سری لنکا کے مسلمان ڈاکٹر جن پر چار ہزار بدھ مت خواتین کی نس بندی کا ’جھوٹا الزام‘ لگایا گیا

سری لنکا کے مسلمان ڈاکٹر جن پر چار ہزار بدھ مت خواتین کی نس بندی کا ’جھوٹا الزام‘ لگایا گیا

کیا کوئی ایسی گولی ہے جس سے لوگوں کی نس بندی ہو سکتی ہے؟ شاید خواتین کے زیر جامہ میں کسی کریم کے ذریعے؟ کیا آپ نے کبھی ایسے ڈاکٹر کے بارے میں سنا ہے جو خفیہ طریقے سے خواتین کی ڈیلیوری کے دوران ان کی نس بندی کر دیتا ہے؟
یہ وہ سازشی نظریے ہیں جو سری لنکا میں مسلم مخالف بدھ مت مذہب کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں میں گردش کرتے رہے ہیں۔
اس نظریے کے تحت تصور کیا جاتا کہ ملک کی مسلمان اقلیت چوری چھپے اپنی آبادی بڑھانے کی کوشش میں اکثریتی بدھ مت کمیونٹی کی خواتین کی نس بندی کر رہی ہے۔
ملک کے شمال مغربی شہر کورونیگالا کے ایک ڈاکٹر خاص طور پر ایک ناقابل تصور الزام کی زد میں رہے۔
سرجن محمد شفیع نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں مسلمان ہوں اور مجھ پر چار ہزار بدھ مت خواتین کی خفیہ طریقے سے نس بندی کا الزام لگا۔‘
ان پر جھوٹا الزام لگا کہ وہ بچوں کی پیدائش کے وقت مریضوں کی فلوپیئن ٹیوب دبا دیتے تاکہ وہ مزید بچے پیدا نہ کر سکیں۔
24 مئی 2019 کو انھیں دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
ڈاکٹر شفیع بتاتے ہیں کہ ’مجھے مجرموں کے ساتھ قید کر دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ مجھے اپنی بیوی اور بچوں کے لیے زندہ رہنا تھا۔‘
تین بچوں کے والد، ڈاکٹر شفیع نے 60 دن قید میں گزارے۔
جولائی 2019 میں عدالت نے ڈاکٹر شفیع کو ضمانت دے دی لیکن انھیں پریکٹس کرنے سے روک دیا گیا۔ تحقیقات جاری رہیں اور انھیں جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا۔
گرفتاری کے چار سال بعد محمد شفیع کو سری لنکا کی وزارت صحت نے مئی 2023 میں ناکافی شواہد کی وجہ سے بحال کر دیا۔

ایسٹر سنڈے بم دھماکے
سری لنکا کی سوا دو کروڑ آبادی کا 70 فیصد بدھ مت کے ماننے والوں پر مشتمل ہے جبکہ مسلمان مجموعی آبادی کا 10 فیصد حصہ ہیں۔ ہندو 12 فیصد اور مسیحی سات فیصد ہیں۔
الزامات سے قبل ڈاکٹر شفیع تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے مریضوں کے علاج میں پورا دن گزارتے تھے۔
تاہم 21 اپریل 2019 کو ملک میں ایسٹر سنڈے کے دن ہونے والے دھماکوں میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعے نے ڈاکٹر شفیع کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
نام نہاد دولت اسلامیہ نے منسلک شدت پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے یہ حملے 2009 میں تمل علیحدگی پسندوں کے خلاف خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سب سے تباہ کن حملے تھے۔
ان حملوں کے بعد پورے ملک میں مسلمان مخالف جذبات ابھرے۔ جواب میں مساجد، مکانات اور مسلمانوں کی دکانوں کو جلا دیا گیا اور ایک مسلمان کو ہجوم نے ہلاک کر دیا۔
جھوٹا الزام

،تصویر کا کیپشن
دیوائنا اخبا میں الزام لگایا گیا کہ توحید جماعت کے ڈاکٹر نے چار ہزار سنہالہ بدھ مت خواتین کی نس بندی کی
ایسٹر حملوں کے ایک ماہ بعد 23 مئی 2019 کو دیوائنا اخبار نے پہلے صحفے پر ایک مضمون شائع کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ توحید جماعت کے ڈاکٹر نے چار ہزار سنہالہ بدھ مت خواتین کی نس بندی کی۔
نیشنل توحید جماعت ان دو مقامی گروہوں میں سے ایک تھی جن پر ایسٹر حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
اخبار کے مضمون میں اس دعوے کی حمایت میں کوئی ذرائع دیے گئے نا ہی ڈاکٹر شفیع کی شناخت ظاہر کی گئی۔ لیکن جلد ہی ان الزمات کے ساتھ ڈاکٹر شفیع کی ایک تصویر فیس بک پر شائع ہوئی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ پہلی بار تھا کہ مجھے اس دعوے کے ساتھ جوڑا گیا۔‘
ڈاکٹر شفیع بتاتے ہیں کہ وہ چند سینئر ہاؤس افسران کے ساتھ کورونیگالا ٹیچنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر سارتھ ویرابندرا کے پاس گئے اور انھیں اس جھوٹے الزام اور اپنی زندگی کو لاحق ممکنہ خطرات کے خدشے سے آگاہ کیا۔
ڈاکٹر سارتھ ویرابندرا نے انھیں جواب دیا کہ وہ ہسپتال کے باہر کے معاملات پر کچھ نہیں کر سکتے۔
دو دن بعد ڈاکٹر شفیع کو گرفتار کر لیا گیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے بنا وارنٹ لے جا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔‘

’زہریلا میڈیا‘
یہ معاملہ ٹی وی چینلز نے اٹھایا تو خبر پھیل گئی اور یوں الزامات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے۔
ڈاکٹر شفیع کہتے ہیں کہ ’مجھے پھنسایا گیا۔ مجھے ایک دہشت گرد قرار دیا گیا۔ زہریلے چینلز اور سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں نے میری زندگی تباہ کر دی۔‘
بدھ مت سے تعلق رکھنے والے راہبوں نے اس ہسپتال کے باہر احتجاج کرنا شروع کر دیا جہاں ان کی اہلیہ فاطمہ عمارہ بھی کام کرتی تھیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میری اہلیہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، وہ ہمارے بچوں کی زندگی کے بارے میں خوفزدہ تھی۔ ان کے مطابق ان کی اہلیہ بھی نوکری سے ہاتھ دھونے کے قریب تھیں۔‘
’میری بڑی بیٹی امتحان کی تیاری کر رہی تھی اور سکول جانا چاہتی تھی۔ لیکن ہم عوامی غصے کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ وہ مایوس تھی اور ہمیں بچوں کے لیے نئے سکول تلاش کرنا پڑے۔‘
گرفتاری کے بعد ان کی اہلیہ اور تینوں بچے کولمبو منتقل ہو گئے۔ ان کے بچے تین سکول بدل چکے ہیں۔
’میری بیوی اور بچوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگنا پڑا۔ اور اکاوئنٹ فریز ہونے کی وجہ سے ان کے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔‘
ڈاکٹر شفیع کے خلاف پولیس کے مطابق 800 خواتین نے شکایات درج کروائیں لیکن 27 جون 2019 کو سری لنکا کے کرمنل انوسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انھیں ایسے کسی خفیہ نس بندی کے عمل کے شواہد نہیں ملے۔
ملک کے مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے بھی ایسے ہی بیانات دیے گئے۔

الیکشن کی مہم
ایسٹر حملوں کے بعد سابق صدر مہندرا راجا پکشے کے بھائی گوتابایا راجاپکشے نے اعلان کیا کہ وہ صدارتی الیکشن میں کھڑے ہوں گے اور اسلامی شدت پسندی کو روکیں گے۔
نومبر 2019 میں ہونے والے انتخابات سے قبل مسلمان مخالف جذبات عروج پر پہنچ گئے۔
ڈاکٹڑ شفیع کہتے ہیں کہ ’نسل پرستی نشے کی طرح ہے۔ بدقسمتی سے اس نشے کے عادی لوگ فخر سے اس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’سری لنکا کے سیاست دانوں نے مجھے بدنام کیا۔ یہ ناقابل تصور حد تک تکلیف دہ تھا۔‘
’نس بندی کی گولیاں اور کریم‘
ایسے سازشی نظریات سری لنکا میں دیگر وقتوں میں بھی سامنے آ چکے ہیں کہ مسلمان نس بندی کو خفیہ ہتھیار کی طرح استعمال کر رہے ہیں تاکہ ملک پر قبضہ کر سکیں۔
2018 میں ایک ریستوران کے مسلمان مالک پر بدھ مت سے تعلق رکھنے والوں کے کھانے میں نس بندی کرنے والی گولیاں شامل کرنے کا الزام لگا جس کے بعد مشرقی سری لنکا کے امپارا شہر میں مسلمانوں کی دکانوں اور ہوٹلوں پر پرتشدد حملے کیے گئے۔
ڈاکٹر شفیع کی گرفتاری کے بعد ایک مشہور بدھ راہب نے مسلمانوں کو مارنے اور ان کی دکانوں کے بائیکاٹ کی حمایت کا اعلان کیا۔
ایسا ہی ایک اور دعوی یہ ہوا کہ مسلمان مالکان کی کپڑوں کی دکانوں کے ذریعے بدھ مت خواتین کی جانب سے خریدے جانے والے زیر جامہ میں نس بندی کرنے والی کریم لگائی جا رہی ہے۔
یہ الزامات سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلے تو رجعت پسندوں نے مسلمانوں کی دکانوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے ان دکانوں میں موجود خریداروں پر حملے بھی کیے۔
امپارا میں پرتشدد واقعات کے بعد اقوام متحدہ ایک بیان جاری کرنے پر مجبور ہوئی کہ نسل بندی کرنے والی گولیاں یا کریم حقیقت میں وجود نہیں رکھتے۔

میڈیا قوانین
سری لنکا ینگ جرنسلٹ ایسوسی ایشن ان گنے چنے گروہوں میں سے ایک تھی جس نے اخبارات، ٹی وی اور ویب سائٹس پر روایتی رپورٹنگ کے خلاف آواز اٹھائی۔
اس تنظیم کے چیئرمین تھریندا جے وردنا کے مطابق اس وقت زیادہ تحقیقی مضامین شائع نہیں ہوئے۔
بی بی سی نے متعدد ایسے صحافیوں سے بات کی جن کے مضامین شائع نہیں ہو سکے کیوں کہ ’مدیر خوفزدہ تھے کہ ان کے قارئین غصے میں آ سکتے ہیں اور کے اخبارات کی فروخت متاثر ہو سکتی ہے۔‘
جے وردنا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شفیع کے خلاف ایسی مہم کی وجہ سے بدھ راہبوں نے مسلمانوں کو سنگسار کرنے کے اعلانات کیے جو مکمل طور پر بے بنیاد تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں معلوم ہوا کہ جن خواتین نے ان کے خلاف شکایت درج کروائی ہے ان میں سے 168 کو بچہ پیدا کرنے میں مشکل ہوئی۔ باقی خبر سننے کے بعد سامنے آئیں۔ ہم نے تمام شکایت کندگان کی فہرست بنائی اور اس بات کی تصدیق کی کہ 120 خواتین ان کی گرفتاری کے بعد بچہ پیدا کر چکی ہیں۔‘
شواہد کی غیر موجودگی میں ڈاکٹر شفیع نے مئی 2023 میں اپنے ہسپتال میں دوبارہ کام کا آغاز کیا۔
ان کو تین سال کی تنخواہ جو تقریباً 27 لاکھ سری لنکن روپے بنتی تھی، ادا کی گئی۔ لیکن انھوں نے یہ تنخواہ وزارت صحت کو عطیہ کر دی تاکہ ضروری ادویات خریدی جا سکیں۔
ملک کے بیشتر ڈاکٹر اچھی زندگی کی تلاش میں بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں لیکن ڈاکٹر شفیع کہتے ہیں وہ اسی جگہ کام کرتے رہیں گے جہاں ان پر جھوٹا الزام لگا تھا۔
’میرے گھر والے مجھے منع کرتے رہے لیکن میں جانتا تھا کہ اپنی معصومیت ثابت کرنے کے لیے مجھے اسی ہسپتال میں جا کر اسی جگہ کام کرنا ہو گا۔‘


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں