مولانا عبدالحمید:

عدلیہ کو غیرجانبدار اورآزاد عمل کرنا چاہیے

عدلیہ کو غیرجانبدار اورآزاد عمل کرنا چاہیے

خطیب اہل سنت زاہدان نے عیدالاضحی (29 جون 2023ء) کے موقع پر ایران میں ‘‘ہفتہ عدلیہ’’ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا عدلیہ کے کارکنوں کو چاہیے کسی بھی سرکاری محکمہ اور شخصیت سے متاثر نہ ہوجائیں اور غیرجانبداری کا ہمیشہ خیال رکھیں۔

ججز نظام اور حکومت کے نگہبان نہیں عدل و انصاف کے پاسبان ہیں
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، نماز عید سے پہلے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز عالم دین نے کہا: عدلیہ اور قضاوت سب ثقافتوں اور تہذیبوں میں بہت اہم مقام کے حامل ہے۔ ہوسکتاہے بہت سارے ملکوں میں عدلیہ حکومت کے زیرِ اثر ہو، لیکن جمہوری ملکوں اور ریاستوں میں عدلیہ آزاد ہے اور حکومت کی پالیسیوں اور سرکاری محکموں سے متاثر نہیں ہوجاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام نے ایک نئی تہذیب دنیا میں پیش کی اور اس میں قضاوت نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ میں موجود تھی؛ نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ قضاوت اور فیصلے کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپﷺ صحابہؓ کو قضاوت کا فن سکھاتے تھے کہ قاضی کو جانبداری سے گریز کرنا چاہیے۔ اسے چاہیے غیرجانبدار اور آزاد رہے۔
اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں بعض فیصلوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آپﷺ کے دورِ مبارک میں فاطمہ نامی ایک خاتون نے چوری کا ارتکاب کیا جسے آپﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپﷺ نے بحکمِ قرآن ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ سنایا۔ اس خاتون کے رشتہ دار حضرت اسامہ بن زید کے پاس گئے تاکہ ان کی سفارش کرکے اسے چوری کی حد سے بچائیں۔ اس سے نبی کریمﷺ کو سخت غصہ ہوا اور انہوں نے فرمایا: کیا اللہ کی کسی حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ پھر انہوں نے قسم کھاکر فرمایااگر یہ چور فاطمہ بنت محمد ہوتی، میں پھر بھی اس کے ہاتھ کاٹ دیتا۔قاضی شریح جو حضرت علیؓ کے مقرر کردہ قاضی تھے، انہوں نے ایک یہودی کے دعوے پر امیرالمومنین کو عدالت طلب کی اور ان سے گواہ مانگے۔ پھر ان کے ایک گواہ کو اس لیے مسترد کیا کہ وہ ان کے صاحبزادے تھے جن کی گواہی والد کے حق میں قبول نہیں ہوسکتی۔ اس طرح یہودی کیس جیت گیا۔ حضرت علیؓ نے بھی وہ فیصلہ مان لیا۔ یہودی اس سے متاثر ہوا اور انہوں نے پیشی ہی کی مجلس میں اسلام لانے کا اعلان کیا اور وہ سامان حضرت علیؓ کے سپرد کیا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عدل و انصاف کا یہی مطلب ہے کہ حکمران اور اس کے خاندان اور ارکان حکومت عدالت میں عام شہریوں سے مختلف نہ ہوں۔ عدالت سیاسی فضا سے متاثر نہ ہو اور ہر حال میں غیرجانبداری کا خیال رکھے۔ یہاں تک کہ قاضی کسی سیاسی نظام اور حکومت کو بچانے کے ذمہ دارہ نہیں ہے؛ بلکہ اس کی ذمہ داری عدل و انصاف کی پاسبانی ہے۔ عدلیہ اس وقت عوام کی پناہ گاہ بن سکتی ہے جب غیرجانبدار ہو اور دوسروں کی جائیداد، دولت، اقتدار، عہدے اور سیاست سے متاثر نہ ہوجائے۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض ججز سرکاری محکموں کی باتوں میں آتے ہیں اور یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ قاضی اس وقت آزاد ہوسکتاہے جب کسی بھی سکیورٹی، فوجی اور حساس ادارے اور کسی بھی وزارتخانے، صدر مملکت اور حتیٰ کہ سپریم لیڈر سے متاثر نہ ہوجائے؛ جیسا کہ حضرت علیؓ کا حال تھا جو عالم اسلام کے قائد اور امیر تھے، انہوں نے اپنے ہی متعین قاضی کا فیصلہ مان لیا جو ان کے خلاف تھا۔

حالیہ احتجاجوں میں عدلیہ نے غیرجانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا
خطیب اہل سنت نے کہا: ہم سب کی تمنا ہے کہ عدلیہ پوری طرح ہمیشہ غیرجانبدار رہے۔ ہماری توقع تھی حالیہ احتجاجوں میں جو واقعات پیش آئے، عدلیہ غیرجانبدار رہے۔ اگر کوئی اہلکار ماراجاتاہے اور شہید ہوتاہے، قاتل کو سزا دلوائی جائے اور عام شہری اور احتجاج کرنے والوں کو مارنے والے اہلکار بھی سزا پائیں۔ دونوں صورتوں میں ججز سے غیرجانبدار رہنے کی توقع تھی۔ جبری اعتراف اسلامی شریعت اور آئین کے مطابق مردود ہے۔ ہم تشدد اور انارکی کے حق میں نہیں ہیں، لیکن احتجاج عوام کا مسلمہ اور قانونی حق ہے۔
انہوں نے مزید کہا: زاہدان کے خونین جمعہ سے کئی مہینے گزرچکے ہیں، شہدا اور زخمیوں کے لواحقین کو توقع تھی عدلیہ حکام غیرجانبداری سے فیصلہ سنائیں گے اور ان اہلکاروں کا ٹرائل کریں گے جنہوں نے عوام کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ کچھ افراد کو سرکاری طور پر شہید اعلان کیا گیا اور آج کل بعض حضرات شہدا کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے بھی جاتے ہیں، لیکن عوام کو اس وقت سکون حاصل ہوتا کہ مجرموں اور ظالموں کو قرارِ واقعی سزا دلوائی جاتی۔ جو کچھ زاہدان اور خاش میں آیا، ایک مثال ہے؛ پورے ملک میں سینکڑوں شہری کا قتل ہوا، بعض کی آنکھیں ضائع ہوئیں اور ان کے جسم کے اعضا کٹ گئے حالانکہ ان کا حق یہ نہیں تھا۔ توقع تھی انہیں انصاف فراہم کیا جائے اور احتجاج کرنے کی سزا میں ان کا حق ضائع نہ ہوجائے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: قیدخانوں میں قیدیوں سے پرتشدد سلوک ہوا۔ جو حضرات و خواتین جیلوں سے رہا ہوچکے ہیں، وہ انتہائی رقت انگیز حالات اور مسائل کے بارے میں اپنی داستان بیان کرتے ہیں۔ عدلیہ حکام سے توقع تھی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیں، قیدخانوں میں شریعت اور قانون کے خلاف کوئی عمل نہیں ہونا چاہیے اور عدلیہ کا مقصد ہی یہی ہے کہ قانون نافذ ہو۔

مالی کرپشن کا خاتمہ سنجیدہ کوششوں سے ممکن ہے
ملک کے مختلف اداروں اور شعبوں میں کرپشن بڑھنے پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: کرپشن کینسر کی طرح ملک میں جڑ پکڑچکاہے۔ مالی کرپشن سے عدلیہ بھی مستثنی نہیں ہے۔ کچھ ججز کرپشن سے سخت بیزار ہیں، لیکن ایک شہری کی حیثیت سے ہمیں معلوم ہے بہت سارے افراد کرپشن میں ملوث ہیں۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: کرپشن کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ کوئی جج حق سے تجاوز نہ کرے اور عوام کا حق ضائع نہ ہوجائے۔ ملک کے مختلف شہروں سے شکایتیں پائی جاتی ہیں اور اس سے عدلیہ کی آزادی اور ملک کی ساکھ اور بھرم کو سخت نقصان پہنچتاہے۔ جیسا کہ سپریم لیڈر نے کہا ہے اس کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت ہے جو باقاعدہ ملک میں رواج پاچکاہے۔ ماضی کے طریقے ناکافی ہیں اور نئے بندوبست کی ضرورت ہے۔

عوام ووٹ کے بکسوں سے مایوس ہوچکے ہیں
صدر دارالعلوم زاہدان نے عید الاضحی کے موقع پر بیان میں آنے والے عام انتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج کل انتخابات کے بارے میں بحث و مباحثے ہوتے ہیں اور بعض افراد کو فون کرکے بتایاجاتاہے کہ الیکشن میں امیدوار بننے کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ اس حال میں ہے کہ ایرانی عوام غربت، بھوک اور متعدد مسائل سے دوچار ہیں اور یہ حکام کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ ملک میں ماہرین سے گریز پایاجاتاہے اور قابل افراد کو آگے نہیں آنے دیا جاتاہے۔ کمزور افسران اور حکام کو کمزور طبقوں سے سامنے لایاگیاہے۔ سلیکشن کی کمزوری ہے کہ گارڈین کونسل اور حساس ادارے صدر مملکت اور ارکان پارلیمنٹ کو چنتے ہیں یا کمزور لوگوں کو صرف منظور کرواتے ہیں۔ لہذا صرف نااہل افراد عہدوں پر قابض ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: بہت دیر کی بات نہیں کہ ہمارا دس کروڑ ایک لاکھ ڈالر ہوتا، لیکن اب دس کروڑ تومان کی قدر دو ہزار ڈالر تک گرچکی ہے اور عوام کے کاروبار سخت نقصان سے دوچار ہوچکاہے۔ مہنگائی نے سب عوام کو پریشان کررکھاہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے ممبران حکومت کے نمائندہ تو نہیں، بلکہ وہ عوام ہی کے نمائندے اور امیدیں ہیں جن کی ترجمانی کرکے وہ ان کے مسائل حکام تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ جب وہ عوام کے حقوق کا دفاع نہ کرسکیں، پھر وہ کیسے عوام کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کو چاہیے کہ قانون کے نفاذ اور داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر نظر رکھ کر مجلس شورا میں آواز اٹھائیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عوام انتخابات اور ووٹ کے بکسوں سے مایوس ہوچکے ہیں اور ان کا خیال ہے ووٹ کے بکسوں سے کچھ بدلنے والا نہیں اور ان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ انقلاب سے اب تک جتنے آگے بڑھیں، انتخابات کمزور سے کمزورتر ہوتا چلاگیا اور اب وہ کمزورترین نقطے تک پہنچاہے۔ موجودہ رویوں کا کوئی فائدہ نہیں اور عوام میں کوئی شوق نہیں کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں۔ تمہیں یاد ہوگا کہ آخری صدارتی اور عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم تھا اور بہت مشکل ہے کہ آیندہ انتخابات میں وہ ووٹ ڈالنے پر رغبت دکھائیں۔

سب سے پہلے عوام سے صلح کریں
مولانا عبدالحمید نے ایران کے بعض ملکوں سے بڑھتے ہوئے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: یہ اچھی بات ہے کہ حکام امریکا، یورپ اور بعض دیگر ملکوں سے تعلقات بنانے کی فکر میں ہیں اور یہ قوم کے مطالبات میں شامل ہے، لیکن اصل تبدیلی ملک کے اندر لانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ملک میں تبدیلی نہیں آئے گی، داخلی سطح پر حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ اگر مقصد تبدیلی لانا ہے، سب سے پہلے قوم سے صلح کریں اور عوامی مطالبات پر توجہ کریں۔ سیاسی قیدیوں کو رہا کریں۔ اگر آج سیاسی قیدی رہا ہوجائیں اور تم نے عوام کو اپنے ساتھ شامل کردیا، کل تک ہی قومی کرنسی کی قدر بڑھ جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا: جو کچھ کہاجاتاہے، سب جذبہ خیرخواہی کے ساتھ ہیں۔ دیگر ملکوں میں ایسی باتوں کو پیسہ دے کر خریداجاتاہے اور حکام پیسہ لگاتے ہیں تاکہ کوئی انہیں ایسی باتیں بتائے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں ناقدین اور کھل کر بات کرنے والوں کو پسند نہیں کیاجاتاہے، حالانکہ جب تک تنقید نہ ہو، اصلاح ممکن نہیں ہے۔ ایک تبدیلی یہی ہے کہ بات کرنے اور تنقید کی فضا قائم کریں۔ حکام فراخدلی کا مظاہرہ کریں اور سب قومیتوں اور مسالک کو دیکھیں۔ یہ صرف نعرے لگانے اور بات کرنے سے نہیں ہوتا۔ ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام پرسکون زندگی گزارسکیں۔

میرے سفر حج سے کسی کو نقصان نہیں پہنچ جاتا
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے آخری حصے میں کہا: اس سال میں سفرِ حج کے لیے تیار تھا اور میرے کچھ اقربا بھی میرے ساتھ آنے والے تھے۔ حالات کی وجہ سے اگرچہ بعض خیرخواہوں کا مشورہ تھا کہ میں حج پر نہ جاؤں اور مجھے بھی قدرے تردد تھا۔ لیکن پھر بھی جانے کا ارادہ کیا۔ حکام نے اگر مجھے حج سے منع کیا مجھے اس پر کوئی شکوہ نہیں، لیکن ان لوگوں کو کیوں حج سے روکا گیا جو میرے ساتھ جانے والے تھے۔ یہ قرآن پاک کی صریح نص کے خلاف ہے کہ بیت اللہ الحرام جانے والوں کو نہ روکیں۔
انہوں نے مزید کہا: یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر میں حج کے لیے بھی جاتا، مسجد الحرام کے ایک کونے میں بیٹھ کر مناسک حج بجالاتا اور سب کے لیے خیر کی دعا مانگتا۔ میرے اس سفر سے کسی کو نقصان نہیں پہنچ جاتا، لیکن تدبیر کرنا اہم ہے۔ اگر تم اس سفر پر رضامند نہ تھے، تو دیگر لوگوں کی طرح اپنا مشورہ پیش کرتے اور اس طرح پروپگینڈا کی نوبت بھی پیش نہ آتی۔ جذبات سے مغلوب ہوکر عمل کرنا غلط ہے اور اس سے نقصان ہوتاہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں