مولانا عبدالحمید:

ایرانی قوم آزاد الیکشن چاہتی ہے

ایرانی قوم آزاد الیکشن چاہتی ہے

ممتاز عالم دین نے ایران میں الکیشن پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ان پالیسیوں کی وجہ سے کمزور لوگ ہی امیدوار بن کر مقابلہ کرسکتے ہیں اور شریف لوگ الیکشن کے قریب بھی نہیں جاتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا گزشتہ چوالیس سالوں سے ملک میں جاری غلط پالیسیوں کا خاتمہ ہوناچاہیے۔
بارہ مئی دوہزار تئیس کو نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے زاہدانی نمازیوں سے کہا: سب ایرانی عوام رنج و غم میں مبتلا ہیں۔ معاشی دباؤ نے سب کے لیے زندگی اجیرن بنادی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام پر دباؤ بڑھ رہاہے۔رمضان میں ہمارے پاس رپورٹس آئیں کہ کچھ لوگوں کے پاس سحری کو کچھ کھانے کے لیے نہیں اور ان کے دسترخوان خالی ہیں۔ بہت سارے ایرانیوں کا دسترخوان خالی ہوچکاہے اور روزانہ مختلف پیشہ ور لوگ احتجاج کرتے ہیں۔ ریٹائرڈ شہریوں کی آواز کب سے بلند ہے اور وہ نعرے لگارہے ہیں کہ ہمارے دسترخوان اور فریج خالی پڑے ہیں۔ ملازمین، مزدور اور پیشہ ور افراد سمیت مختلف طبقے کے لوگ احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں۔ لوگ بھاری ٹیکسز سے نالاں ہیں جنہیں ادا نہیں کرسکتے۔
انہوں نے مزید کہا: اس سے قبل ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی عہدیدار عوام کو امید دلاتے اور کہتے تھے کہ تمہارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن اب واضح ہوچکاہے کہ ارکان پارلیمنٹ اور حکام سے کچھ نہیں بننے والا ہے؛ اسی سے عوام میں مایوسی پھیل چکی ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: حکام قومی کرنسی کی قدر نہیں بچاسکے۔ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان تمام تر مسائل کے باوجود اپنی کرنسی کی قدر بچانے میں کامیاب ہوا۔ ہمارے حکام کیوں ایسا کرنے سے عاجز ہیں؟ امریکا سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں ہمارے قومی اثاثے منجمد ہیں۔ صرف ایک ملک کے پاس ہمارے تین ارب ڈالرز ہیں۔ دیگر ملکوں میں بھی بھاری قرضے ہیں جنہیں ہمارے حکام واپس نہیں لاسکے۔ یہ ان کی نااہلی کی نشانی ہے۔ یہ قومی اثاثے ہیں۔

الیکشن عمل ایسا رہاہے کہ قابل لوگ نظرانداز ہوچکے ہیں
انہوں نے سوال اٹھایا: یہ کمزوری کہاں سے آئی اور ملک کیوں مسائل سے دوچار ہوچکاہے؟ مسائل کی جڑ کہیں اور ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخابی عمل اور الیکشن پالیسیوں کی وجہ سے قابل اور اہل لوگ سامنے نہیں آسکتے ہیں۔ گارڈین کونسل سمیت دیگر ادارے جن کا کام ہے پارلمانی انتخابات اور ریاستی الیکشن کے امیداروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال کریں اتنی سختی دکھاتے ہیں کہ کوئی قابل اور شریف آدمی الیکشن میں حصہ لینے کی تمنا بھی نہیں کرسکتا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارے اپنے صوبے میں ایسے لوگوں کو انتخابی مہم پر واچ رکھتے ہیں جن کی اپنی اہلیت پر سوال اٹھ رہاہے۔ کمزور لوگ جن کی سوچ بہت محدود ہے اور وہ قابل اور پرزور افراد کو سسٹم میں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: تجربہ سے ثابت ہوا ہے یہ طریقہ شکست سے دوچار ہوتاہے۔ انتخابی پالیسیاں نادرست ہیں اور ماسٹرمائنڈز سرکاری محکموں سے دور رکھے جارہے ہیں۔ صرف کمزور لوگ ہی سامنے آکر سرکاری عہدوں پر قابض ہوتے ہیں۔ صرف یہ دیکھاجاتاہے کون نماز اور دیگر تقریبات میں شریک ہوتاہے۔ تمہیں لوگوں کی نماز سے کیا ہے؟ اگر کوئی نماز پڑھتاہے تو اپنے لیے پڑھتاہے، ملک چلانے کے لیے قابل ڈائریکٹرز اور افسران کی ضرورت ہے۔ کمزور ارکان پارلیمنٹ ملک کو مسائل سے نجات نہیں دلاسکتے ہیں۔ جب تم حکومت اور کابینہ کے لیے ایک کمزور سربراہ کو منتخب کرتے ہیں جو ملکی امور چلانے سے عاجز ہے، یہ اس ملک اور اس کے عوام کے حق میں بے انصافی اور ظلم ہے۔ حالانکہ یہ سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں، پالیسیاں تبدیل کریں اور دیکھیں کیا ہوتاہے۔

قوم کا خیال ہے غلط انتخابی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کمزور ہوچکاہے
رابطہ عالم اسلامی کے رکن نے مزید کہا: ایرانی قوم اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ملک میں جاری انتخابی پالیسیاں چاہے صدراتی انتخابات ہوں یا پارلیمنٹ اور مجلس خبرگان، سب نے ملک کو کمزور بنادیاہے۔ کمزور حکام بر سرِ کار آچکے ہیں۔ یہ عوام کی رائے ہے۔ کچھ لوگ آنے والے انتخابات کے لیے تیاری کررہے ہیں، یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ الیکشن قوم کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ قوم آزاد الیکشن چاہتی ہے۔ وہ قابل اور مستعد افراد کو سرکاری عہدوں اور پارلیمنٹ میں دیکھنا چاہتے ہیں جو ملک کو بحرانوں سے نجات دلاسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ایران کے شہری دیگر ملکوں کو دیکھتے ہیں کہ کیسے وہاں عوام اپنے صدور اور نمائندوں کو انتخاب کرتے ہیں اور کس طرح ان کا ملک ترقی کرتاچلاجارہاہے۔ ایران کے باشندے بھی اسی آرزو کو دل میں لیے اپنے ملک کی ترقی، خوشحالی اور اصلاح چاہتے ہیں۔ ان کے اثاثے ان کے اپنے ہی ملک پر خرچ ہونا چاہیے۔ حکام اپنے ہی عوام کو ترجیح دیں۔ یہ عوام کا حق ہے کہ ان کے حکام قابل اور اہل لوگ ہوں۔

ایرانی عوام ذلت محسوس کررہے ہیں
جامعہ دارالعلوم زاہدان کے صدر نے کہا: عوام کی بات پر توجہ دینی چاہیے۔ اب وہ ذلت محسوس کررہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ، خلفائے راشدین جن میں حضرت علیؓ بھی شامل ہیں، عوام کی رائے کو اہم سمجھتے تھے۔ تم بھی اگر عوام کی بات سن لو، تو بھوک کا خاتمہ ہوگا۔ ملک میں معنی خیر تبدیلی لائی جائے تو سب کچھ اپنی جگہ پر چلاجائے گا۔ قومی کرنسی کی قدر بڑھ جائے گی۔ قوم کی بات مان لیں اور یہ جان لیں کہ اللہ کی رضامندی اور ملکی استحکام کا راز عوام کی رضامندی میں ہے۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: ان پالیسیوں اور قوانین کو روک دیں جن کی ناکامی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے۔ ایرنی عوام فکر و نظر والے ہیں۔ چوالیس سال قبل پاس ہونے والے ناکام قوانین پر عملدرآمد کی کوشش نہ کریں۔ یہ دکھیں بحرانوں کی جڑ کیا ہے؟ڈیڈلاک کے بجائے گفت و شنید سے ان مسائل کو حل کرائیں۔ اپنے مخالفین سے بات چیت کریں، مختلف طبقوں کے افراد کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں۔ ان کی رائے معلوم کرکے عوامی مطالبات کی روشنی میں کام کریں۔ اسی سے قومی اتحاد اور امن کو استحکام حاصل ہوگا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: جیسا کہ بہت سارے ملکوں میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور دیندار و غیرمذہبی لوگ سب جو اپنے ملک کے مفادات پر یقین رکھتے ہیں، میدان میں اترتے ہیں، یہاں بھی عوام چاہتے ہیں قابللوگ سامنے آجائیں چاہے وہ نمازی ہوں یا نہ ہوں، سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ دیانتداری سے اپنا کام کرے۔ چوری اور کرپشن میں ملوث نہ ہو۔ میرا خیال ہے اگر کوئی غیرمسلم ہو، لیکن ملک کو آباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اسے بھی خدمت کا موقع دینا چاہیے۔

زاہدان کے خونین جمعہ کے قاتلوں اور کمانڈروں کو سزا دینا ایک شرعی، قانونی اور منطقی مطالبہ ہے
ایرانی بلوچستان کی سماجی و سیاسی شخصیت نے مسلح افواج کے عدلیہ سربراہ کے ریمارکس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عسکری محکمے کے سربراہ زاہدان کے دورے کے موقع پر زاہدان کے خونین جمعہ کے بارے میں بیان دیا ہے کہ جن اہلکاروں نے عوام کو قتل کیا ہے یا انہیں زخمی کیا ہے، انہیں سزا دلوائی جائے گی۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم اس بیان کو ایک مثبت اقدام سمجھتے ہیں اور عمل اور نتیجے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ ان کا بیان عملی ہوجائے۔ شہدا کے وارثوں اور زخمیوں کا مطالبہ ہے فائر کھولنے والے اہلکاروں اور انہیں حکم دینے والے کمانڈروں اور حکام کو قرارِ واقعی سزا دلوائی جائے۔ لوگوں کو اس وقت تسلی ہوجائے گی جب قاتل اہلکاروں کو سزا دلوائی جائے جس طرح کوئی بسیج یا پولیس اہلکار کا قتل ہوتاہے تو فورا ان کے قتل کے الزام مں لوگ گرفتار ہوتے ہیں اور پھر انہیں پھانسی دی جاتی ہے۔ جو عام شہریوں کو قتل کرتاہے اس کو بھی قصاص کی سزا دینی چاہیے۔
انہوں نے عوام اور نہتے شہریوں اور نمازیوں پر فائر کھولنے والے اہلکاروں کے علاوہ، انہیں قتل کا حکم دینے والے حکام کو بھی ٹرائل کرنے کا مطالبہ پیش کرتے ہوئے اس کو ایک شرعی، قانونی اور عقلی مطالبہ قرار دیا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں