اور کسی اہلکار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ خواتین کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کھینچ لے۔ نماز کے بارے میں بھی بات ہوئی کہ نمازخانوں کو بند نہ کریں۔ نماز اللہ کی عبادت ہے اور اسلام میں عبادت سے روکنے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی بھی مذہب اور دین کی عبادت سے منع کرنے کی اجازت نہیں ہے، چہ جائیکہ کسی مسلمان کو نماز سے منع کیا جائے۔ ایران سمیت کسی بھی ملک میں حکومتوں کو نماز سے منع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

رئیسی کی حکومت نے اہل سنت کو دیے گئے وعدوں میں سے ایک وعدے کو بھی پورا نہیں کیا ہے
خطیب اہل سنت نے تیرہویں حکومت سے تنقید کرتے ہوئے کہا: ہمارے لوگوں نے موجودہ حکومت کو ووٹ دیاتاکہ ان کے مسائل حل ہوجائیں، لیکن اس حکومت نے الیکشن کمپین کے دوران جتنے وعدے کیے تھے، ان میں سے ایک کو بھی پورا نہیں کیا۔وعدہ کیا گیا کہ اہل سنت سے صوبائی گورنر اور نائب وزیر اور سفیر متعین کیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اہل سنت تمہارے بھائی اور اس ملک و وطن کے مالک ہیں۔ تمہیں چاہیے تھا کہ انہیں پرامید بنادیتے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: صدر رئیسی سے میری دو ملاقاتیں ہوئی تھیں جہاں میں نے ان پر واضح کیا کہ ہمارے سب سے اہم مطالبے ‘قومی’ ہیں اور ہم سب ایرانیوں کے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ہم اہل سنت کے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ سنی برادری کے مسائل کی جڑ بعض نانوشتہ پالیسیوں کی وجہ سے ہیں۔ اگر صوبائی مراکز اور مسلح اداروں میں سنی برادری ناپید ہیں، ان سب کی وجہ یہی غیرآئینی اور ماورائے قانون پالیسیاں ہیں۔ اس بارے میں حکومتیں خود فیصلہ نہیں کرسکتی ہیں؛ اختیارات بعض دیگر محکموں کے پاس ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: اب ہمارے سب سے اہم مسائل اور مطالبات قومی مسائل ہیں۔ ہمارے لیے شیعہ و سنی کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ہم فرقہ واریت کے سخت خلاف ہیں اور ایسی باتوں سے پرہیز کی دعوت بھی دیتاہوں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ سب لسانی و مذہبی برادریوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے جو ایران میں رہتے ہیں۔ یہ اسلام اور جمہوری نظاموں کی رائے ہے۔ تنگ نظری سے حکومت چلانا ممکن نہیں ہے۔ نگاہیں بلند اور وسیع رکھیں۔ انصاف اور آزادی بہت اہم ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں