شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے تئیس جون دوہزار تئیس کے بیان میں مسلسل دھمکیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ایرانی قوم کے مفادات کی خاطر ہر قسم کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے ایرانی عوام کی سعادت، دنیا اور آخرت کے مفادات کو اپنا سب سے اہم مسئلہ یاد کیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں ملک سے ماہرین کے فرار کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا: ملک سے مختلف فیلڈز کے ماہرین، ماہر مزدور اور تعلیم یافتہ و قابل افراد ملکی حالات سے تنگ آکر یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔برین ڈرین میں ایران ان ملکوں میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ ماہر افراد ملک کو چھوڑکر دیگر ملکوں کا رخ کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا: برین ڈرین کی اصل وجہ معاشی بحران ہے۔ قومی کرنسی کی قدر گرچکی ہے اور اسی بے قدر پیسے کو کمانا مشکل ہوچکاہے۔ عوام سخت دباؤ میں ہیں۔ جو ماہرین دیگر ملکوں میں کام کے مواقع پاتے ہیں، ملک چھوڑ کر وہیں چلے جاتے ہیں۔کسی بھی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی انسانی قوت، ماہرین اور صاحبانِ فکر و رائے ہیں جو قومی مفادات اور عوام کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارا ملک ان اثاثوں کو ہاتھ سے جانے دے رہاہے۔
معاشی بحران کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچاہے۔ ہمارے حکام جس طرح انہیں چاہیے، قومی مفادات پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ بہت سارے حکمرانوں اور اثرو رسوخ رکھنے والوں نے مختلف مفادات کو اپنی اجارہ داری میں رکھ کرمواقع کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر قبضہ کیا؛ اسی سے قوم کے مفادات کو نقصان پہنچا اور خزانے خالی ہوگئے۔
انہوں نے کہا: آج کل بہت سارے افراد محنت کررہے ہیں، لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ وہ معیشت کو ٹھیک کرسکیں؛ چونکہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں: پہلا آلات اور ذرائع، دوسرا پالیسی بنانا۔ جب تک مناسب ذرائع دستیاب نہ ہوں اور قابل افراد کی کمی ہو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جب تک پالیسیاں اصلاح نہ ہوجائیں، معیشت سمیت دیگر مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔اس حوالے سے سخت پریشانی پائی جاتی ہے اور مستقبل کے لیے ہمیں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جن کی کمائی ہے، وہ زندگی سختی سے گزار رہے ہیں، دیگر لوگوں کے مسائل اس سے بھی زیادہ ہیں۔
خطیب اہل سنت نے کہا: قحط کی وجہ سے مسائل مزید گھمبیر ہوچکے ہیں اور آسمان سے بھی دباؤ ہے۔ اس کی وجہ اعمال میں قصور، گناہ، ظلم اور لوگوں کا خون ناحق بہانا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اللہ کی طرف رجوع کریں۔
ملک میں تنقید برداشت نہیں ہوتی ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: ایران میں ایک مسئلہ بادشاہت کے دور سے لے کر اسلامی جمہوریہ کے دور تک چلاآرہاہے کہ ملک کے بڑوں کے آس پاس ایک مخصوص ٹولہ موجود ہوتاہے اور وہ دوسروں کو قریب آنے نہیں دیتے ہیں؛ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ عوام کے حقیقی مطالبات حکام تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ ماضی میں بھی بادشاہ کے اردگرد مخصوص افراد ہوتے اور وہ صرف بعض مخصوص افراد کو بادشاہ سے ملنے دیتے اور وہ ایسے لوگوں کو پسند کرتے کہ بادشاہ سے ‘سب کچھ ٹھیک ہے’ کے علاوہ کچھ نہیں کہتے تھے۔ بعد میں بھی ایسا ہوا اور ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے صرف مخصوص گروہ کے افراد کو اعلیٰ حکام سے ملنے دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ملک میں تنقید سے حکام بھاگتے ہیں اور جو عوام کے مسائل اٹھاتاہے، تنقید کرتاہے اور ملک کی اچھائی کا مسئلہ پیش کرتاہے، حکام اسے ناپسند کرتے ہیں۔ چنانچہ اعلیٰ حکام مسائل سے اچھی طرح آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔ بندہ یہ بات آج اور مستقبل کے لیے کہتاہوں کہ جو بھی شخص عنانِ اقتدار سنبھالتاہے، وہ پسماندہ ،غریب اور ناقدین کے پہنچ میں ہو۔ اگر صرف ایک ہی طبقے کے لوگوں کی بات سنی جائے، تنقید سے گریز ہو تو فیصلے بھی غلط ہوجائیں گے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ملک میں تنقید برداشت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی تنقید کرتاہے، پریشر گروپس فون کرکے دباؤ ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی رکن پارلیمنٹ بھی اگر تنقید کرتاہے، اس پر بھی آواز بلند کرکے چلاتے ہیں۔ تنقید سے گریز کا بڑا نقصان ہوتاہے۔ جب تک تنقید نہ ہو، مسائل بیان نہ ہوں اور فیصلہ ساز ادارے ان مسائل سے آگاہ نہ ہوں، اصلاح کیسے ممکن ہے؟ ملک میں اقتدارسنبھالنے اور فیصلے بنانے والے بہت ہیں؛ ہر کوئی اپنا راگ الاپتاہے، مشورے نہیں ہوتے اور فیصلہ کرنے والے قانون کے بجائے اپنے ذاتی فیصلے نافذ کرتے ہیں۔ اس سے قانون شکنی پیش آتی ہے اور قومی مفادات تباہ ہوتے ہیں۔
نفاذِ عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی کے مطالبے سے ایرانی قوم پیچھے نہیں ہٹے گی
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: آج نفاذِ عدل، امتیازی سلوک کا خاتمہ اور اظہارِ رائے کی آزادی ایرانی قوم کے سب سے اہم مطالبات میں شامل ہیں جن سے وہ ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ میڈیا کو آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ یہ آزادی ملک کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قانون بھی نافذ نہیں ہوا ہے اور حکام نے مختلف بہانوں سے آزادی محدود کی ہے جو قومی مفاد اور سیاسی نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔
انہوں نے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: شکست کھانے والے تجربوں اور پالیسیوں کو چھوڑدیں۔ ایسی پالیسیوں کو دہرانے کا نتیجہ افسوس اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہذا شکست کھانے والی پالیسیوں کو چھوڑ کر نئے معیار اور پالیسیوں کے ساتھ آگے آجائیں اور عوام سے گفتگو کریں۔ احتجاج کرنے والوں کی باتیں سنیں اور ان کے مطالبات مان لیں۔ کسی بھی نظام میں اصل عوام ہیں۔ عوام پر توجہ دیں جو خیرخواہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: کم از کم ہم اپنی طرف سے یقین دلاسکتے ہیں کہ ہم ذاتی مفادات کے پیچھے نہیں ہیں؛ ہم اقتدار یا مادی مفادات نہیں چاہتے ہیں۔ ہمارے لیے قومی مفادات اور عوام زیادہ اہم ہیں۔ ہماری باتیں ریا کے لیے نہیں، یہ مبالغہ نہیں ہے، ہم نہیں چاہتے ہیں کہ کسی بھی شخص کا حق ضائع ہوجائے۔
جب تک روح اور جسم کا تعلق قائم ہے قوم کے مفادات کے لیے جدوجہد کریں گے
عوام پریشان نہ ہوں؛ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے بعض دھمکیوں پر ردعمل دکھاتے ہوئے کہا: شاید کچھ لوگ اپنے مفادات کو مستقبل میں یقینی بنانا چاہتے ہیں، لیکن ہم ملک و ملت کے خیرخواہ ہیں اور سب گروہوں کی بھلائی چاہتے ہیں۔ سب کو میرا مشورہ ہے کہ عوام کے مفادات کو مدنظر رکھیں۔ ہم یہاں رہیں یا نہ رہیں، ہماری تمنا یہی ہے کہ ملک میں ابراہیمی و محمدی مذہب اور عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔ عوام دین و دنیا میں خوشحال ہوں۔ جب تک روح اور جسم کا تعلق باقی ہے، قوم کی دنیا اور آخرت کی سعادت اور مفادات کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گا اور اس راہ میں ہر قسم کے خطرہ مول لینے کے لیے تیارہوں۔
عوام کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: معزز شہری میری سکیورٹی کے بارے میں پریشان نہ ہوں۔ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جو کچھ ہوتاہے، اسی کی مرضی سے ہوتاہے۔ دعا بہت اہم ہے اور تمہاری دعائیں کافی ہیں۔
آپ کی رائے