میری پکار قوم اور عوام کی آہوں کی آواز ہے

میری پکار قوم اور عوام کی آہوں کی آواز ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے نو جون دوہزار تئیس کے بیان میں ایرانی قوم کو ایک ہی کشتی کے مسافر یاد کرتے ہوئے کہا: قوم کی آہیں مسائل اور مشکلات کی وجہ سے بلند ہیں اور ان آہوں کا خاتمہ ‘درد کا علاج’ ہے۔ حکام کو چاہیے عوامی مسائل کے حل میں سنجیدگی دکھائیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہم سب ایرانی قوم کے افراد ایک ہی کشتی کے سواری ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ سب اقوام ایک بڑی کشتی کے مسافر ہیں جس میں متعدد منازل ہیں اور ہر منزل میں ایک قوم رہتی ہے، بے جا نہ ہوگا۔ اس کشتی میں حکام، عوام اور کمزور لوگوں سمیت سب سوار ہیں؛ ان میں مسلمان، غیرمسلم اور مختلف مکاتب و مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: کچھ عزیز کہتے ہیں کہ تنقید نہ کروں یا لہجہ نرم رکھوں؛ یہ درست بات ہے کہ لہجہ نرم ہونا چاہیے، لیکن حکام کو چاہیے کہ اچھی طرح سمجھ لیں اس کشتی میں درد پایاجاتاہے، عوام درد سے کراہ رہے ہیں اور پکار رہے ہیں۔ مزدور، اساتذہ، ریٹائرڈ افراد، تاجر برادری، عسکری اور سول ملازمین کی پکار سننے میں آرہی ہے۔ یہ پکار درد کی نشانی ہے؛ میری پکار بھی ان ہی عوام کی پکار اور آہوں کی آواز ہے۔ میں اپنے ذاتی مسائل اور ذات کے لیے آواز بلند نہیں کرتاہوں، یہ قوم کی پکار ہے جو آدمی کو آواز اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس سے درد میں کمی آتی ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے واضح کرتے ہوئے کہا: جب تک عوام کا درد ختم نہیں ہوتاان کی آہ و پکار بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ جس قوم کے پاس سب وسائل موجود ہوں اور وہ دولت کے ہوتے ہوئے بھوک سے نالاں ہو، اس کی تجارت دیوالیہ ہوجائے اور پیسے کی قدر گرجائے اور زندگی اس کے لیے اجیرن بن جائے، اس کی پکار خواہ مخواہ بلند ہوجائے گی۔ جب تک درد کا علاج نہیں کروگے، قوم خاموش نہیں بیٹھے گی۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم عوام کی آواز بن کر ان کی پکار حکام تک پہنچانا چاہتے ہیں، لیکن اب تک حکام کی جانب سے کوئی توجہ دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ ہم کراہ رہے ہیں چونکہ عوام درد سے کراہ رہے ہیں۔ اگر یہ درد نہ ہوتے، ہم بھی خاموش رہتے۔ لیکن ہم آہ و پکار کررہے ہیں تاکہ کوئی حکیم آکر ہم سے پوچھے تمہارا درد کیا ہے؟ تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا ہے اور تم نے ہمارے دردوں کے علاج کی کوشش نہیں کی ہے۔
زاہدان کے خونین جمعہ کیس کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: زاہدان کے خونین جمعہ کیس کی پیروی جیسا کہ ہونی چاہیے، اب تک نہیں ہوئی ہے۔ کیس بنایاگیا ہے اور کچھ ججز فوجی عدالت میں اس پر مصروف ہیں، یہ بھی سننے میں آیاہے کہ اعلیٰ حکام کی جانب سے بھی حکم آیاہے کہ کیس کی پیروی ہوجائے، امید بھی یہی ہے کہ قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایاجائے، لیکن ہمیں توقع تھی فوری انصاف فراہم ہوتا اور شہدا کا خون اس سے پہلے کہ خشک ہوجائے، ان کے قاتلوں کو تم قصاص کرواتے۔ انصاف کی فراہمی سے ملک میں امن اور سکون آتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارے بڑے مسائل قومی ہیں، علاقائی اور مقامی نہیں۔ مقامی مسائل بھی دکھ دینے والے ہیں، جب ہم دیکھتے ہیں کہ ملک دولت سے مالامال ہے، لیکن یہاں عوام چند نوالے کے لیے ڈیزل سمگل کرتے ہیں یا کندھوں پر سامان لاد کر دشوارگزار راستوں سے چلے جاتے ہیں جہاں انہیں موت کا خطرہ مول لینا پڑتاہے۔ کچھ لوگ منشیات بیچتے ہیں۔ جب ہم منشیات کے الزام میں گرفتار افراد کی پھانسی کی مخالفت کرتے ہیں، آپ ہماری بات اور دلایل سن لیں۔ چوالیس سالوں سے اتنی پھانسیاں دی گئیں، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ لوگ بے روزگاری کی وجہ سے معمولی پیسوں کی خاطر جاکر جیلوں میں بند ہوجاتے ہیں یا پھر انہیں پھانسی دی جاتی ہے۔

داخلہ پالیسیوں کی تبدیلی خارجہ پالیسیوں کی تبدیلی سے زیادہ اہم ہے
ممتاز عالم دین نے کہا: ایرانی قوم مہذب قوم ہے اور جنگ و تشدد کے خلاف ہے۔ جنگ ان لوگوں کے خلاف ہے جو ہم سے لڑنا چاہتے ہیں۔ سب قوموں سے اچھے تعلقات رکھنا ایرانی قوم کا مطالبہ ہے۔ اس بارے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں، اس پر ہمیں خوشی ہے۔ لیکن یہ بہت لمبا راستہ ہے۔ پوری دنیا سے اچھے تعلقات بناکر منجمد قومی اثاثوں کو واپس لانا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ تعلقات بنانے میں اتنی دیر کیوں ہوئی؟ آٹھ دس سال پہلے کیوں ایسا نہیں ہوا تاکہ ملک کا یہ حال نہ ہوجائے؟ میزائل بنانا بھی ملک کے دفاع کے لیے ضروری ہے، لیکن ہم اس وقت زیادہ خوش ہوں گے جب اسلحہ کی نمائش کے بجائے عوام کا پیٹ بھرجائے؛ پریشان عوام کی پریشانیاں دور ہوجائیں۔
انہوں نے مزید کہا: داخلہ پالیسیوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔ خارجہ پالیسیوں سے زیادہ اہم داخلہ پالیسیاں ہیں۔ دیگر اقوام کو خوش رکھنے سے زیادہ اہم اپنی ہی قوم کو خوش رکھنے کی کوشش کریں اور اپنی ہی قوم پر زیادہ خرچ کریں۔ ہم سب مل کر اس ملک کو خوشحال بنائیں۔ دیگر قوموں کو ساتھ دے اپنی قوم کو بھلانے کی پالیسی غلط ہے۔

ایک ہی مسلک کی سوچ سے ملک چلانا مسائل کا باعث بنے گا
مولانا عبدالحمید نماز جمعہ سے پہلے اپنے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا: ایران صرف ایک ہی طبقہ، لسانی گروہ، مسلک اور مذہب کا نہیں ہے، حتیٰ کہ یہ ملک صرف مسلمانوں کا نہیں ہے؛ سب ایرانی جس برادری سے تعلق رکھتے ہیں، یہ ان ہی کا ملک ہے اور اس ملک میں وہ بھی حصہ دار ہیں۔ کوئی ایک طبقہ، سماجی گروہ، لسانی یا مذہبی برادری ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر اجارہ داری قائم کرنے سے ملک نہیں چلاسکتا۔ اس بڑے ملک کے لیے صحیح فیصلے بنانے کے لیے ایک ہی مسلک یا گروہ کے افراد اپنی اجارہ داری قائم کرکے کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ تم نے ملک کے اداروں کو ایک ہی سوچ کے افراد کے سپرد کیا، ہم نے خیر کی امید کی خاطر تمہیں ساتھ دیا، لیکن آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا: اعلیٰ حکام خوب سمجھ لیں کہ مسلکی سوچ سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اگر اہل سنت ایران کو صرف اپنا سمجھ لیں یا اہل تشیع یہ سمجھ بیٹھیں کہ ایران ہمارا ہی ہے، اس سوچ کا نتیجہ منفی نکلے گا۔ ہم سب کو مسلک و مذہب سے بالاتر ہوکر انسانیت کے لیے سوچنا چاہیے۔ پوری دنیا کے لیے اور سب ایرانیوں کے لیے سوچیں اور سب قومیتوں اور مسالک و مذاہب کے قابل افراد کی خدمات حاصل کریں۔ اگر ملک ایک ہی گروہ کے قبضے میں ہو، اس کی ترقی بند ہوجائے گی۔ مختلف نظریات اور افکار باہمی گفت و شنید سے درست راستہ پیدا کرسکتے ہیں۔ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا، کرسی سے اتر کر عوام کے ساتھ کھڑا ہوتا اور خود کو عقلائے قوم کے سپرد کرتا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں