تعلیم کے معنی ہیں اپنی معلومات دوسروں تک پہنچانا، اور تربیت کا مطلب ہے کہ کسی کی درست رہنمائی اور نگرانی کے ذریعہ بتدریج ان مقاصد کے لیے تیار کرنا جو ان کی تخلیق سے وابستہ ہیں۔ دنیا کو انسانوں سے آباد کرنے والے مالک نے جہاں اس دنیا میں انسان گذر بسر کے وسائل فراہم کیے، وہیں ان کی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے روز اول سے تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کیا؛ چنانچہ پہلا انسان حضرت آدم علیہ السلام کی شکل میں جو اس دنیا میں آیا اس کا سب سے اہم امتیاز یہ تھا کہ اللہ نے اسے براہ راست اپنی تعلیم کے ذریعہ اپنے دین کا بھی علم عطا کیا، اور دنیا میں انسان کی بود و باش کے لیے جو تمام ضروری چیزیں ان کا بھی علم دیا، اللہ کی تعلیم کے نتیجہ میں آدم علیہ السلام صفت علم میں فرشتوں سے بھی فائق اور ممتاز ہوگئے، قرآن کریم نے فرشتوں کے مقابلے میں حضرت آدم علیہ السلام کے اس امتیاز کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ (البقرہ: 37-31)
اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو یہ بھی علم عطا فرمایا کہ دنیا کی چیزوں کی خاصیتیں کیا کیا ہیں، کون مفید ہے کون مضر، اور ان انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ان کو کیسے استعمال کیا جائے گا، نیز ان چیزوں کے استعمال کرنے کے شرعی آداب و احکام بھی بتائے کہ کس چیز کا استعمال حلال اور اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے اور کس چیز کا استعمال حرام اور اللہ کے غصے کا سبب ہے، آدم علیہ السلام نے اپنی امت کو جو کل ان کی اولاد اور پوتوں پوتیوں پر مشتمل تھی دونوں طرح کے علوم سکھائے، اور ان کے مطابق تربیت دی۔
رفتہ رفتہ انسان کی عقل نے ترقی کی، اس کا تجربہ بڑھا اور انسان کی دنیاوی ضرورتیں: کھانا، کپڑا، دوا، علاج و غیرہ میں عقل و تجربہ کی رہنمائی کافی ہوگئی؛ البتہ انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ اور کس طرح کے عقیدے، نظیرے اور آداب و احکام کی پیروی سے وہ مقصد حاصل ہوگا، اس بارے میں تنہا انسانی عقل اور اس کے تجربات رہنمائی کے لیے ناکافی تھے؛ چنانچہ اللہ رب العزت نے اس اہم ترین باب میں انسان کی رہنمائی کا کام انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ لیا، ان کے پاس وحی بھیجی، ان پر کتاب و شریعت نازل فرمائی، اور انہیں بھولے بھٹکے انسانوں کی تعلیم اور تربیت پر مامور کیا۔
تمام انبیاء علیہ السلام اپنے اپنے دور کے سب عظیم معلم اور مربی رہے ہیں، انہیں اللہ تعالی نے ایسے عمدہ اور صحیح علوم سے نوازا تھا جن میں غلطی کا کوئی امکان نہیں تھا، اور قوموں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی خاص نگرانی اور سرپرستی میں انہیں تیار کیا تھا؛ اس لیے تعلیم و تربیت کے باب میں ان کا ہر فرد منفرد اور بے مثال تھا۔
اور جب دنیا طفولت و شباب کے مراحل طے کرکے اپنی کہولت کے مرحلہ میں داخل ہوئی، جو کسی چیز کے استحکام اعتدال اور ٹھہراؤ کا مرحلہ ہوتا ہے، تو اللہ تعالی نے صف انبیاء کے قافلہ سالار معلم اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو رہتی دنیا تک کے لیے تمام قوموں اور خطوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مبعوث فرمایا۔
جامع کمالات معلم و مربی
معلم و مربی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شخصیت زیر تعلیم و تربیت لوگوں کے لیے باعث کشش ہو، اور اصلا یہ کشش تو معلم کے باطنی کمالات کی وجہ سے ہوتی ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ظاہری محاسن بھی جمع ہوجائیں تو کشش دوبالا ہوجاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ معلم انسانیت تھے، سارے انسانوں کی تربیت کے لیے مبعوث ہوئے تھے، چھوٹے بڑے، امیر و غریب، حاکم و محکوم، گمنام و بے حیثیت اور معروف و باوجاہت ہر کسی کی تعلیم و تربیت آپ کے سپرد تھی؛ اس لیے اللہ تعالی نے آپ کی شخصیت کو ایسا جامع کمالات بنایا جو ہر کسی کے لیے باعث کشش ہو، آپ باطنی کمالات میں بھی یکتا تھے اور ظاہری محاسن میں بھی منفرد تھے، اور ایسے منفرد تھے کہ انسانیت کے سب سے عظیم معلمین انبیاء جو براہ راست اللہ کا انتخاب تھے اللہ تعالی نے آپ کو ان کا بھی سردار قرار دیا۔
معلم کا سب سے بنیادی وصف یہ ہے کہ وہ علم میں کامل ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ ناخواندہ اور امی ہونے کے باوجود علم کے بحر بے کراں تھے، انسانوں میں ایسا کوئی نہیں ہوا جسے علم میں آپ جیسا کمال حاصل ہو، اللہ رب العزت نے فرمایا: «وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا » [النساء: 113] ‘‘اور اللہ تعالی نے آپ پر کتاب و حکمت اتاری، اور وہ باتیں آپ کو سکھائیں جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا فضل عظیم رہا ہے’’۔ متعدد علماء نے تصریح کی ہے کہ آپ کو پہلوں اور پچھلوں کا علم دیا گیا، اور آپ علم و حکمت میں تمام انبیاء کرام پر فائق تھے؛ بلکہ آپ کا علم تمام مخلوقات کے علم سے زیادہ تھا۔ (معارف القرآن، نساء: 113)
کمال علم کے ساتھ آپ میں اعلی نسبی شرافت تھی، کسی بڑے سے بڑے آدمی کو آپ سے سیکھنے میں عار نہیں ہوسکتی تھی، آپ کی شخصیت میں وجاہت وقار اور رعب تھا، سامنے والا آپ کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا، آپ حسن اخلاق اور نرم مزاجی کی پاکیزہ خو سے آراستہ تھے، لوگ بہت جلد مانوس ہوجاتے تھے، آپ خوش بیان اور فصیح اللسان ایسے تھے کہ مخاطب گرویدہ ہوجاتا تھا، تفہیم پر آپ کو زبردست قدرت حاصل تھی، دقیق اور گہرے مضامین کو تشبیہ و تمثیل کے ذریعے ذہن میں اتار دیتے تھے، گفتگو معتدل اور حشو و زائد سے خالی ہوتی تھی، مخاطب کو نہ تو عدم تشفی کا شکوہ ہوتا اور نہ ہی اکتاہت کا، آپ اعلی درجے ذہین، معاملہ فہم، روشن دماغ، روشن ضمیر، کشادہ دل، پاک باطن، علم و عمل کے جامع، حسین و جمیل، دل آویز سراپا و شخصیت کے مالک، ادب، سلیقہ مندی اور اعلی اخلاق میں طاق، لوگوں کی ہمدردی اور خیرخواہی، مخاطب کے مقام و مرتبے، اس کی سمجھ، عقل اور عمر کی رعایت میں یکتا تھے، آپ کو دھن لگی ہوئی تھی کہ کس طرح انسانوں کو زیادہ سے زیادہ خیر کی تعلیم دی جائے، اور اللہ کے دین کے مطابق ان کی تربیت کی جائے، یہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے محاسن تھے، جس کی وجہ سے آپ نہ صرف ایک مثالی معلم تھے؛ بلکہ ابد تک معلمین کے اسوہ اور آئیڈیل بن گئے۔
صورت تیری تصویر کمالات بنا کر
دانستہ مصور نے قلم توڑ دیا ہے
قرآن و حدیث میں آپ کی تعلیم و تربیت کا ذکر
آپ اللہ رب العزت کی طرف سے معلم و مربی کے منصب جلیل پر فائز کیے گئے تھے، قرآن کریم میں چار مقامات پر اللہ رب العزت نے الفاظ کی معمولی تقدیم و تاخیر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اور فرائض منصبی کی وضاحت فرمائی ہے، یہ مقاصد اور فرائض منصبی قرآن کے بیان کے مطابق تو چار ہیں؛ لیکن ان کو اگر مزید اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے تو ان کا خلاصہ ‘‘تعلیم و تربیت’’ کے عنوان میں سمٹ جائے گا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
«لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ» [آل عمران: 164]
‘‘واقعی حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انھیں پاک و صاف بنائے، اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے؛ جب کہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔’’
یہ مضمون اس آیت کریمہ کے علاوہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 151-129 میں دو بار اور سورہ جمعہ کی آیت ۲ میں ایک بار بیان ہوا ہے۔
متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معلم ہونے کی تصریح کی ہے، مسلم شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کیا گیا ہے جس میں آپ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘ان اللہ لم یبعثنی مُعنتا و لا مُتعنتا و لکن بعثنی معلما میسرا’’ [مسلم: 1478]
‘‘اللہ تعالی نے مجھے نہ تو لوگوں کو مشقت میں ڈالنے والا بنا کر بھیجا ہے اور نہ دوسروں کی لغزش کا خواہاں بنا کر بھیجا ہے، اس نے تو مجھے ایسا معلم بنا کر بھیجا ہے جو لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے’’۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں:
‘‘خرج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ذات یوم من بعض حجره، فدخل المسجد، فاذا ھو بحلقتین: احداھما یقروؤن القرآن، و یدعون الله تعالی، و الأخری یعلمون و یتعلمون، فقال النبی صلی اللہ علیه وسلم: کل علی خیر، ھولاء یقروؤن القرآن، و یدعون اللہ تعالی، فان شاء أعطاھم و ان شاء منعھم، و ھؤلاء یعلمون و یتعلمون، و انما بعثت معلما، فجلس معھم۔’’ (ابن ماجہ: 229)
‘‘ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی حجرے سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے، تو آپ کو مسجد میں دو حلقے نظر آئے، ایک حلقہ میں لوگ قرآن کی تلاوت اور دعا کررہے تھے، اور دوسرے حلقے میں لوگ علم سیکھ اور سکھا رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ایک خیر پر ہے، یہ لوگ قرآن کی تلاوت کررہے ہیں اور اللہ سے دعا کررہے ہیں، اگر اللہ چاہے تو ان کو عطا فرمائے، اور چاہے تو منع کردے، اور یہ دوسرے لوگ علم سیکھ اور سکھا رہے ہیں، اور میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، یہ فرما کر آپ اسی پڑھنے اور پڑھانے والے حلقے میں بیٹھ گئے۔’’
آپ کی مثالی شخصیت سب سے بڑا معلم
آپ تربیت ربانی کا ایک مظہر اتم تھے، کسی انسان کے بجائے آپ کی تعلیم و تربیت خود اللہ رب العزت نے فرمائی تھی، اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ کی نشست و برخاست، رفتار و گفتار، بود و باش، سلوک و برتاؤ، سونا جاگنا، خوشی غمی، رضا غضب، لین دین، ملنا جلنا سب کچھ رضائے الہی کے سانچے میں پوری طرح ڈھلا ہوا تھا، اور اس طرح ڈھلا ہوا تھا کہ رہتی دنیا تک وہی انسانیت کے لیے اسوہ اور قابل تقلید نمونہ قرار پایا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
«لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا» [الاحزاب: 21]
‘‘حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو’’۔
جس طرح آپ کا سینہ قرآن کے الفاظ و انوار کا گنجینہ تھا اسی طرح آپ کی ذات اقدس اور اس سے وجود میں آنے والی سیرت طیبہ قرآن کریم کے احکام و تعلیمات کا ایک جیتا جاگتا کامل مکمل عملی نمونہ تھی، ایمان کیا ہے، اسلام کیا ہے، احسان کیا ہے، عبادت کیا ہے، توکل کیا ہے، صبر کیا ہے، تسلیم و رضا کیا ہے، عفو درگذر کیا ہے، عدل کیا ہے، انصاف کیا، اخلاق کیا ہیں، ایک بہترین معاشرت کیا ہے، حلال کیا ہے، حرام ہے؟ یہ اور ان جیسی سیکڑوں تعلیمات و احکام آپ قرآن کریم میں پڑھیں، پھر اس کی تطبیقی شکل اور اس کا عملی نمونہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور سیرت طیبہ میں دیکھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسی کے سوال کے جواب میں کہا تھا اور بجا طور پر کہا تھا: ‘‘ان خُلُقَ نبی اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم کانَ القرآن’’ [مسلم: 746] کہ ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق سراپا قرآن ہے’’۔
حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ نے بجا تحریر فرمایا ہے، لکھتے ہیں: ‘‘گویا ایک علمی قرآن ہے جو اوراق میں محفوظ ہے، اور ایک عملی قرآن یعنی سیرت طیبہ ہے جو ذات نبوی میں محفوظ ہے، اور دونوں آپس میں ایک دوسرے پر من و عن منطبق ہیں، پس قرآن کا کہا ہوا حضور کا کیا ہوا ہے، اور آپ کا کیا ہوا قرآن کا کہا ہوا ہے۔۔۔ قرآن میں جو چیز قال ہے وہی ذات نبوی میں حال ہے، اور جو قرآن میں جو نقوش و دوال ہیں وہی ذات اقدس میں سیرت و اعمال ہیں’’۔ (نقوش کا رسول نمبر 38/1)
قرآنی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلی ہوئی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یہی ذات اقدس سب سے زبردست معلم تھی، لوگ آپ کو دیکھ کر اپنی نمازیں سیکھتے، عبادات کے طور طریقے معلوم کرتے، آپ کے اخلاق کو دیکھ کر اپنے اخلاق و اطوار درست کرتے ، آپ کی پسند و ناپسند کو کسی چیز کے اچھے اور برے ہونے کی کسوٹی سمجھتے، آپ کی نشست و برخاست، میل جول، مہمانوں کی ضیافت، دوستوں کی دل داری، چھوٹوں پر شفقت، آپ کے سونے جاگنے، بیوی و بچوں کے ساتھ آپ کے رہن سہن سے زندگی اور معاشرت کے اصول و آداب اخذ کرتے، آپ کی صحبت کیمیا اثر میں انہیں ایمان، توکل، حلم و صبر، عفو و درگذر، خوف و خشیت، انابت و توبہ، تسلیم و رضا، قناعت و استغنا، سماحت و تواضع کی وہ عظیم صفات و کیفیات حاصل ہوتیں جو دراصل کمال بشری کی انتہاء اور اس کی سعادت کی منتہی ہیں۔
وعظ و خطابت اور اقوال کے ذریعے تعلیم و تربیت
جہاں آپ کی مثالی شخصیت ہر دیکھنے اور برتنے والے کے لیے سراپا تعلیم و تربیت تھی، اسی طرح آپ کی زبان فیض ترجمان بھی تعلیم و تربیت کا اہم ترین ذریعہ تھی، آپ عرب کے قبیلے قریش میں پیدا ہوئے، اور بنوسعد میں دودھ پیا، یہ دونوں قبیلے فصاحت بیانی، طلاقت لسانی اور خوش گفتاری میں اپنی مثال آپ تھے، اس قدرتی انتظام اور فطری صلاحیت کی وجہ سے آپ زبان و بیان میں اپنے ہم عصروں میں بہت ممتاز رہے، آپ اپنے بلیغ وعظ اور مؤثر خطابت کے ذریعے لوگوں کو دین کی تعلیم دیتے، اور ان کی تربیت فرماتے، جمعہ کے خطبے کے علاوہ سفر و حضر، جنگ و صلح، نارمل اور ہنگامی حالات، اور دیگر مختلف اور متنوع تقاضوں پر آپ صحابہ سے خطاب فرماتے، اور وقت کے حالاتو تقاضے کے مطابق ضروری تعلیم دیتے۔
آپ کے یہ خطبات صحابہ اور امت کو تعلیم دینے کا بہت اہم ذریعہ تھے، ان کے علاوہ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، اور احباب سے باتیں کرتے موقع محل کی مناسبت سے اپنے اقوال کے ذریعہ صحابہ کو تعلیم دینا اور ان کی تربیت فرمانا آپ کا معمول تھا۔
تعلیم و تربیت کے لیے مؤثر طریقے کا انتخاب
آپ تعلیم دیتے ہوئے، نصیحت کرتے ہوئے، صحابہ کی تربیت کرتے ہوئے وہ طریقہ اپناتے جو زیادہ مؤثر اور بات کو دلنشین کرنے والا ہو، کبھی نصیحت کرتے ہوئے ترغیب و ترہیب کا سہارا لیتے ہوئے اچھے اعمال کا ثواب بتاتے جس سے سننے والے کو رغبت ہو، برے اعمال کی سزائیں بتاتے جس سے سننے والے پر خوف طاری ہو اور وہ ان سے باز رہے۔ کبھی پرانی قوموں کے واقعات اور قصوں کو سنا کر نصیحت فرماتے؛ اس لیے کہ قصوں کے ذریعہ جو بات کہی جاتی ہے، وہ مؤثر بھی ہوتی ہے اور یاد بھی رہ جاتی ہے، کبھی کسی مضمون کو بیان کرنے سے پہلے کوئی مناسب تمہید قائم کرتے، پھر مدعا بیان کرتے؛ تا کہ اصل مدعا کو سمجھنے کے لیے ذہن اچھی طرح تیار ہوجائے۔ عام عادت شریفہ تو یہ تھی کہ آپ سیکھنے والوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ فرماتے تھے، لیکن تربیت کے لیے اگر غصہ اور سختی کی ضرورت ہوتی تو آپ غضبناک ہوجاتے اور زجر و توبیخ فرماتے، جس سے لوگوں کے دل لرز اٹھتے، اور ان میں اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوتی۔ شرم و حیا والی باتوں کو صاف صاف کہنے کے بجائے اشارے اور کنائے میں کہتے، کبھی اجمالاً کوئی بات ارشاد فرماتے اور پھر اس کی تفصیل بتاتے، ایک موقع سے ارشاد فرمایا:
‘‘پانچ باتوں کو پانچ باتوں سے پہلے غنیمت جان لو: جوانی کو بوڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فرصت کو مصروفیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے’’۔ (مستدرک حاکم 7846)
اجمال کے بعد تفصیل کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بات کو یاد کرنا اور سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی طرح آپ کبھی ایک بات کو مبہم انداز میں ذکر کرتے، جس کی وجہ سے لوگوں میں تجسس اور انتظار پیدا ہوتا، اور جاننے کی خواہش پیدا ہوتی، پھر آپ اس مبہم ارشاد کو واضح کرتے تو لوگ آپ کی بات کا صحیح لطف لیتے، اور وہ ان کی زندگی میں زیادہ مؤثر ثابت ہوتی۔ کبھی کسی بات کو کہنے سے پہلے مخاطب کا ہاتھ یا اس کا کاندھا پکڑ لیتے، جس کی وجہ سے وہ پوری طرح آپ کی طرف متوجہ ہو کر سراپا گوش ہوجاتا، پھر جب آپ اسے کوئی تعلیم دیتے یا تربیت کی کوئی بات ارشاد فرماتے، تو وہ لوح قلب پر پتھر کی لکیر بن جاتی۔
کبھی بات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے آپ اپنی ہیئت بدل دیتے، مثلاً آرام سے بیٹھے ہوتے تو بات کہنے کے لیے سیدھے ہو کر بیٹھ جاتے،نارمل انداز میں ہوتے تو مزید سنجیدہ ہوجاتے، کبھی بات کو بار بار دہرا کر تاکید سے کہنے لگتے، اس طرح مخاطب بات کی اہمیت محسوس کرتا اور جس توجہ اور دھیان سے اسے سننے کا حق ہے اسی توجہ اور دھیان سے سنتا۔ کبھی اہمیت دلانے کے لیے بات کو قسم کھا کر ارشاد فرماتے، احادیث میں قسم کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ کسی بات کی تعلیم دیتے ہوئے بعض اوقات مزاح اور خوش طبعی بھی فرماتے؛ مگر مزاح میں بھی آپ حق اور سچ ہی کہا کرتے تھے۔
احکام و مسائل سکھانے میں تدریج کا لحاظ کرتے، دین میں جو باتیں بنیادی ہیں پہلے ان کو سکھاتے، زیادہ اہم سے کم اہم کی طرف آتے۔ تعلیم دیتے ہوئے اس بات کی رعایت کرتے کہ لوگوں کی دلچسپی باقی رہے؛ چنانچہ اعتدال ملحوظ رکھتے، چنانچہ روزانہ وعظ کہنے کے بجائے وقفے وقفے سے کہتے تا کہ لوگ اکتاہٹ میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ تعلیم دینے میں لوگوں کے حالات، درجے اور ذوق و مزاج کی رعایت کرتے، چنانچہ جس کے لیے جو بات ضروری سمجھتے اسے اس کی تعلیم دیتے۔
کبھی تعلیم دینے کے لیے گفتگو اور سوال و جواب کا انداز اختیار کرتے، ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا: ‘‘جانتے ہو مسلمان کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں، فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔’’ (مسند احمد 15635و مسلم 40) اس طرح کی مثالیں حدیث کی کتابوں میں بکثرت موجود ہیں۔ کبھی تعلیم دیتے ہوئے کسی بات کی عقلی توجیہ اور تشریح فرماتے، جس سے مخاطب کو شرعی حکم کی حکمت سمجھ میں آتی اور وہ اس کے آگے سر جھکا دیتا، احادیث کی کتابوں میں ایک قصہ منقول ہے:
‘‘ایک نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، اور کہا یارسول اللہ مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے، یہ سنتے ہی لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قریب بلایا اور اس سے پوچھا کہ کوئی تمہاری ماں سے یہ برا کام کرنا چاہے تو تمہیں گوارا ہوگا؟ اس نے کہا: یا رسول اللہ! میری جان آپ پر قربان، ہرگز نہیں! اور میں ہی کیا؟ کوئی بھی اس کو پسند نہیں کرے گا، کہا: اگر تمہاری بیٹی کے ساتھ کرنا چاہے تو؟ اس نے کہا: یا رسول اللہ! میری جان آپ پر قربان، ہرگز نہیں! اور میں ہی کیا ؟ کوئی بھی اس کو پسند نہیں کرے گا، آپ نے فرمایا: اگر تمہاری بہن کے ساتھ کرنا چاہے تو؟ تو نوجوان نے وہی جواب دیا، پھر حضور نے پھوپھی اور خالی کا تذکرہ کیا؟ تو نوجوان نے وہی جواب دیا۔ اس طرح بات جب نوجوان کے سمجھ میں آگئی، تو آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اوپر رکھ کر اس کو دعا دی، اس کے بعد سے وہ نوجوان اس طرح کی چیزوں کی طرف کبھی متوجہ نہ ہوا۔’’ (مسند احمد 22211)
دیکھئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کی حرمت اور اس کے بارے میں آنے والی وعیدوں کو ذکر کرنے کے بجائے، اس کو حرمتِ زنا کی حکمت اور عقلی وجہ سمجھا دی اور اسے اسلام کی اس حکم پر مکمل اطمینان ہوگیا۔
مثالیں دینے سے بات جلدی سمجھ میں آتی ہے اور اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے، آپ تعلیم میں تشبیہ و تمثیل کا کثرت سے استعمال فرماتے، اور باتوں کو بآسانی ذہن میں اتارنے میں کامیاب ہوجاتے، تشبیہات اور مثالیں احادیث میں بہت کثرت سے آئی ہیں، یہاں صرف ایک مثال نقل کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا:
‘‘نیک ہم نشین (ساتھی) کی مثال مشک بیچنے والی کی طرح ہے، اگر تمہیں مشک والے سے کچھ مشک نہ بھی ملے تو خوشبو ضرور ہی ملے گی اور برے ہمنشین کی مثال بھٹی والے کی طرح ہے، اگر تمہیں بھٹی کا کالک نہ بھی لگے تو دھواں تو ضرور پہنچے گا۔’’ (ابوداود 4829)
کبھی آپ زمین میں لکیریں کھینچ کر کوئی بات سمجھاتے، کبھی کوئی بات ذہن نشین کرنے کے لیے گفتگو کے ساتھ ہاتھ کا اشارہ بھی استعمال فرماتے: آپ نے ایک حدیث میں فرمایا: ‘‘میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، آپ نے شہادت والی اور بیچ والی انگلی کھولی اور ان کے بیچ تھوڑا سا فاصلہ رکھا’’۔ (بخاری 4998) کبھی کوئی کچھ پوچھتا تو اس کے سوال کا جواب دے کر تعلیم دیتے، کبھی بغیر کسی کے پوچھے خود ضرورت کو محسوس کرکے کوئی بات ارشاد فرماتے، کبھی ایک آدمی کوئی سوال کرتا آپ محسوس کرتے کہ اس سوال کا جواب دینے سے اس کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، تو ایسی صورت میں آپ سوال کا اصل جواب دینے کے بجائے جواب میں ایسی بات ارشاد فرماتے جو اس کے حق میں مفید ہو۔
قول و عمل کے علاوہ آپ کی خاموشی بھی تعلیم ہوا کرتی تھی، چنانچہ آپ کے سامنے کوئی کام ہو اور اسے دیکھ کر ہونے دیں، اس پر نکیر نہ فرمائیں تو یہ خاموشی بھی اس بات کی تعلیم ہوتی تھی کہ یہ کام شریعت میں جائز ہے۔
آپ کے دلکش اور مؤثر پیارے طریقوں کو کوئی کہاں تک شمار کرائے، سچ یہ ہے کہ :
دامانِ نگہ تنگ گلِ حسن تو بسار
گل چین بہار تو ز دامان گلہ دارد
معلم انسانیت کا اعجاز
یہ اس معلم انسانیت اور مربی عالم کا اعجاز تھا کہ وہ قوم جو صدیوں سے علم و آگہی سے ناآشنا تھی، جو پڑھنے لکھنے کو باعث ننگ و عار اور ان پڑھ ہونے کو وجہ افتخار سمجھتی تھی، تندی، سخت مزاجی، سخت گیری، عقل و ذہن کی خشکی، بربریت، وحشیانہ پن، اور آبا و اجداد کی کورانہ تقلید میں حد سے بڑھی ہوئی تھی، خاندانی نخوت، نسبی غرور، حسبی گھمنڈ اپنی انتہاء کو پہنچا تھا، حق تلفی، غارت گری، جنگ و جدل، حرب و ضرب ان کا پیشہ بن چکا تھا، بچی کی پیدائش کو اس قدر باعث ننگ و عار سمجھا جاتا تھا کہ آدمی اپنے لخت جگر کو زندہ دفن کرنے میں عافیت سمجھتا تھا، دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے ان کے اسی مزاج و فطرت کی وجہ سے کبھی انہیں قابل توجہ نہیں سمجھا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدتوں سے بے کار پڑی ہوئی اسی زمین کو اپنی محنت کا میدان بنا کر کے دعوت و اصلاح کا کام شروع کیا، پھر کیا تھا، پتھر دل لوگ پوری سنگ دلی پر اتر آئے اور دشمنی کا ہر حربہ اپنایا، اپنے پرائے ہوگئے، دوست بے گانے ہوگئے، محبت کا دم بھرنے والے جان کے دشمن اور خون کے پیاسے ہوگئے، آپ مکہ کے گلی کوچوں، اور الگ الگ قبیلوں میں چل پھر حق کی آواز بلند کرتے، مگر یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی، کوئی اس پر کان دھرنے والا نہ تھا۔
مگر کب تک؟ حق کی آواز لگانے والے کے صبر و استقلال نے ہمت نہ ہاری، بالآخر حق کی بانسری نے کانوں میں اثر کرنا شروع کیا، داعی کے اخلاص اور خیرخواہی کے جذبے نے پتھر دلوں کو موم کیا، صحرا کے سنگلاخ سے ہدایت کے چشمے پھوٹے، بطحانے کے سنگ ریزے اس معلم کی تعلیم و تربیت سے لعل و جواہر بن کر اس طرح نکھرے کہ چشم فلک نے اپنی حیات میں ایسی آب و تاب والے جواہر پارے نہیں دیکھے، اس مربی کی تربیت گاہ سے نکلنے والا ایک ایک شخص قوموں کا مصلح اور امام بن گیا۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی معلم و مربی نہیں ملتا جس نے صرف دو دہائی کی قلیل مدت میں ایسا عظیم الشان ہمہ گیر علمی و اصلاحی انقلاب برپا کیا ہو۔
تھے نہ خود جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
یہ انقلاب تو خود اس کی زندگی میں ہوا، مگر اسے دنیا سے رحلت کیے آج چودہ صدیاں بیت گئیں، لیکن نہ اس معلم کی علمی فیاضی میں کوئی فرق آیا، نہ اس کی تربہت کے غلغلے کم ہوئے، دنیا میں آج بھی کروڑوں انسان ہیں جو اس معلم کی طرف انتساب کو زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ، اور اس جہاں کی متاع عزیزتر جانتے ہیں اور آج بھی اسی کے لائے ہوئے قرآن اور اسی کے بتائے ہوئے علم و حکمت کے جواہر پاروں کو تعلیم و تربیت کا سب سے بڑا سرچشمہ سمجھتے اور اس سے اکتساب فیض کر رہے ہیں۔
یہ وہ معلم ہے جس کا بتایا ہوا طریقہ خالق کائنات کا انتخاب اور جس کی لائی ہوئی شریعت حق و صداقت کا ابدی معیار ہے، اس کے علاوہ ہر طریقہ مردود، ہر راہ باطل اور ہر رہبری ضلالت و گمراہی ہے۔
اسی کی پاکیزہ سیرت ہر معلم و مربی کے لیے سرمۂ بصیرت ہے، اللہ تعالی ہم سب کو اس سے روشنی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن، وہی فرقاں، وہی یسیں، وہی طہ
آپ کی رائے