شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

اگر ملک میں ’معتدل اسلام‘ کا نفاذ ہوتا،آج پوری قوم مطمئن ہوتی

اگر ملک میں ’معتدل اسلام‘ کا نفاذ ہوتا،آج پوری قوم مطمئن ہوتی

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے تازہ ترین بیان میں ’معتدل اسلام‘ کو اسلام سے بہترین بیانیہ یاد کرتے ہوئے اعتدالی اسلام کی تشریح میں کہا اگر اس بیانیہ پر عمل کیاجائے معاشرے کے تمام طبقوں اور اکائیوں کو ان کے جائز حقوق مل جائیں گے اور ان کے مطالبات جو انصاف اور آزادی پر مبنی ہیں، پورے ہوجائیں گے۔

معتدل اسلام میں انتہاپسندی، تنگ نظری اور دہشت گردی مردود ہے
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، مولانا نے چودہ اپریل دوہزار تئیس کے بیان میں کہا: سب مذاہب بشمول عیسائیت اور یہودیت افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں؛ بعض مسلمان بھی افراط و تفریط کا شکار ہیں، لیکن درست اسلام وہی ہے جو معتدل اسلام میں پیش ہوتاہے۔
انہوں نے کہا: ہمارا عقیدہ ہے جو اسلام نبی کریم ﷺ نے لایاہے اس میں کوئی افراط یا تفریط نہیں ہے۔ جو اسلام قرآن نے پیش کیا ہے وہ اعتدال پر مبنی ہے جیسا کہ مسلمانوں کا تعارف امت وسط سے ہوا ہے؛ «وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا»۔ انتہاپسندی غلط ہے اور اس سے اسلام اور مسلمانوں کو پوری دنیا میں نقصان پہنچاہے۔ انتہاپسندی نے یہودیت اور یہودیوں کو نقصان پہنچایاہے۔ یہودیوں کو خاص کر وہ یہودی جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے ہمارا مشورہ ہے کہ میانہ روی کی راہ اختیار کریں، اور سب ایک دوسرے کو مارنے اور ختم کرنے کی سوچ دماغ سے نکالیں۔سب دنیاوالے صلح کے لیے کوشش کریں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: اسلام بھی صلح کا مذہب ہے۔ فرمانِ الہی ہے: «وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا» اگر تمہارے دشمن صلح کی طرف راغب ہوئے، تو تم بھی صلح کرو۔ نبی کریم ﷺ نے مکہ کے مشرکین سمیت سب عرب قبائل سے صلح کا معاہدہ طے کیا تھا اور ان یہودیوں سے بھی جو صلح کی جانب راغب تھے، ان سے بھی صلح کا معاہدہ ہوا تھا۔
انہوں نے کہا: اسلام میں انتہاپسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارا دین رواداری، صلح، برداشت اور باہمی پرامن زندگی کا سبق دیتاہے۔ اعتدالی اسلام میں دہشت گردی کی گنجائش نہیں ہے۔ دہشت گردی انتہاپسندی ہے۔ اسلام بات چیت، گفتگو، فراخدلی اور دوراندیشی کا مذہب ہے۔ اسلام انسانی حقوق، ان کی عزت اور احترام پر زور دیتاہے؛ کسی قیدی یا عام انسان کے انسانی حقوق کی پامالی ناقابل قبول ہے۔ میرا خیال ہے اسلام انسانی حقوق کے حوالے سے مروجہ انسانی حقوق سے ایک قدم آگے ہے اور معتدل اسلام ’جمہوریت‘ سے قریب ہے، بلکہ بہت سارے مسائل میں اس کے ساتھ مشترک ہے۔

معتدل اسلام میں حکام کو عوام منتخب کرتے ہیں، کسی حاکم کو مطلق اختیارات حاصل نہیں ہیں
ممتاز عالم دین نے زاہدانی نمازیوں سے خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا: اعتدالی اسلام میں عقیدہ یہ ہے کہ حکام چاہے کسی بھی درجے میں ہوں، وہ خدا کی جانب سے بھیجے ہوئے نہیں ہیں، ان کا انتخاب عوام ہی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عوام کو یہ اختیار دیاہے کہ وہ اپنے حاکم اور حکومت کے سربراہ کو مقرر اور منتخب کریں، سوائے نبی کریم ﷺ کے جنہوں نے ایک حکومت کی سربراہی کی اور اس وقت کسی کے ذہن و خیال میں بھی یہ نہیں آیا کہ آپﷺ کے سوا کوئی اور حکومت کا سربراہ بن جائے۔ لیکن آپﷺ کے بعد کوئی شخص خدا کی جانب سے نمائندہ منتخب نہیں ہوا اور عوام ہی نے اپنے حکام کا تعین کیا ہے۔ نہج البلاغہ جس میں اہل تشیع کے مطابق سیدنا علیؓ کے اقوال موجود ہیں، آیاہے کہ آپؓ نے حضرت معاویہ ؓ کو خط بھیجتے ہوئے لکھا ہے کہ جس شورا نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو انتخاب کیا تھا، اسی نے مجھے بھی خلیفہ منتخب کیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ سیدنا علیؓ کا عقیدہ بھی یہی رہا ہے کہ خلیفہ اور حاکم کی تعیین کا حق عوام کو حاصل ہے، خدا کی جانب سے نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: معتدل اسلام میں کسی بھی حاکم اور سربراہِ حکومت کو مطلق اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ مطلق اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کی رائے بھی یہی ہے کہ حکمران کے اختیارات قرآن و سنت کی روشنی میں ہے؛ حاکم کوئی خلیفہ راشد بھی ہو شریعت اور قرآن سے ایک بال برابر بھی آگے نہیں جاسکتاہے۔
انہوں نے سیدنا علیؓ کے بعض مناقب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: حضرت علیؓ پیکرِ علم و تقویٰ تھے۔ میانہ روی اور سوچ میں آزادی پر یقین رکھتے تھے۔ سب خلفائے راشدین کے دورِ حکومت میں مسلم اور غیرمسلم پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ اعتدالی اسلام میں انسانیت اور سب کے حقوق پر یقین ہے۔

انصاف اور آزادی ایرانی قوم کے برحق مطالبے ہیں
خطیب زاہدان نے مزید کہا: آج ایرانی قوم کے اہم مطالبات میں نفاذِ عدل اور آزادی شامل ہیں۔ عوام انصاف چاہتے ہیں اور انصاف مانگنے والوں کے ہاتھ ماتھے پر بوسہ دینا چاہیے۔ عوام آزادی چاہتے ہیں اور یہ ان کا جائز حق ہے۔ اسلام میں سوچ، قلم اور اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ اسلام میں سب کچھ آزاد ہے سوائے ایسے کاموں کے جو انسان کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسلام نے انہیں گناہ قرار دیاہے۔
انہوں نے مزید کہا: کسی بھی تہذیب میں سب کچھ آزاد نہیں ہے۔ دنیا کی سب ثقافتوں اور تہذیبوں میں بشمول مغرب اور یورپ کی کوئی نہ کوئی قید و شرط ہے۔ آزادی ان کاموں میں ہے جس سے دوسروں کا نقصان نہیں ہوتاہے اور سماج میں چپقلش اور جھڑپیں پیدا نہیں کرتے ہیں۔ جن ملکوں میں آزادی کے نام پیامبروں اور قرآن پاک کی شان میں گستاخی ہوتی ہے، یہ ایک غلط توجیہ ہے؛ یہ حکومتیں حقائق سے ناواقف ہیں یا پھر جہالت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مقدسات نیزشخصیات کی توہین سے امن عامہ کو نقصان پہنچتاہے۔ ہم کسی بھی پیغمبر اور کسی بھی مذہب کی مقدسات کی توہین کو مسترد کرتے ہیں۔ قرآن پاک نے بتوں اور باطل معبودوں کی توہین سے منع کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: نفاذِ عدل عوام کا حق ہے۔ امتیازی سلوک اور سیاسی و مذہبی آزادیوں پر قدغن لگانا انصاف کے خلاف ہے اور ایسے رویوں کا خاتمہ عوام کا برحق مطالبہ ہے۔معتدل اسلام میں امتیازی سلوک ناجائز ہے۔ جس انصاف، انسانی اور شہری حقوق پر اعتدالی اسلام یقین رکھتاہے اس میں پارٹی، جماعت، مسلک اور یہاں تک کہ مذہب و دین سے بالاتر ہوکر سب کو ان کے حقوق ملیں گے۔

مذہبی حکومت اور ’اسلامی جمہوریہ‘ میں نماز پر پابندی ناقابل قبول ہے
مولانا عبدالحمید نے کہا: حکومت نے افغان بھائیوں کو ملک میں پناہ دی ہے، لیکن اب انہیں نماز پڑھنے نہیں دیتی؛ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں معلوم ہے بعض شہروں میں افغان مہاجرین کے نمازخانوں کو سیل کردیا گیاہے۔ یہ مذہبی حکومت اور اسلامی جمہوریہ کا لیبل ساتھ رکھتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں نماز سے منع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ قانون نے آزادی دی ہے۔ کیوں اپنی ذاتی رائے کو قانون پر برتری دیتے ہو؟
انہوں نے مزید کہا: ہم کہتے ہیں آئین میں کچھ ایسی شقیں ہیں جن کی وجہ سے ملک بند گلی میں جاچکاہے،جب تک ان کی اصلاح نہیں ہوگی، ملک میں حالات نارمل نہیں ہوسکتے، لیکن تم اسی قانون کو بھی نافذ نہیں کیا ہے۔ کس قانون کے تحت تم کسی مسلک، سوچ اور مکتب فکر کی آزادیوں پر قدغن لگاتے ہو؟ ہم یہودیوں، عیسائیوں، پارسیوں اور دیگر مذاہب کو عبادت سے منع نہیں کرستے ہیں۔ ہر شخص اپنے عقائد میں آزاد ہے۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: نماز سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتاہے۔ نماز سے منع کرنا تنگ نظری ہے۔ جذبہ خیرخواہی کے ساتھ کہتاہوں کہ گزشتہ چوالیس سالوں میں ملک کا سب سے اہم مسئلہ تنگ نظری رہاہے۔ امور ایسے لوگوں کے سپرد ہوئے ہیں جن کی سوچ محدود ہے اور وہ برداشت کی قوت سے محروم ہیں؛ لوگوں کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں۔ اہل سنت کو پارکوں اور سڑکوں پر نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے؛ لیکن اب وہ بند کمروں میں چھپ کر نماز پڑھتے ہیں اور پھر کچھ حکام انہیں تنگ کرتے ہیں کہ تم نے نماز کیوں پڑھی؟! جو لوگ نماز پڑھتے ہیں، ان کے ہاتھ چوم لیں۔

ایرانی قوم نے بارہا آئین کی اصلاح کا مطالبہ پیش کیا ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: موجودہ آئین تقریبا نصف صدی قبل بنایاگیاہے جس میں کچھ کمزوریاں ہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں کچھ عرصے کے بعد قوانین میں تبدیلی لاتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں آئین اور داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاتی ہے۔ حالانکہ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کی ترمیم کا مطالبہ عوام نے بارہا پیش کیا ہے۔
انہوں نے کہا: عوام کے اکثر مطالبات برحق ہیں؛ کہیں ان کا مطالبہ ناحق ہے، تو انہیں مطمئن کریں۔ امتیازی سلوک، تنگ نظری اور انتہاپسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا جبری اعتراف لینا اور پھانسی دینا اسلام سے متعلق ہیں؟ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ جو لوگ ملک میں بہت ساری پھانسیوں کے پیچھے ہیں انہیں قیامت کے دن جوابدہ ہونا پڑے گا۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: اگر ملک میں معتدل اسلام نافذ ہوتا سو سال بعد بھی یہاں کوئی عوامی احتجاج نہ ہوتا۔ سب خوش ہوتے اور اپنے جائز حقوق حاصل کرتے۔ ملک خوشحال ہوتا اور دنیا کے دیگر ملکوں سے دشمنی کم ترین حد کو پہنچ جاتی۔

کون یقین کرسکتاہے سکیورٹی ادارے زہریلی گیس سے طالبات پر حملے کرنے والوں کا سراغ لگانے سے عاجز ہیں؟
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ایران کے مختلف سکولوں میں طالبات پر زہریلی گیس حملوں کے نہ رکنے والے سلسلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: افسوس ہے کہ سرکاری سکولوں میں طالبات پر گیس حملے شدت اختیار کرچکے ہیں اور ملک میں ایک بڑی بدامنی پھیل چکی ہے۔ عوام حیران ہیں کہ ملک میں اتنے مقتدر سکیورٹی ادارے موجود ہیں اور جگہ جگہ کیمرے لگائے گئے ہیں یہاں تک کہ ایک ذمہ دار نے کہا تھا دوپٹہ اتارنے والی خواتین کو کیمرہ سے شناخت کرکے چالان کریں گے، اب یہی حساس ادارے ان چوروں کا پتہ نہیں لگاسکتے جو سکولوں میں زہریلی گیس سے حملے کرتے ہیں اور لوگوں کی بیٹیوں کو جو ان کی آنکھوں کے نور اور جگرگوشے ہیں زہر سے نشانہ بناتے ہیں؟!
انہوں نے مزید کہا: کون مانتاہے کہ ہمارا ملک جو سکیورٹی، جاسوسی اور انٹیلی جنس سرگرمیوں میں دنیا کے بہت سارے ملکوں سے آگے ہے، وہ کیسے کئی مہینوں سے جاری گیس حملوں کی حقیقت معلوم کرنے سے عاجز ہے؟وزارتخانے اور بڑے بڑے ادارے جو امن کے سلسلے میں ذمہ دار ہیں، کیسے ان زہریلے حملوں میں ملوث افراد کا پتہ نہیں لگاسکتے ہیں؟ لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کا خیال ہے ان حملوں میں ملوث افراد کا تعلق سسٹم سے ہے جیسا کہ ایک ہی دن میں کئی سکولوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ان حملوں میں کوئی بھی ملوث ہو، چاہے ملک کے اندر ہو یا باہر، اس کا سراغ لگاکر پوری قوت سے اسے روکاجائے؛ یہ ایک قومی مطالبہ ہے۔

رمضان اور قرآن؛ اللہ کی خاص رحمتیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں رمضان اور قرآن پاک کو اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتیں یاد کرتے ہوئے ان نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فیض اٹھانے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا: قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی تعلیمات حکمت سے بھری ہوئی ہیں اور انسان کی کامیابی کا راز قرآن پر عمل کرنے میں ہے۔ اس میں تحریف و تبدیلی کا امکان نہیں ہے اور قیامت تک یہ بہترین راہ اور ذریعہ ہدایت ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: پورا رمضان برکتوں اور رحمتوں سے مالامال ہے، لیکن سب سے زیادہ عشرہ اخیر میں اللہ کی خاص رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ اس عشرے میں آپ ﷺ مزید عبادت کے لیے محنت فرماتے اور پوری رات عبادت میں گزارتے، گھروالوں کو بھی جگاتے اور عبادت کی ترغیب دیتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا رنگین دسترخوان ہے جو بندوں کے سامنے رکھا گیا ہے۔ اس سے غافل ہونا بڑی محرومی ہے۔ رمضان کے دیگر ایام میں اگر سستی ہوئی ہے، کم از کم باقی ماندہ ایام میں کوشش کریں اور ہمت سے کام لیں۔ قدر کی راتوں کی قدر کریں اور اس سنہری موقع سے خوب فائدہ اٹھائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں