مولانا عبدالحمید دینی مدارس کے ذمہ داران کے اجلاس میں:

حکومت نے اہل سنت سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کیاہے

حکومت نے اہل سنت سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کیاہے

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے ‘شورائے ہم آہنگی مدارس دینی اہل سنت سیستان بلوچستان’ کے اجلاس میں قومی، قومیتی اور مذہبی مطالبات اور زاہدان کے خونین جمعہ کے متعلق مطالبات کو تین بنیادی مسئلہ یاد کرتے ہوئے کہا: موجودہ حکومت نے جو وعدے اہل سنت سے کیے تھے، ان پر عمل نہیں ہوا بلکہ مزید مسائل کھڑے کردیے گئے۔
زاہدان کی جامع مسجد مکی میں جمعرات تین اگست دوہزار تئیس کو صوبہ سیستان بلوچستان کے دینی مدارس کے مہتممین اور سرکردہ علمائے کرام کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: زاہدان کے خونین جمعہ (تیس ستمبر دوہزار بائیس) سے پہلے ایران کی سنی برادری پر دباؤ بڑھانا شروع ہوا؛ بعض شہروں میں نمازخانے بند کرائے گئے اور بعض کو بند کرانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ہم نے ان مسائل کو منبر پر بھی اٹھائے اور صوبائی و قومی حکام سے ملاقاتیں کرکے بھی پیش کیے، لیکن کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا اور ان کے حل کا کوئی ارادہ ہی نظر نہ آیا۔
انہوں نے مزید کہا: ان حالات میں مرحومہ مہسا امینی اور ملک گیر احتجاجوں کا مسئلہ پیش آیا اور کچھ دنوں کے بعد زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد سینکڑوں افراد کو سکیورٹی فورسز نے خون میں نہلایا۔ یہ اتنا عظیم سانحہ تھا کہ اس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ اس کے باوجود جب ابھی فائرنگ کی آواز سننے میں آرہی تھی، میں نے سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی تاکہ صوبے کا امن خراب نہ ہوجائے اور پتہ چلے اصل واقعہ کیا ہے۔ الحمدللہ بہت بڑے فتنے کا دروازہ بند ہوگیا اور مزید خونریزی نہ ہوئی۔ نیز بہت سارے حکام بشمول سپریم لیڈر پر مسئلہ واضح ہوا کہ اس سانحے میں عوام کو بے دردی سے بلاوجہ شہید اور زخمی کیا گیاہے۔
صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے واضح کرتے ہوئے کہا: زاہدان کا خونین جمعہ کوئی ‘انسانی خطا’ نہ تھا، بلکہ جان بوجھ کر عوام کا قتل عام کیا گیا۔ یہ چوالیس سال سے جاری امتیازی سلوک کا نتیجہ تھا جس سے ہماری برادری نالاں ہے۔ ہم نے حکام سے مطالبہ کیا اس سانحے کی مذمت کریں اور جنہوں نے عوام کو مارنے کا حکم دیا ہے یا براہ راست ان پر فائر کھولی ہے، سب کا ٹرائل ہونا چاہیے؛ یہ معقول مطالبہ ہے۔ 1993ء کو جب جامع مسجد مکی میں عوام پر سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی اور متعدد شہری شہید اور زخمی ہوئے، اس واقعے کی انکوائری نہ ہوئی ؛ اگر اس کی غیرجانبدارانہ تحقیق ہوتی اور انصاف فراہم ہوتا، ستمبر دوہزار بائیس کو زاہدان کے خونین جمعے کا سانحہ پیش نہ آتا۔جب تک اس حادثے کی مذمت نہ کی جائے اور اس کے پیچھے ملوث حکام اور اہلکاروں کا ٹرائل نہ ہوجائے، عوام کی رضامندی حاصل نہیں ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا: دو سال قبل کے صدارتی انتخابات میں ہم نے دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ساتھ دیا۔ وجہ یہ تھی کہ ملک میں سب مقتدر ادارے ایک ہی سوچ کے نمائندوں کے سپرد ہونے والے تھے، ہم نے کہا دیگر برادریوں کے مقابلے سنی برادری زیادہ کمزور اور غیرمحفوظ ہے؛ کہیں انہیں نقصان نہ پہنچے۔ قدامت پسند سیاستدان بھی کہتے تھے کہ ایک بار ہماری حکومت کا بھی تجربہ کریں۔ لیکن انہوں نے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا، بلکہ الٹا مسائل پیدا کرنے لگے۔

ہم انسانیت کے لیے سوچتے ہیں اور قوم کے ساتھ ہیں
ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے سرکردہ علمائے کرام کی مجلس میں کہا: ہم کسی بھی جماعت یا فرد سے وابستہ نہیں ہیں؛ چاہے اندرونِ ملک ہو یا بیرون ملک۔ ہم مستقل ہیں اور پوری ایرانی قوم کے مفادات کے لیے سوچتے ہیں۔ ہمارا راستہ اعتدال ہے اور ہم افراط و تفریط کی مذمت کرتے ہیں۔ہم اعتدالی اسلام پر یقین رکھتے ہیں اور انتہاپسندی سے دور ہیں۔ ہمارا خیال یہی راہِ نجات ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارے لیے سب سے اہم انسانیت ہی ہے۔ ہم سب انسانوں کے مفادات کے لیے سوچتے ہیں اور اپنی قوم کے ساتھ ہیں۔ الحمدللہ قوم میں ایک بے مثال اتحاد پیدا ہوچکاہے۔ ہم تین بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں؛ پوری قوم کے مطالبات، مختلف لسانی و مسلکی برادریوں کے خاص مطالبات اور زاہدان و خاش کے خونین جمعوں کا مسئلہ۔ حالیہ مہینوں میں لسانی و مسلکی مطالبات کو پیش کرنے کا سلسلہ کم کردیا گیا ہے اور زیادہ تر توجہ قومی مسائل پر ہے۔
بعض ملکوں سے سفارتی تناؤ کم کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے اہل سنت ایران کے ممتاز رہ نما نے کہا: ایران کے دنیا کے سب ملکوں سے اچھے تعلقات پوری قوم کا مطالبہ رہاہے نہ کہ صرف ان ملکوں سے تعلقات قائم کیے جائیں جو خود بھوکے ہیں۔اس حوالے سے کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں، لیکن اس سے زیادہ اہم داخلی پالیسیاں ہیں جنہیں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اس حوالے سے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ہے تاکہ عوام کی پریشانیاں ختم ہوجائیں۔ عوام کو ساتھ رکھنا اور داخلی مسائل کو حل کرانا خارجہ تعلقات سے زیادہ اہم ہے۔ بارہا کہا گیا کہ داخلی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں تا کہ کم از کم اندرونِ ملک تمہارے مخالفین کم ہوجائیں۔

علما اور عمائدین غیرجانبدار اور مستقل رہیں
شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان کے صدر نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: میں ان علمائے کرام کا شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے اپنی حریت اور استقلال پر حرف آنے نہیں دیا۔ علما اور اسلام کی عزت اس وقت محفوظ رہ سکتی ہے جب علما صرف دین اور نبی کریم ﷺ سے وابستہ رہیں اور عوام کی خاطر کام کریں۔
انہوں نے مزید کہا: الحمدللہ حالیہ وقائع کے بعد علما نے جو موقف اختیار کیا اس سے معاشرے میں دین بے زاری کے سیلاب کا سدِ باب ہوا۔ علما کوشش کریں جذباتیت سے دور رہ کر معقول اور مستند موقف اختیار کریں۔ عمائدین اور قبائلی رہ نماؤں کو سمجھانا چاہیے کہ دوسروں کی توپ کا چارا نہ بنیں، بلکہ عوام کے ساتھ رہیں اور اپنی حریت اور باپ دادا کی نیک نامی کا خیال رکھیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں