مولانا عبدالحمید حکام کو مخاطب کرتے ہوئے:

عوام ساتھ نہ دیں تو ملکی بحرانوں سے گزرجانا ممکن نہیں ہے

عوام ساتھ نہ دیں تو ملکی بحرانوں سے گزرجانا ممکن نہیں ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے گیارہ اگست دوہزار تئیس کو زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے ایران میں جاری مختلف بحرانوں پر تبصرہ کیا۔ انہوں نے بحرانوں سے نمٹنے کی ناکام پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے عوام کی بات سننے اور انہیں ساتھ رکھنے پر زور دیا جن کے بغیر کوئی بحران حل نہیں ہوسکتا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے نماز جمعہ سے پہلے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا:ملک مختلف سیاسی، معاشی اور ماحولیاتی بحرانوں کے طوفانوں میں گرفتار ہے۔ قدرتی آفات کی وجہ سے قلت پانی کا بحران پیدا ہوچکاہے۔ جنگلات آگ کی لپیٹ میں ہیں جو بڑا نقصان ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ملک کے بہت سارے تالاب اور جھیل پانی سے خالی ہوچکے ہیں اور لوگ پینے کے لیے پانی ترس رہے ہیں۔ ارومیہ اور ہامون کی تاریخی جھیلیں خشک ہوچکی ہیں اور بہت سارے دریا اور جھیل خطرے میں ہیں۔ دوسری طرف مختلف علاقوں میں طوفان اور گردوغبار ہے۔ سیستان اور حتیٰ کہ زاہدانی عوام کے لیے پانی کی وجہ زندگی ہی مشکل ہوتی جارہی ہے۔
مرکزی خطیب زاہدان نے کہا: صحت اور علاج کے شعبے میں بھی ملک بحران سے دوچار ہے۔ علاج کے لیے بہت ساری دوائیاں ناپید ہوچکی ہیں اور بیماروں کی رسائی دوائی اور مناسب علاج کے لیے مشکل ہوچکی ہے۔ بعض دوائیوں کے لیے بھاری رقم دینی پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ کسی نے کہا ایک انجکشن کے لیے اسے چھ کروڑ تومان دینا پڑا ہے۔
انہوں نے ایران کی قومی کرنسی کی قدر کم ہونے کو سب سے اہم بحرانوں میں شمار کرتے ہوئے کہا: سب سے اہم بحرانوں میں ایرانی روپے کی بے قدری اور معاشی بحران ہے۔ معاشی بحران نے عوام کی زندگی پر ہمہ جہت یلغار کی ہے اور سب ایرانی اس سے پریشان اور غصے میں ہیں۔

بحرانوں سے نمٹنے کی پالیسیاں ناکام ہیں
‘کمزور اور ناکام افسران’ کی کارکردگی کو موجودہ بحرانوں کی شدت میں موثر یاد کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: کسی بھی ملک میں کم و بیش قحط اور اس طرح کے بحران پیدا ہوسکتے ہیں، لیکن اہم بات ان سے نمٹنا ہے۔ یہ حکام اور اعلیٰ افسران کا کام ہے کہ کسی طرح ملک کو بحرانوں سے نجات دلائیں۔قوم کا احساس یہی ہے کہ موجودہ حالات میں گویا ملک میں کوئی ذمہ دار سرے سے موجود ہی نہیں کہ ان بحرانوں سے ملک کو بچائے۔ ذمہ دار حکام کے پاس کوئی اختیار نہیں یا اختیارات ہیں لیکن وہ خود کمزور ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: عوام کی پکار اور صدائے احتجاج بلند ہے جو اس بات کی نشانی ہے کہ ملک بحرانوں سے دوچار ہے۔ عربی کی کہاوت ہے کہ مسئلہ پیش آیاہے لیکن اس کے لیے کوئی ابوالحسن (حضرت علیؓ) نہیں ہے۔ آج ہمارے پاس وہ ابوبکرؓ نہیں ہے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد فتنہ ارتداد کے سامنے ڈٹ کر اسلام کا دفاع کیا اور خطروں کو دور کردیا۔ آج قوم کی پریشانی یہی ہے کہ ان کے مسائل حل کرنے والا کوئی نہیں اور موجودہ حکام مسائل اور بحرانوں سے نمٹنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔

قید وبند اور سخت سزاؤں سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں
خواتین کا احترام کیا جائے
ممتاز عالم دین نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ملکی مسائل اور بحران صحافیوں اور سیاستدانوں کو قید کرنے اور پھانسی جیسی سخت سزائیں دینے حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان مسائل کا حل مینجمنٹ اور درست منصوبہ بندی اور عوام کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرنے میں ہے۔ اگر عوام تمہیں ساتھ نہ دیں، ملک چلانا اور بحرانوں پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔عوام کے بغیر ان بحرانوں سے گزرجانا ممکن نہیں ہے۔ لہذا عوام کو اپنے ساتھ شامل کریں۔
انہوں نے مزید کہا: خواتین کو بطورِ خاص عزت دیں۔ ان سے کوئی درخواست ہے تو اس کا بہترین طریقہ انہیں عزت دینا اور ان کا احترام محفوظ رکھنا ہے؛ ان کی قدردانی کریں اور انہیں ان کا جائز مقام دیں تاکہ وہ تمہاری بات سننے اور ماننے کے لیے تیار ہوجائیں۔
مولانا عبدالحمید نے صحافیوں کے مقام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: سب معاشروں اور اقوام کے درمیان صحافیوں کو موقع سمجھاجاتاہے جو حقائق کو پیش کرتے ہیں؛ ان کی عزت محفوظ رہنی چاہیے۔اگر انہوں نے حقیقت کے خلاف کوئی بات لکھی، تو انہیں سمجھائیں، لیکن جو حقائق کو بتاتے ہیں، چاہے تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی انہیں برداشت کریں۔

ریاست کی رٹ اور اقتدار قوم کی بات سننے میں ہے
ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے عالم دین نے کہا: کسی بھی ریاست اور سیاسی نظام کی قوت اور رٹ اسی میں ہے کہ وہ اپنے عوام کی بات سن کر ان کے ساتھ رہے۔ عوام کی بات نہ ماننا کوئی اقتدار نہیں، بلکہ کمزوری کی نشانی ہے؛ قوت اسی میں ہے کہ عوام کی بات مان لی جائے جو ملک کے مالک اور ولی نعمت ہیں۔
انہوں نے کہا: ہم اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں اور کسی ذاتی غرض کے بغیر ملک و ملت کے مفادات کی خاطر عوام کی بات سناتے ہیں۔ اس ملک کے مفادات اسی ملک اور اس کی قوم کے لیے خاص ہیں۔ سب حکام براہ راست یا بالواسطہ عوام ہی سے ووٹ لے کر بر سر اقتدار آئے ہیں اور اس ملک کے اصلی مالکان عوام ہیں۔سب سے پہلے عوام کی دنیا آباد ہونی چاہیے پھر ان کی آخرت کی آبادی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ صرف آخرت نہیں ہے؛ دنیا بھی انسانوں کی ضرورت ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ کچھ لوگ دین و دنیا کو متضاد سمجھتے ہیں۔

افغان حکومت سیستان کے پانی کا حصہ دلوائے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان میں سیستان علاقے میں پانی کی شدید قلت اور بحرانی کیفیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے افغان حکام سے کہا:سیستان تمہارے سب سے زیادہ قریبی پڑوسی ہے جو پانی کی شدید قلت کی وجہ سے بحرانی کیفیت میں ہے۔یہاں تک کہ پینے کے لیے بھی ان کے پاس کافی پانی دستیاب نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: افغانستان کی اسلامی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ ہیرمند کا پانی اس طرح استعمال کرنے میں لائیں کہ افغانستان کے صوبہ نیمروز کے مختلف علاقوں کو پانی پہنچے اور سیستان ایران کو اس کا حصہ ملے۔جو بالائی حصوں میں رہتے ہیں وہ ضرورت سے زیادہ پانی استعمال نہ کریں تاکہ زیریں علاقوں کو بھی پانی مل جائے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: اللہ تعالیٰ نے زمین کی تہہ میں ڈیم اور پشتے بنائے ہیں جن میں انسان کی ضرورت کے لیے کافی پانی موجود ہے، لہذا روئے زمین درست تحقیق کے بغیر ڈیم بنانا بڑی غلطی ہے۔ پانی کو اللہ نے آزاد رکھا ہے؛ قدرتی نالے اور دریا اسی لیے ہیں کہ پانی اپنا راستہ خود پیدا کرتاہے اور سب انسان اور جانور اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں ڈیم بنانے کے بعد جنگلات، جھیلیں، دریا اور فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: بعض ممالک ڈیم بناکر اپنے پڑوسی ملکوں کو پانی سے روکنا چاہتے ہیں جو سنگین غلطی ہے۔روس ولگا دریا کو بند کرنا چاہتاہے جس سے بحیرہ قزوین تباہ ہوجائے گا۔ ایک شرعی اور بین الاقوامی مسلمہ قانون ہے کہ ‘‘القدیم یترک علی قدمہ’’؛ جو امر قدیم زمانہ سے چلا آرہاہے، کوئی بھی حکومت اور ملک اسے نہ روکے اور اسے اپنے حال پر چھوڑدے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں