شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین بیان میں ایران کے مختلف مسائل اور بحرانوں کو ‘سیاسی’ یاد کرتے ہوئے ان کے حل کے لیے ‘سیاست’ ہی کو بہترین اور واحد طریقہ یاد کیا۔
اکیس جولائی دوہزار تئیس کو زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اکثر واقعات اور مسائل جو آج کل ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں، ‘‘سیاسی’’ ہیں۔ ملک کی معیشت اگر بیمار اور بحرانی حالت میں ہے اور مختلف طبقے اور پیشہ ور حضرات شکایت کرتے ہیں، اس کی وجہ سیاسی ہے۔معیشت اور سیاست کا آپس میں گہرا تعلق قائم ہوا ہے۔ دیگر وجوہات کا انکار نہیں کرتا، لیکن ملک کے معاشی مسائل کی سب سے بڑی وجہ سیاسی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: میرا خیال ہے جب تک ملک کے داخلہ اور خارجہ سیاسی مسائل حل نہیں ہوں گے، دنیا کے سب ماہرین معیشت اکٹھے ہوجائیں، تب بھی ہمارے ملک کے معاشی مسائل کو حل نہیں کرسکیں گے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں جب پالیسیاں درست اور متوازن راستے پر ہوں، ان کا معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔
مولانا عبدالحمید نے ایران کے ایک اور مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ملک سے ماہرین کا بھاگنا اور برین ڈرین کا رجحان ہم سب پر بھاری ہے۔اس رجحان کی جڑیں بھی سیاست میں پیوست ہیں۔بندہ نے پہلے بھی کہا ہے کہ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی افرادی قوت ہے۔ ماہرین اور افرادی قوت اگر کسی ملک سے کوچ کر چلے جائیں، یہ اس ملک اور قوم کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا۔
انہوں نے ایران میں پردے کے بارے میں خواتین اور پولیس کی کشمکش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: پردے کا مسئلہ بھی اگر غیرجانبداری سے دیکھا جائے، معلوم ہوجائے گا کہ اکثر خواتین جو جبری پردہ سے انکاری ہیں، یہ ان کا عقیدہ نہیں ہے بلکہ وہ ناراض اور غصے میں ہیں اور اس طرح اپنی ناراضگی دکھانا چاہتی ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک طرح سول نافرمانی اور سیاسی عمل ہے۔ اگر وہ غصے میں نہ ہوں، پردہ کریں گی۔ پردہ مشرقی خواتین کے لباس کا حصہ ہے۔
ممتاز عالم دین نے مزید کہا: یہ غلط فہمی ہے اگر ہم سوچیں پردہ اتارنے کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ ہے، بلکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اگر حکام چاہتے ہیں خواتین پردے کا اہتمام کریں، اس کا طریقہ انہیں جیلوں میں ڈالنا، قید کرنا اور پٹائی کرکے کریک ڈاؤن نہیں ہے؛ ہوسکتاہے عارضی طورپر یہ طریقہ کسی حد تک ان کا مقصد پورا کرے، لیکن مسئلہ کچھ عرصے کے بعد دوبارہ سامنے آجائے گا۔ ریٹائرڈ ملازمین، اساتذہ اور مزدوروں سمیت سب طبقوں کا احتجاج سیاسی مسئلہ ہے۔
چوالیس سالہ پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں؛ تبدیلی کی ضرورت ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ملک کے سب مسائل کی جڑیں سیاسی ہیں اور انہیں سیاسی طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مسائل کا بہترین حل سیاست ہی ہے اور پوری دنیا میں یہ طریقہ اپنایا جاتاہے۔ بات چیت، مذاکرہ اور سیاسی تبدیلیاں لانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اگر سیاسی مسائل کو سیاست کے ذریعے حل کیاجائے، نقصانات بہت کم ہوں گے۔ چوالیس سال سے اب تک جاری پالیسیاں جو ناکام ہوچکی ہیں، انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کل خارجہ پالیسیوں میں اصلاح و تبدیلی لانے کی کوششیں دیکھنے میں آرہی ہیں، لیکن داخلہ پالیسیاں ان سے زیادہ اہم ہیں جن کا تعلق براہِ راست عوام سے ہے اور ان میں تبدیلی لانا عوامی مطالبہ ہے۔ یہ تبدیلی ایسی ہونی چاہیے کہ عوام کی رضامندی حاصل ہوجائے اور ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ یہ بہترین پالیسی اور ملکی مسائل کا حل ہے۔
انبیا علیہم السلام کا سب سے بڑا مقصد نفاذِ عدل تھا
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں نفاذِ عدل کو پیغمبروں کا سب سے بڑا مقصد یاد کرتے ہوئے کہا: عدل و انصاف اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت اہم اور قابل قدر ہے۔ انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک اہم مقصد نفاذِ عدل تھا۔فرمانِ الہی ہے: “و أنزلنا معهم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط”.
انہوں نے مزید کہا: اگر مزید سوچیں پتہ چلے گا کہ پورا دین بشمول توحید، اخلاق اور درست اعمال سب انصاف کے تقاضے ہیں۔ عدل کا مطلب ہے ظلم سے پھیرنا اور منہ موڑنا۔ ہمارا عقیدہ، عمل اور اخلاق سب انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: نبی کریم ﷺ جب حکمرانی کررہے تھے، ان کی سادہ زیستی کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی شخص ان کی مجلس میں آتا یا مسجد میں آجاتا، اسے معلوم نہ ہوتا کہ آپﷺ ان میں سے کون ہیں۔ آپﷺ نے بے تکلف زندگی گزاری اور آپﷺ کا لباس عام لوگوں کے لباس سے مختلف نہیں تھا۔ آپﷺ کا گھر دوسروں کے گھروں سے مختلف نہیں تھا۔ تواضع کے ساتھ بیٹھتے اور اللہ کی بندگی پر فخر کرتے تھے۔آپﷺ سب کی باتیں سنتے اور مشورت کے ساتھ اپنے امور کے بارے میں فیصلہ فرماتے تھے۔ عوام اور نبی کریم ﷺ کے درمیان کوئی حجاب اور مانع نہیں تھا اور عام لوگ جب چاہتے ان سے مل سکتے تھے۔
اسلامی حکومت اس وقت ٹھیک ہے جب عوامی اور عادل ہو
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: نبی کریم ﷺ اپنے لیے کوئی خاص امتیاز نہیں چاہتے تھے۔ بیت المال کے حوالے سے انتہائی حساس تھے۔ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد، خلفائے راشدین کا طریقہ بھی یہی تھا۔ خلفائے راشدین اپنے دور میں عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ ایک دن سیدنا عمرؓ منبر پر گئے، آپؓ کے لباس میں پیوند تھے؛ کسی نے گنا تو تیرہ پیوند ان کے لباس میں تھے۔ وہ بیت المال کے استعمال سے دوری کرتے تھے اور اپنے اعزہ کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ بیت المال سے صرف گزارہ کی حد تک تنخواہ لیتے تھے؛ مال اور جائیداد کے پیچھے نہیں تھے۔
انہوں نے مزید کہا: خلفائے راشدینؓ جو نبی اکرم ﷺ کے منہاج اور سیرت پر گامزن تھے، انسانیت، انصاف اور عدل کے بارے میں فکرمند تھے۔ اسلامی حکومت اور اسلام کے نام پر جہاں بھی کوئی حکومت وجود میں آتی ہے، اس وقت ٹھیک ہوگی جب اس میں عدل و انصاف اور برابری ہو اور اس کا طریقہ عوامی ہو۔ جب نام پر حکومت ‘اسلامی’ یا ‘جمہوری’ ہو لیکن حقیقت میں کچھ اور ہو، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور ایسی حکومت کا کوئی دوام نہیں ہے۔
امام حسینؓ نے انصاف کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے
مولانا عبدالحمید نے خلفائے راشدین کے بعد حکومت چلانے کے طریقے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: خلافت راشدہ کے بعد حکومت چلانے کا شیوہ مسلمانوں میں تبدیلی کا شکار ہوا؛ ماضی کی سادگی ختم ہوئی اور شام و عراق میں موجود حکمرانوں نے روم و ایران کے پادشاہوں سے اثر لیا۔
انہوں نے مزید کہا: یزید کے دور میں حکومت کا شیوہ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے طریقہ سے کافی دور ہوگیا۔ بہت سارے بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفا نے بیت المال پر اپنا قبضہ جمایااور جو مرضی تھی، وہی کرتے تھے۔ عدل و انصاف اور عدلیہ کی آزادی ختم ہوئی اور حکام عدلیہ پر قابض ہوئے؛ قاضی حکمران اور عوام کے درمیان عدل کے نفاذ سے عاجز تھے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: خلفائے راشدین کے دور میں اہل بیت نے کوئی قیام نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ تعاون کرتے رہے؛ بلکہ حضرت حسن ؓ نے امیرمعاویہؓ سے صلح کیا۔ لیکن یزید کے دور میں امام حسین نے قیام کو ضروری سمجھا۔ انہوں نے سوچا عالم اسلام خطرے میں ہے اور انہوں نے اایک ایسی حکومت کے خلاف قیام کیا جس کے سربراہ آمریت اور نااہلی کی جانب گامزن تھا اور وہ حکومت بھی خود اسلامی سمجھتی تھی۔ سب مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام حسین ؓ کا قیام عدل و انصاف کے لیے تھا۔
انہوں نے مزید کہا: کربلا کا واقعہ انتہائی المناک اور تلخ تھا۔ کچھ نااہل اور نام نہاد مسلمانوں نے نواسہ رسولﷺ اور ان کے ساتھیوں کو بے دردی سے شہید کیا۔ لیکن ہمارا عقیدہ بوقتِ مصیبت صبر سے کام لینا چاہیے۔ جب ہمارا کوئی عزیز اس دنیا سے کوچ کرجاتاہے، قرآن وسنت کے مطابق ہمیں صبر کا دامن تھام لینا چاہیے۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہم صحابہ و اہل بیت اور امام حسینؓ کی سیرت پر عمل کیا کریں اور ان کی پرہیزگاری کی تقلید کریں۔
قرآن پاک کی توہین انسانی حقوق کی پامالی ہے/ سب آسمانی کتابوں کی توہین کی مذمت کرتے ہیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں ایک بار پھر سوئیڈن میں قرآن پاک کی توہین پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: آسمانی کتابوں کی توہین انتہائی منحوس اور بری حرکت ہے۔ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کا ارادہ اہل زمین کے لیے کیا ہے، لیکن جب بھی کوئی مصیبت اور آفت کسی جگہ آنے والی ہو، وہاں مقدسات کی توہین ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: سوئیڈن میں دوبارہ قرآن پاک کی ایک کاپی جلائی گئی ہے جو بہت ہی المناک اور بڑی مصیبت ہے۔ یہ لوگ انسانی حقوق کو پامال کرتے ہیں۔ مقدسات کا احترام کرنا انسان کا مسلمہ حق ہے۔ جب کسی قوم کی مقدسات کی توہین ہوتی ہے، پھر اس کے لیے اور کیا حق بچ جاتاہے؟ قرآن جلانے کی اجازت دینا نادانی اور بڑی حماقت ہے۔ اس سے دنیا میں انتہاپسندی کو فروغ ملتاہے۔ سب آسمانی کتابوں کی توہین قابل مذمت ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مسلم حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ اس حوالے سے متحرک رہیں اور مناسب موقف اختیار کرکے اس موضوع کو تدبیر سے حل کرائیں تاکہ پوری دنیا قرآن پاک اور نبی کریمﷺ سمیت سب مقدسات کی توہین کا سلسلہ بند ہوجائے۔
آپ کی رائے