جس دین میں زبردستی ہو، اس کی کوئی قیمت نہیں

جس دین میں زبردستی ہو، اس کی کوئی قیمت نہیں

مولانا عبدالحمید نے اپنے درس قرآن میں لوگوں کو زور زبردستی سے دیندار بنانے کے سنگین نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے علما، حکام اور اصحابِ اقتدار کو اس طریقے سے سخت منع کیا۔
سنی آن لائن نے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، ممتاز عالم دین نے اپنے چھبیس مارچ کے درس میں کہا: یہ انتہائی غلط سوچ ہے کہ لوگوں کو زبردستی سے دین کے احکام پر عمل کرنے کا پابند بنایا جائے۔جس دین میں زور زبرستی ہو، اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ تلوار کی نوک پر لوگوں کو دین قبول کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ زبردستی کرکے کسی کو جنت لے جانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ حق واضح ہونا چاہیے؛ جو چاہے عمل کرے جو چاہے نہ مانے۔
جامع مسجد مکی میں درس قرآن دیتے ہوئے انہوں نے کہا: حکومتیں اور علما و داعیانِ دین ایسا رویہ اختیار نہ کریں کہ لوگ دین سے بھاگ کر متنفر ہوجائیں۔ ایک مرتبہ کچھ مہمان میرے گھر آئے۔ ان میں ایک دوپٹہ پہنی ہوئی خاتون تھی۔ انہوں نے کہا میں پردے کے خلاف نہیں ہوں، لیکن حکام ہمارے مسائل اور مطالبات پر توجہ نہیں دیتے ہیں اور زبردستی ہمیں پردہ کرنے کا حکم دیتے ہیں،میں بعض اوقات جان بوجھ کر پردہ اتاردیتی ہوں تاکہ اس طرح ‘سول نافرمانی’ کا مظاہرہ کروں۔اگر حکام میرے مطالبات مان لیتے، میں ان کے کہنے پر دوپٹہ اپنی جگہ، چادر بھی پہن لیتی۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: حکام عوام کی باتیں سن لیں اور ان کے مطالبات پر توجہ دیں، پھر عوام بھی خوشی سے حکام کی باتوں پر توجہ دیں گے۔زبردستی کرنے سے کام نہیں بنے گا، اخلاق، محبت اور درست برتاؤ اہم اور موثر ہے۔ اقتدار کو بھی زورِ بازو پر بچانا ممکن نہیں ہے، بلکہ عوام کی خدمت، ان سے محبت کرنے اور نیکی کرنے سے اقتدار کو طول دینا ممکن ہے۔نبی کریم ﷺ اور صحابہ و اہل بیتؓ چودہ صدی پہلے اس دنیا میں رہتے تھے، لیکن ان کی محبت آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں ہے۔
انہوں نے کہا اگر حکام اور علما اصلاح ہوجائیں، پورا معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔

کسی حکومت یا تنظیم کو قیدیوں سے جبری اعتراف لینے کا حق نہیں پہنچتا
جامعہ دارالعلوم زاہدان کے صدر و شیخ الحدیث نے اگلے دن اپنے درسِ قرآن میں قیدیوں پر تشدد اور ان سے جبری اعتراف لینے کو اسلام اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے کہا پوری ایرانی قوم کا مطالبہ ہے جبری اعتراف اور تشدد کا سلسلہ بند کیا جائے۔
ایک آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: قرآن نے فرعون کو میخوں والا یاد کیا ہے جو لوگوں پر تشدد کرکے ان کی بے عزتی کرتا۔ شریعت نے قیدیوں پر تشدد کرنے سے منع کیا ہے۔ کسی بھی حکومت اور تنظیم کو اسلام اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے جبری اعتراف لینے کا حق نہیں پہنچتاہے۔
انہوں نے کہا: جبری اعتراف کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ہمارے اسی شہر میں ایسا ہوا ہے کہ کچھ افراد کو قتل کے جرم ماننے پر مجبور کیا گیا، انہوں نے اعتراف کیا اور کریکی بھی کی، پھر سپریم کورٹ نے سزا معطل کی اور بعد میں واضح ہوا کہ ملزم اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھا۔
ایران کے ممتاز عالم دین نے امید ظاہر کی کہ ہمارے ملک سے قیدیوں اور اسیروں کی بے عزتی اور تشدد کا سلسلہ ختم ہوجائے۔ یہ سب ایرانیوں کا مطالبہ ہے؛ یہاں کوئی اجنبی نہیں ہے، ایرانی قوم اس ملک کے اصل مالک ہیں۔ لوگ جبری اعتراف کو نہیں مانتے ہیں۔ تشدد کا خاتمہ ہونا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں