مولانا عبدالحمید:

امام حسینؓ نے انسانیت کو بہادری، دلیری اور حریت کا سبق سکھایا

امام حسینؓ نے انسانیت کو بہادری، دلیری اور حریت کا سبق سکھایا

خطیب اہل سنت زاہدان نے اٹھائیس جولائی دوہزار تئیس کے بیان میں عاشورا کی مناسبت سے کربلا کے تلخ اور المناک سانحے کے بعض اسباق اور امام حسین کے قیام کے بعض پیغاموں کی جانب اشارہ کیا۔

مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے نماز جمعہ سے پہلے واقعہ کربلا کی محرکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جب یزید کے لیے بیعت لینے کا سلسلہ شروع ہوا، امام حسین سمیت دیگر صحابہ اور خواصِ امت نے بیعت سے انکار کیا، چونکہ یزید کی اہلیت پر یقین نہیں تھا اور وہ یزید کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ انصاف سے کام لے اور پوری اسلامی امت کے امور چلاسکے۔ دشمنی یہاں سے شروع ہوئی۔ یزید کے کارندوں نے بیعت سے انکاری لوگوں کو تنگ کرنا اور ان پر دباؤ ڈالنے کا آغاز کیا۔ والی مدینہ نے جب امام حسینؓ کو تنگ کیا، آپؓ نے مکہ مکرمہ کا رخ کیا جہاں عبداللہ بن زبیرؓ حکمران تھے اور انہوں نے بھی یزید سے بیعت نہیں کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا: عراقیوں کو جب حضرت حسین اور بہت سارے دیگر صحابہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے یزید سے بیعت نہ کرنے کا عزم کیا ہے، کچھ عرصے کے بعد انہوں نے امام حسین کو قیام کی دعوت دی اور کہا کہ یہ تمہارا اور عوام کا حق ہے کہ آپ مسلمانوں کی حکمرانی کی ذمہ داری سنبھالیں۔ یہ ایک حقیقت تھی، اور یزید کو جب اس بارے میں پتہ چلا، وہ سخت غصہ ہوا۔ جب اہل کوفہ کی دعوت پر امام حسین نے عراق کا رخ کیا، بہت سارے افراد بشمول حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے انہیں منع کیا کہ ہوسکتاہے اہل کوفہ اپنا وعدہ پورا نہ کریں اور لالچ یا دھمکی کی وجہ سے تمہاری حمایت سے دستبردار ہوجائیں، لیکن امام حسینؓ نے ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عراق روانہ ہوئے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عالم اسلام کے حالات سے امام حسین ؓ کو رنجش ہوتی۔ امام حسین نے جب دیکھا یزید تنقید برداشت نہیں کرتا، اور ایک نااہل ، کمزور اور ناقابل اصلاح آدمی ہے اور اس کی حکومت سے انصاف کا نفاذ نہیں ہوتا جس سے اسلام کا شیرازہ بکھیرجاتاہے اور نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے کارنامے اور کامیابیاں ضائع ہوجاتی ہیں، تو آپؓ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ عراق روانہ ہوئے۔ لیکن جب آپؓ عراق پہنچے تو انہیں معلوم ہوا بہت سارے افراد جنہوں نے خط لکھ کر انہیں کوفہ جانے کی دعوت دی تھی، اپنی بات سے پھیرچکے ہیں اور حکمران (یزید) اور عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔

امام حسینؓ نے سب کو ذلت نہ ماننے کا سبق سکھایا
خطیب اہل سنت زاہدان نے واقعہ کربلا کو انتہائی تلخ اور المناک یاد کرتے ہوئے اس سے حاصل ہونے والے اسباق کی جانب اشارہ کیا۔
انہوں نے کہا: امام حسین ؓ اسارت پر تیار نہ ہوئے اور انہوں نے کہا مجھے واپس مدینہ جانے دیں تاکہ خونریزی نہ ہوجائے۔ آپؓ براہ راست یزید سے بات چیت کے لیے بھی تیار تھے، لیکن بعض لوگوں نے انہیں موقع نہیں دیا۔ جب انہیں اسیر ہونے کا کہا گیا، تو آپؓ نے فرمایا: ذلت ہم سے دور ہے۔اس سے سبق ملتاہے کہ مسلمان کبھی ذلت نہ مانیں۔
انہوں نے مزید کہا: جب امام حسینؓ آخری لمحات میں اکیلے رہ گئے، تو آپؓ نے فرمایا: ہل من ناصر ینصرنی؛ کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے؟ آپ کچھ ساتھیوں سمیت میدان میں اترے اور جام شہادت نوش کرگئے۔اس سے معلوم ہوتاہے نصرت صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور اسباب کے عالم میں عوام ہی نصرت کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ اولیاء اللہ کے پاس کوئی غیبی قوت اور آسمانی طاقت نہیں ہے؛ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس وسائل اور فوج و طاقت ہے، یزید کے پاس بھی فوج تھی اور وسائل کی کمی نہ تھی، لیکن وہ امام حسینؓ کے پاؤں کے غبار تک بھی نہیں پہنچ سکتا؛ یزید اپنی جگہ بڑے بڑے اولیا بھی ان کے مقام کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں کوئی آگ نہیں تھی جو سب کو جلائے، نہ کوئی سمندر تھا کہ سب ڈوب جائیں، کوئی پہاڑ بھی ان کے قبضے میں نہ تھا کہ اپنے دشمنوں کے سر پر توڑدے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: امام حسینؓ نے ہمیں بہادری، دلیری اور حریت کا سبق سکھایا۔ شہادت ایک اعلیٰ مقام اور بڑی نعمت ہے۔جنہوں نے امام حسینؓ کے مقابلے میں تلوار نکالی وہ ذلیل ہوئے اور ذلت کی موت سے مرگئے۔

اقتدار بچانے کے لیے عوام کو نہیں مروانا چاہیے
مولانا عبدالحمید نے کہا: کربلا اور حرہ (مدینہ) کے واقعات یزید کے دو بڑے جرائم ہیں جنہیں تاریخ اور مسلمانانِ عالم ہرگز نہیں بھول سکتے۔ یزید نے سب کچھ اپنی حکومت بچانے کے لیے کیا اور اقتدار کی خاطر نبی کریم ﷺ کے شہر کی عزت کو پامال کرتے ہوئے تین دن کے لیے عوام کی جان و مال اور عزت کو اپنے فوجیوں کے لیے حلال قرار دیا۔ اسے صحابہ اور نواسہ رسول ﷺ سے شرم نہ آئی۔ اقتدار کتنا میٹھا اور عزیز ہے کہ چند دن مزید حکومت کرنے کی خاطر اتنے جرائم ہوتے ہیں؟ حکومت بچانے کے لیے عوام کو نہیں مروانا چاہیے۔ سب حکومتوں کو میرا پیغام ہے کہ حکومت دنیا ہے اور دنیا اتنی قیمت نہیں رکھتی کہ اس کی خاطر تم اپنے مخالفین کو مارڈالو۔
انہوں نے مزید کہا: یزید اگر کوئی سمجھدار شخص ہوتا، خود امام حسینؓ کے پاس آتا، ان کے پاؤں چوم کر ان سے رہ نمائی لیتا یا حکومت کہ ذمہ داری ان کے سپرد کرتا۔ اگر ایسا کرتا دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا۔ یزید بات چیت پر یقین نہیں رکھتا، تنقید برداشت نہیں کرتا اور ناقابل اصلاح تھا، وہ عالم اسلام کے لیے ایک مصیبت تھا۔ یزید کمزور حکمران تھا؛ شیعہ و سنی بلکہ سب مسلمان اس پر متفق ہیں سوائے بہت تھوڑے لوگوں کے کہ امام حسین کا قیام برحق تھا اور انہوں نے انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے قیام کیا۔

حکمران کو عوام کے سامنے تکبر زیب نہیں دیتا
ممتاز عالم دین نے اپنے بیان کے ایک حصے میں کہا: ایرانی قوم دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے وطن کی خاطر بہت کچھ کیا؛ اسلامی جمہوریہ کو ووٹ دیا۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہزاروں افراد شہید ہوئے۔ حکومت اور نظام کے پاس جو کچھ ہے، اسی قوم کی بدولت ہے۔ حکمرانی اور حکومت کا انتخاب عوام ہی کا حق ہے؛ سب حکمرانوں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ عوام ہی چنتے ہیں۔ لہذا یہ عوام کا حق ہے کہ ان کی بات مانی جائے۔
انہوں نے مزید کہا: ان لوگوں کی باتیں سن لیں؛ ان کے سامنے تواضع سے کام لیں۔ قرآن پاک نے نبی کریمﷺ کو حکم دیا ہے کہ مسلمانوں کے سامنے اپنے بازو جھکادو۔ حکمران کو عوام کے سامنے تکبر نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ ان کے ساتھ ایک ہی فرش پر بیٹھے اور ان کی باتیں سن لے۔ اپنے سب مسائل اور مشکلات کو دشمن کے کندھے پر نہ ڈالیں۔ معیشت بیمار ہے جس سے سب کچھ ملک میں تباہ ہوا ہے۔ سب مصیبت میں ہیں۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے عوام پر سختی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر وہ چاہیں کوئی ذمہ دار نہ ہو، یہ ان کا حق ہے۔ دیگر ملکوں میں صدر، وزیر اعظم اور گورنر تک استعفا دیتے ہیں جب عوامی مطالبہ سامنے آتاہے۔عوام پر رحم کھائیں تاکہ اللہ تم پر رحم کرے۔

دین میں غلو سب مذاہب اور مسالک میں منع ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں کہا: انسانی تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ کسی مذہب کے آنے کے کچھ عرصے کے بعد، اس کے پیروکار اپنے اسلاف اور دین کے بارے میں غلو اور مبالغہ آرائی کا شکار ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو آخری آسمانی کتاب ہے، باربار حکم دیا ہے کہ غلو نہ کریں۔ اہل کتاب کو غلو نہ کرنے کا حکم دراصل ہم مسلمانوں کو ہے کہ ان کی طرح مبالغہ آرائی کا شکار نہ ہوجائیں۔ یہ ایک قسم کی انتہاپسندی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اہل کتاب نے پیغمبروں اور اولیائے خدا کے بارے میں غلو کیا؛ اللہ کی صفات کو ان کے لیے ثابت کیا۔ بعض پیغمبروں کو اللہ کے بیٹے یا خدا کہنے لگے۔ جو لوگ عقل اور نص سے محروم ہیں، وہ گمراہی کا شکار ہوتے ہیں۔ خدائی صفات صرف خدا ہی کے لیے ہیں۔ علما کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار نہیں، یہ خدا کا حق ہے اور علما کو چاہیے خدا ہی کی پیروی کریں۔ درویش، صوفی اور بزرگ لوگوں کے پاس کوئی خدائی تصرف نہیں ہے۔ بندوں کی صفت بندگی اور طاعت ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: یہودی جنت کو اپنی اجارہ داری سمجھتے، عیسائیوں کا بھی یہی خیال تھا اور دونوں کا عقیدہ تھا کہ مسلمان جنت نہیں جاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ بے جا تمنا نہ کریں اور خود کو یقینی جنتی نہ سمجھیں؛ کسی بھی مذہب کی تمنا بس تمنا ہی ہے؛ جنت میں داخل ہونے کے لیے اللہ کی رحمت اور فضل و کرم پر امید رکھنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں اگر کوئی قم یا مشہد میں مرجائے سیدھا جنت جاتاہے؛ کچھ لوگ مکہ اور مدینہ کے بارے میں یہی سوچتے ہیں۔ قم، مشہد یا مکہ کسی کو جہنم سے نہیں بچاسکتے ہیں، عمل کی ضرورت ہے۔ جو برائی کا ارتکاب کرتاہے، وہ سزا پاتاہے؛ چاہے اس کا مذہب کچھ بھی ہو۔ جب ظلم ، گناہ اور شرک کرتاہے، اس کا نام کچھ بھی ہو، اللہ اسے سزا دیتاہے۔ آپﷺ نے خبردار کیا ہے کہ ایک دن آئے گا کچھ لوگ بدعات و خرافات کو دین میں شامل کریں گے؛ خیال رکھیں خرافات کا شکار نہ ہوجائیں۔ دین میں غلو نہ کریں۔ قرآن و سنت اور نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین ؓ کی سیرت کی جانب واپس لوٹیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں