اگر عوام کی شکایتیں اندرونِ ملک سنی جاتیں، انہیں باہر شکایت لے جانے کی ضرورت پیش نہ آتی

اگر عوام کی شکایتیں اندرونِ ملک سنی جاتیں، انہیں باہر شکایت لے جانے کی ضرورت پیش نہ آتی

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے سات جولائی دوہزار تئیس کے بیان میں ایران میں ہونے والے حالیہ مظاہروں کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی ہیومن رائٹس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حکام کو نفاذِ عدل اور قانون، اور قوم کے مطالبات پر توجہ دینے کی نصیحت اور تاکید کی۔

زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت نے فرانس میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ان واقعات میں کوئی شہری جنگی گولیوں کا نشانہ نہیں بنا، کوئی مارا نہیں گیا اور کسی کی آنکھ یا ٹانگ ضائع نہیں ہوئی جو فکرانگیز ہے۔

فرانسیسی پولیس نے عوام اور مظاہرین کو جنگی گولیوں سے نہیں مارا
مولانا عبدالحمید نے کہا: فرانس میں ہونے والے مظاہروں نے مبصرین کی توجہ اس طرف کھینچی۔ بظاہر پولیس کے ہاتھوں ایک عرب نوجوان کے مارے جانے کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ کہاجاتاہے فرانسیسی نوجوانوں کے کچھ اور مسائل بھی ہیں اور اس واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیااور پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے؛ اعدادوشمار کے مطابق پانچ ہزار گاڑیاں، پانچ سو عمارتیں اور دوسو پچاس پولیس سٹیشنز جلائے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ان تمام تر واقعات کے باجود فرانسیسی پولیس نے حوصلہ دکھایا اور کسی شہری کی آنکھ ضائع نہیں ہوئی، کسی کی ٹانگ نہیں کٹ گئی اور کسی انسان کی جان نہیں گئی۔ پولیس نے بہت سارے مظاہرین کو گرفتار کیا، لیکن کسی کو قتل نہیں کیا۔ ہم نہیں کہتے فرانس کی کوئی کمزور نہیں ہے؛ یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بہت سارے مسائل پائے جاتے ہیں، لیکن یہ حیرت انگیز اور سوچنے کی بات ہے کہ سکیورٹی فورسز نے اپنے عوام کو جنگی گولیوں سے نہیں مارا اور کوئی قتل نہیں ہوا۔
خطیب زاہدان نے کہا: بہت سارے ملکوں میں شکایتیں پائی جاتی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک جمہوری ہیں یا آمر۔ ڈکٹیٹرشپ میں گرفتار ممالک عوام کو احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں، لیکن جمہوری اور ڈیموکریٹک ملکوں میں عوامی احتجاج پایاجاتاہے اور لوگ نعرے لگاتے ہیں اور اپنی بات کہہ دیتے ہیں، جب ایسا نہیں ہوتا تب عوام مارے جاتے ہیں۔ فرنچ سمیت سب حکام کو نصیحت ہے کہ عوام کو نہ ماریں اور ان کی باتیں سن لیں۔

اسلام جمہوریت سے قریب ہے
انہوں نے مزید کہا: ان مسائل کو ہمارے حکمران اور مسلح ادارے سامنے رکھیں۔ ملکی آئین جو چوالیس سال پہلے بنایا گیاہے کوشش ہوئی ہے کہ وہ جمہوری نظام سے قریب ہو۔چونکہ اسلام ڈیموکریسی سے قریب ہے اور ان میں بہت ساری مشترکہ چیزیں پائی جاتی ہیں۔اسلام آمریت کے خلاف بلکہ اس کا دشمن ہے۔ صدرِ اسلام میں الیکشن کا کوئی تصور نہیں تھا، لیکن اس کے باجود مسلمانوں نے اپنی رائے کا حق استعمال کیا۔ نبی کریم ﷺ کے علاوہ جنہوں نے ایک نئی تہذیب پیش کی اور سب کا ان پر اتفاق تھا، ان کے بعد تمام خلفائے راشدین عوام کی رائے اور نظر سے جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے۔ اس دور میں جس آدمی پر عوام اعتماد کرتے، اس کے ساتھ ‘بیعت’ کرتے اور یہ بیعت بھی کسی الزام کے بغیر آزادانہ ہوتی۔ جمہوریت اور آزادی اپنے حقیقی معنوں میں پائی جاتی تھی۔
مولانا عبدالحمید نے کہا:ہمارے ملکی آئین بہت ساری کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور اس کی بعض شقیں اسلام میں کبھی موجود نہیں تھیں جن کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ دنیا میں کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو غلطی سے خالی ہو؛ وجہ یہ ہے کہ قانون انسان کی سوچ اور اجتہاد کا نتیجہ ہے جس میں غلطی کا بڑا امکان ہے۔ آمر ملکوں کے سوا، دیگر ملکوں میں جب کوئی قانون یا پالیسی ناکام ہوجاتی ہے، اس قانون اور پالیسی کو تبدیل کرتے ہیں۔ ضرورت تھی کہ مختصر عرصے کے بعد قانون پر نظرثانی اور اس کی اصلاح کی جاتی۔ چوالیس سال گزرچکے ہیں اور آئین جون کے تون باقی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسی آئین میں پرامن احتجاج عوام کا حق مانا گیا ہے۔عوام احتجاج کرسکتے ہیں، لیکن توڑپھوڑ کا حق کسی کو نہیں پہنچتا۔ مزدور، ریٹائرڈ ملازمین، خواتین، اساتذہ و دیگر طبقوں کو اپنے مطالبات کے لیے احتجاج اور مظاہرہ کرنے کا حق پہنچتاہے۔ شرعی، عرف اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے سب کو یہ حق حاصل ہے۔ جب عوام پرامن احتجاج کرتے ہیں اور صرف بات کرکے نعرے لگاتے ہیں، انہیں جنگی گولیوں سے نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔

اگر اندرونِ ملک عوام کی شکایتوں کی شنوائی ہوتی، انہیں باہر شکایت لے جانے کی ضرورت پیش نہ آتی
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی حالیہ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اقوام متحدہ نے ایران کے حالیہ واقعات اور احتجاجی تحریک میں پیش آنے والے واقعات کے بارے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اب اپنی رپورٹ ہیومن رائٹس کو پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں عوامی شکایتیں موجود ہیں جن کے عزیز حالیہ مظاہروں کے بعد پھانسی پر چڑھادیے گئے ہیں یا انہیں قتل کردیاگیاہے، جن کی آنکھیں ضائع ہوئی ہیں یا وہ معذور ہوچکے ہیں یا قیدخانوں میں ان کے ساتھ زیادتی اور تشدد ہوا ہے، ان کے بیانات بھی قلمبند ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا: انسانی حقوق کی تنظیم کو یکسر رد نہیں کیاجاسکتاہے۔اس کے بعض اصول اسلامی شریعت سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں، لیکن اکثر موضوعات میں اسلام اور انسانی حقوق کے منشور ایک ساتھ ہیں۔ اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کہ بعض سپر پاورز انسانی حقوق کی تنظیم سے غلط فائدہ اٹھاکر دیگر ملکوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس کا استعمال کریں؛ لیکن اس کی اکثر چیزیں اچھی اور پسندیدہ ہیں۔
ممتاز عالم دین نے کہا: میں نے کئی سال قبل کہا تھا کاش ہمارے حکام جیلوں اور قیدخانوں کے دروازے انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے کھول دیتے تاکہ وہ قریب سے سب کچھ دیکھ لیتے۔ اگر جیلوں میں کوئی خلاف ورزی ہو، اکثر وہ اسلامی شریعت کے بھی خلاف ہوں گے۔آئین کے مطابق کوئی بھی عہدیدار چاہے اس کا عہدہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، وہ کسی قیدی کی پٹائی نہیں کرسکتا اور اس پر تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ جبری اعتراف اسلام کے مطابق باطل اور مردود ہے۔ ملزم کا احترام محفوظ رہنا چاہیے اور اسے دفاع کا موقع دینا چاہیے۔ یہ سب اسلام اور انسانی حقوق میں مشترک ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: کاش حکام فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ارکان کو جیلوں اور قیدخانوں کا دورہ کرواتے تاکہ وہ سیاسی قیدیوں سے بات کرتے۔ اگر کوئی اہلکار خلاف ورزی کا مرتکب ہوچکاہے، اس کے خلاف کارروائی کرکے اصلاح کی جائے۔ اس جج اور اہلکار کو روکنا چاہیے جو قوانین کی خلاف ورزی کرتاہے۔ کسی جج نے مشہد میں دعویٰ کیا تھا کہ میرا مقام خدا سے ایک لیول کم ہے۔ حالانکہ ایسے لوگوں کا اصل مقام خدا اپنی جگہ، بہت سارے بندوں سے بھی بہت کمتر ہے۔ ہماری فضیلت اللہ اور اس کے رسول اور قانون کے احکام کے نفاذ میں ہے۔ کسی کو شریعت اور قانون سے بال برابر پار ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: یوکرینی جہاز کو مارگرانے کے کیس میں جو انتہائی المناک اور تلخ واقعہ تھا کیوں غیرجانبداری سے اس کیس کی پیروری نہیں ہوئی تاکہ خدا بھی راضی ہوجائے، عوام اور دنیا کو بھی اطمینان ہوجائے؟! بندہ نے صدر مملکت کو بھی بتایا کہ اس کیس میں کوئیں متاثرین کو انصاف نہیں دیا گیا کہ اب وہ اپنی شکایت عالمی عدالتوں میں لے جانے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اگر مسلح افواج کی عدالت ان لوگوں کو انصاف دلاتی جن کی آنکھیں، ٹانگیں اور دیگر اعضا حالیہ مظاہروں میں ضائع ہوئی ہیں، یا ان کے عزیز مارے گئے ہیں اور ان خواتین کی شکایت سنتی جنہیں قیدخانوں میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، وہ اپنی شکایت انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر جگہوں پر لے جانے پر مجبور نہ ہوجاتے۔ زاہدان میں جو کچھ خونین جمعہ میں پیش آیا اور عوام کے ساتھ کھلی زیادتی ہوئی، انہیں انصاف فراہم کرنا چاہیے تھا۔ عوام کو توقع ہے ان کی شکایت سنی جائے اور اسی امید سے وہ صبر کرچکے ہیں۔ہم مسلح افواج کے لیے خیر کی دعا مانگتے ہیں، لیکن وہ سب برابر نہیں ہیں؛ جو اہلکار عوام کو ناحق مارے، وہ شرعی اور قانونی لحاظ سے قابل مذمت ہے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: ایرانی قوم دنیا کی تعلیم یافتہ اور مہذب اقوام میں شمار ہوتی ہے۔ جس وقت دنیا کے دیگر علاقوں مں کوئی تہذیب نہ تھی، ایران میں تہذیب پائی جاتی تھی جو اسلام کے بعد دوگنا ہوگئی۔ لہذا اس ملک میں انسانی حقوق کا اتنا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دیگر ملکوں کے لیے مثال بن جائے۔ ایرانی قوم اسی چیز کو چاہتی ہے۔ دنیا اور آخرت کی خیر اسی میں ہے کہ انتہاپسندوں کو روکاجائے۔

ایرانی عوام اصلاح پسندوں اور قدامت پسندوں سے آگے جاچکے ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایرانی حکمرانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ماضی کی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں؛ ان پالیسیوں پر اصرار نہ کریں نہ کریں، بلکہ انہیں تبدیل کریں۔ سننے میں آتاہے کہ کچھ اصلاح پسند آنے والے الیکشن میں لڑنا چاہتے ہیں، بندہ اصلاح پسندوں اور قدامت پسندوں سب کو کہتاہوں کہ ایرانی عوام کا اعتماد تم دونوں سے اٹھ چکاہے اور وہ تم دونوں سے آگے گزرچکے ہیں۔ تمہیں معلوم نہیں عوام پر کیا گزررہاہے۔ کتنا مجھے بڑا افسوس ہوا کہ ایک ماں نے خود بھی زہر کھایا اور اپنے تین بچوں کو بھی بھوک کے مارے زہر کھلایا؛ تینوں بچے فوت ہوئے اور وہ خاتوں اسپتال میں داخل ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی باپ گھر میں آئے اور بچوں کو کھلانے کے لیے اس کے پاس کچھ نہ ہو اور پھر وہ ڈکیتی اور چوری کرنے پر مجبور ہوجائے۔ عوام مجبور ہیں اور دوسری طرف بھاری ٹیکس ان پر لگایاجارہاہے۔ موجودہ حالات میں ان کے لیے بھاری ٹیکس ادا کرنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا: تم کیوں خیرخواہوں کی باتیں نہیں مانتے ہو؟!یہ عزم کرلیں کہ کوئی بھی فرد یا محکمہ چاہے اس کا شمار تمہاری آنکھوں میں ہو، اگر غلطی کا ارتکاب کرتاہے اسے قانون کے شکنجے میں لائیں۔ قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے اور اس کے لیے مسلح ادارے، سکیورٹی اور حساس اہلکار یا وزیر و مشیر و جج کا فرق نہیں ہونا چاہیے۔ قانون کے نفاذ کرنسی کی قدر بڑھ ہی جائے گی۔

عوام اصل ہیں اور حکومت عوام کا نمائندہ ہونا چاہیے
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: جب عوام چاہتے ہیں تو قوانین میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اصل عوام ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی نمائندگی کرے اور سب اختیارات حکومت کے قبضے میں نہیں ہیں۔ جب عوام ارکان پارلیمنٹ سے قانون کی تبدیلی چاہتے ہیں، ان کا مطالبہ مان لینا چاہیے۔ اگر عوام مجھ سے کہیں کہ ہم تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہتے ہیں، بندہ عوام کی درخواست مان لیتاہے ۔ یہ دنیا میں عام ہے کہ جب عوام کسی صدر یا وزیر کو نہیں مانتے ہیں، وہ استعفا دے دیتاہے۔ حکام خود کو عوام کے سپرد کریں اور ان کے ساتھ رہیں اوران ہی کے مفادات کو ترجیح دیں۔
انہوں نے کہا: میرے لیے سب عوام کے مفادات اہم ہے۔ ایرانی قوم کے لیے میری دو تمنائیں ہیں؛ دنیا کی سعادت اور آخرت کی کامیابی۔ میری آرزو ہے کہ ایرانی قوم آخرت میں جنت جائے اور دنیا بھی اس کے لیے جنت بن جائے۔ میرے لیے کسی کا دین، مذہب اور مسلک کا فرق نہیں، سب سے اہم ذہنی پریشانی انصاف اور عوام کے مفادات ہیں۔ حکام کے لیے بھی میری یہی پریشانی ہے کہ کہیں آخرت میں وہ گرفتار نہ ہوجائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں