مولانا عبدالحمید:

علما اور دینی مدارس کو مستقل رہنا چاہیے؛ ملک بحران میں ہے، علما کیوں خاموش ہیں؟

علما اور دینی مدارس کو مستقل رہنا چاہیے؛ ملک بحران میں ہے، علما کیوں خاموش ہیں؟

ایران کے ممتاز سنی عالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے علماء اور دینی مدارس کو مستقل رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے حکومتوں کی جانب سے علما اور مذہبی اداروں کے لیے بجٹ پیش کرنے کو نقصان دہ یاد کیا۔ انہوں نے ملک کے جاری مسائل اور مشکلات پر علما کی خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے کہا علما کو عوام اور غریبوں کے ساتھ رہنا چاہیے۔

دینی مدارس کے لیے بجٹ پیش نہیں کرنا چاہیے
دو جون دوہزار تئیس کو زاہدان میں ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت نے کہا: اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں سے ناراض ہوتاہے جو حقائق پر آنکھیں بند کرتے ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی ناراضگی تاریخ میں ان علما سے رہی ہے جنہوں نے خدا کے دین کو بھلاکر دنیا کے فانی مفادات کی خاطر تزویر، دغل بازی اور فریب سے کام لیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودی علما کے بارے میں جنہوں نے تورات کے احکام پر عمل نہیں کیا بہت سخت الفاظ سے کام لے کر انہیں گدھے سے تشبیہ دی ہے ۔ بلاشبہ یہی تشبیہ مسلمان علما اور صاحبانِ قرآن کے لیے بھی ہے اگر وہ قرآن پاک پر عمل نہ کریں اور حق کو پاؤں تلے روندیں، اور حقوق اللہ اور حقوق الناس پر توجہ نہ دیں۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: عالم اسلام اور ہمارے ملک کے علمائے کرام کو چاہیے سب حالات میں مستقل اور غیرجانبدار رہیں۔ حکومتوں اور مقتدر اداروں سے وابستگی نہ رکھیں۔ مدارس اور یونیورسٹیوں کے علما اور دانشور غیرجانبدار اور آزاد رہیں اور سماج کے حقایق بتائیں۔ حکومتوں کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی بنیاد پر نصیحت کرکے حکام اور عوام کی اصلاح کی کوشش کریں۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہم نے ماضی میں بھی کہا ہے کہ علما کو وابستہ نہ کریں اور انہیں تنخواہ نہ دلوائیں۔ انقلاب کے شروع ہی سے ہماری رائے یہی تھی اور ہے کہ مدارس ، مساجد اور علما کو حکومت سے تنخواہ اور بجٹ نہیں لینا چاہیے۔ ملک کے بجٹ میں مدارس کے لیے کوئی رقم متعین نہیں کرنی چاہیے۔ ہم نے کہا ہے اگر ہم ایک ہزار طالبعلم کو نہ رکھ سکیں، ایک سو طلبہ رکھیں گے، لیکن حکومت سے کوئی پیسہ قبول نہیں کریں گے۔ الحمدللہ ہم نے اس مسجد (جامع مسجد مکی) اور دارالعلوم زاہدان کے اخراجات کے لیے دنیا کی کسی بھی حکومت سے بشمول اپنے ملک کی حکومت سے ایک ریال بھی دریافت نہیں کیا ہے۔ ہمیں پیشکش ہوئی، لیکن ہم نے مسترد کیا۔ کہاگیا اساتذہ اور طلبہ کو تنخواہیں دیں گے، لیکن ہمارے صوبے کے علما اور دیگر علاقوں کے بہت سارے سنی علمائے کرام نے اسے قبول نہیں کیا۔
انہوں نے کہا: مساجد اور دینی مدارس سمیت مذہبی اداروں کے امور عوام ہی کے سپرد ہونا چاہیے۔ علما مشکلات برداشت کریں، لیکن مدارس کے لیے بجٹ متعین نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے اس مسئلے کو بہت کم منبر پر اٹھایا ہے تاکہ علما کہیں ناراض نہ ہوجائیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب علما حکومت سے بجٹ اور پیسہ لیں، ان سے وابستہ ہوجائیں گے اور پھر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکیں گے۔ آج علما کیوں خاموش ہیں؛ حالانکہ حکومتوں کی اصلاح علما کی زبان سے ہونی چاہیے۔ حکومتیں آتی جاتی ہیں، یہاں تک کہ سیاسی نظام بھی تبدیل ہوتاہے اور کوئی بھی ریاست اور سسٹم چاہے اسلامی ہو یا غیر اسلامی ہمیشہ کے لیے نہیں رہے گا، لیکن پھر علما پھنس جائیں گے۔

مذہبی سیکٹر کے لیے بجٹ کے تعین سے ‘‘مذہب’’ کو نقصان پہنچا
مولانا عبدالحمید نے کہا: ملک میں نعرہ لگایا جاتا کہ ایران کا انقلاب مہدی کے انقلاب سے جا ملے گا۔ ہم نے پوچھا کیسے یہ یقین حاصل ہوا اور اگر اس طرح نہ ہوا، اور کوئی دوسرا سیاسی نظام آکر مدارس کو اپنے کنٹرول میں لے لے پھر کیا ہوگا؟ کسی بھی ملک میں جب مدارس، علمی مراکز اور عصری جامعات و کالجز حکومت سے وابستہ ہوں گے، اگر نظام تبدیل ہوجائے، نیا نظام ان مراکز کو اپنے کنٹرول میں لے گا۔ لیکن وہ مدارس اور جامعات جو خدا اور قوم سے وابستہ ہیں، ان کی آزادی محفوظ رہے گی اور انہیں کوئی خدشہ نہیں کہ تنخواہ بند ہوجائے گی یا روٹی نہیں ملے گی۔ جب علما اور مدارس کو حکومت سے تنخواہیں مل جائیں، وہ حکومت کی اصلاح کیسے کریں؟ وہ حقایق بتانے سے عاجز ہوجائیں گے۔ اب ہمارے ملک میں یہی حالت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: تم نے مدارس اور حوزہ علمیہ کے لیے بجٹ متعین کرکے اس کا اعلان کیا جس سے عوام اور مدارس کے درمیان دوری پیدا ہوئی اور اب علما اور عوام کے درمیان تعلق کمزور ہوچکاہے۔ مذہبی سیکٹر کے لیے ہوشربا بجٹ متعین کرنے سے مذہب ہی کو نقصان پہنچایا گیا۔کاش تم ایسا نہ کرتے اور کاش علما سختی اور بھوک برداشت کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرتے۔ کچھ علما نے ظاہر کو بچایا اور اپنی دولت چھپادی، لیکن ان کی موت کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے اکاؤنٹ میں بڑی اور خطیر رقم موجود ہے جو علما کی شایان شان نہیں۔ علما کو عوامی رہنا چاہیے، وہ کمزور لوگوں کے ساتھ بیٹھیں۔ مسکینوں اور کمزوروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے۔

اوین جیل کے سابق سربراہ کا اعتراف اجتماعی پھانسیوں کے بارے میں چونکا دینے والا تھا
ممتاز عالم دین نے حسین مرتضوی زنجانی کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے 1989ء کی گرمیوں میں اوین جیل میں بڑے پیمانے پر قیدیوں کی پھانسی کا اعتراف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اوین جیل کے سابق سربراہ اور سپرنٹنڈنٹ ، حسین مرتضوی نے ننانوے کی اجتماعی پھانسیوں کے حوالے سے بعض رازوں کو فاش کیا ہے۔ ہمیں ان پھانسیوں کے بارے میں کچھ پتہ تھا، لیکن اتنی تفصیل سے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہزاروں افراد کو اجتماعی طورپر پھانسی دی گئی ہے۔ اس وقت کچھ عناصر جو حکومت سے تصادم پر تلے ہوئے تھے، گرفتار ہوئے اور پھر انہیں پھانسی دی گئی۔ مرتضوی نے اعتراف کیا ہے کہ بعض لڑکیوں کو پھانسی سے پہلے زیادتی کا نشانہ بنایاگیا۔ یہ انتہائی چونکا دینے والا واقعہ تھا جس سے ملک و ملت اور حکومت و نظام کو نقصان پہنچا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: آج بھی ملک کے بعض قیدخانوں میں قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایاجاتاہے اور بعض قیدی میڈیا سے بات کرنے برملا کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیسے خوفناک سلوک ہوتاہے جو اسلامی اصول کے خلاف ہے۔ علما ایسے مسائل میں خاموشی اختیار نہ کریں۔ جس ملک میں اسلامی جمہوریہ کا دعویٰ ہوتاہے، وہاں اسلام اور جمہوریت کا خیال رکھنا چاہیے تھا؛ جو کچھ ہوتاہے اسلام کے نام پر ہوتاہے اور اس سے اسلام ہی کو نقصان پہنچتاہے۔

اسلامی حکومت کے مقابلے میں اٹھنے والوں کو مطلقا مارنے کی اجازت نہیں ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: خوارج مسلمانوں کا ایک اندرونی مسئلہ تھا جو ایک انحرافی سوچ کے حامل فرقہ تھا اور انہوں نے سیدنا علیؓ کے خلاف مسلح قیام کیا۔ حضرت علیؓ نے خوارج کے بہت سارے افراد کو لڑائیوں میں گرفتار کرکے اسیر بنایا، لیکن ایک اسیر کو بھی نہیں مارا۔ جمل اور صفین کی لڑائیوں میں بھی کوئی اسیر نہیں مارا گیا۔ نہروان کی لڑائی میں خوارج حضرت علیؓ کے عقیدے کے خلاف تھے، لیکن آپؓ نے کسی اسیر کو نہیں مارا اور سب کو رہا کردیا۔
انہوں نے مزید کہا: جب کوئی گروہ اسلامی حکومت کے خلاف بندوق نکالتاہے، ایسا نہیں ہے کہ جو بھی گرفتار ہوجائے، اس کی گردن اڑادی جائے، صرف قاتلوں کو ماراجاتاہے۔ اگر کوئی سمجھتاہے کہ ہر وہ شخص جو اسلامی حکومت اور ریاست کے خلاف کھڑا ہوتاہے، اسے قتل کروانا چاہیے، پھر حضرت علیؓ نے کیوں ایسا نہیں کیا؟ کیا تم اسلام کو نبی کریم ﷺ اور سیدنا علیؓ سے بہتر سمجھتے ہو؟! یہ دیکھنا چاہیے کہ ایسے مواقع پر ہمارے بزرگوں نے کیا عمل کیا۔

ملک بدترین غربت کے شکنجے میں ہے؛ علما کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟
مولانا عبدالحمید نے کہا: اب ملک مسائل سے دوچار ہے اور بندگلی میں دکھائی دیتاہے۔ حکام اور ذمہ داران سے کچھ نہیں بنتا اور کوئی امید بھی نہیں ہے کہ مستقبل میں وہ کوئی مثبت تبدیلی لائیں۔ سوال یہ ہے علما کیوں خاموش ہیں؟ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کم وبیش اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اگر مدارس کے علما خاموش رہیں اور اپنی حد تک امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ کریں، پھر خدا کو کیا جواب دیں گے؟
انہوں نے مزید کہا: ایک ایسا ملک جو مختلف قسم کی دولتوں اور وسائل سے مالامال ہے، وہ کیوں دنیا کی بدترین غربت کا شکار ہوجائے؟ کرپشن اور لوٹ مار سے بہت کم ادارے محفوظ رہ چکے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ بعض افراد امیر اور مالدار ہوچکے ہیں اور عوام بدترین غربت سے دوچار ہیں۔ اسی لیے مختلف طبقوں اور پیشے کے لوگ احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں۔ علما کیوں کچھ کہنے کی زحمت نہیں کرتے ہیں؟ ہر شخص کی ایک ذمہ داری بنتی ہے اور ہمیں حقائق بیان کرنے ہوں گے۔ ہم سب اللہ سے ڈریں؛ سب کو ایک دن مرنا ہے؛ پھر اللہ کے سامنے ہمارا جواب کیا ہوگا؟
ممتاز عالم دین نے کہا: حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق الناس بہت اہم ہیں۔ قرآن پاک نے باربار لوگوں کے حقوق کے بارے میں یاددہانی کی ہے۔ انسانوں کا حق اللہ کے حقوق سے بھی زیادہ اہم ہے اور بھاری ہے؛ چونکہ اللہ بے نیاز ہے اور بندے محتاج ہیں۔ اگر اللہ کا حق ضائع ہوجائے، اللہ ناراض ہوتاہے، لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا، لیکن محتاج عوام کا حق ضائع ہوجائے، انہیں نقصان پہنچ جائے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں عوام کا حق ضائع ہوتاہے اور ہماری دینی ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ ہم بات کریں، تنقید کریں اور کردارکشی سے بچتے ہوئے حقائق کو بیان کریں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: علما سے توقع ہے جذبہ خیرخواہی کے تحت حقایق کو نہ چھپائیں اور عوام کے حقوق کا دفاع کریں۔ ایرانی عوام مسائل سے دوچار ہیں؛ وہ غرور اور بھرے پیٹ کی وجہ سے احتجاج نہیں کرتے ہیں؛ غربت اور فکر معاش نے ان کی صدائے احتجاج بلند کیا ہے۔ عوام کی باتوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

لوگوں کو زبردستی دیندار بنانے کے حق میں نہیں ہوں
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: یہ میرا عقیدہ نہیں کہ دین کو عوام پر زبردستی غالب کیاجائے؛ اگر عوام کچھ اور چاہتے ہیں انہیں دباؤ میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے؛ یہ قصور حکومت والوں کی جانب سے ہے۔ انہیں چاہیے اسلام سے ایک ایسا فہم پیش کرکے عوام سے ایسا سلوک کریں کہ انہیں انصاف فراہم ہو اور ان کی رضامندی حاصل ہوجائے۔ لوگ جب ناراض ہیں، زبردستی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ملک میں سب کو آزادی ملنی چاہیے تاکہ سب گروہ اور طبقے مل کر آپس میں رہیں اور اپنا ملک آباد و خوشحال کریں۔ دیندار لوگ آزادی کے ساتھ عبادت کریں اور دین سے دور افراد جانیں اور ان کا خدا۔ ایرانی عوام مجموعی طورپر دیندار ہیں، لیکن ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہیے کہ ان کے عقائد زد میں آئیں اور وہ دین سے بھاگ جائیں۔
ممتاز عالم دین نے آخر میں کہا: ملک کی بھاری اکثریت کا مطالبہ مان لیں؛ دباؤ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں؛ اس سے صرف لوگ دین سے بے زار ہوجائیں گے۔ موجودہ بحرانوں سے نجات کا واحد راستہ عوام کی اکثریت کا مطالبہ مان لینا ہے۔ عوام سے ٹکر نہ لیں اور رفرنڈم منعقد کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ان کے تقاضے اور مطالبات پورے ہوجائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں