مولانا عبدالحمید:

ہم اسلامی سیاست پر یقین رکھتے ہیں ‘سیاسی اسلام’ پر نہیں

ہم اسلامی سیاست پر یقین رکھتے ہیں ‘سیاسی اسلام’ پر نہیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے چوبیس فروری دوہزار تئیس کے بیان میں ‘سیاسی اسلام’ اور ‘اسلامی سیاست’ میں فرق رکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے اسلامی سیاست کی ترجیح واضح کرتے ہوئے کہا حکمران کا انتخاب عوام کا حق ہے۔
زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: اسلام اور سیاست کے تعلق کے بارے میں ماضی سے دو نظریے موجود رہے ہیں؛ ـ‘اسلامی سیاست’ اور ‘سیاسی اسلام’۔ سیاسی اسلام کا مطلب ہے کہ اسلام ایک سیاسی دین ہے۔ دین سیاست کے تابع ہے؛ جو سیاست کا تقاضا ہووہی دین ہے۔
انہوں نے مزید کہا: انقلاب کے ابتدائی دنوں تہران کے ایک خطیب نے اسلام کی سرحدوں اور اس کا فریم ورک بیان کیا جس سے خارج نہیں ہونا چاہے۔ بانی انقلاب اور سابق مرشدِ اعلیٰ نے کہا جو سیاست کا تقاضا ہو، وہی اسلام ہے۔ یہ وہی فہم ہے جو دین کو سیاسی مفادات کے تابع بناتاہے۔

اسلامی سیاست کے مطابق حکمران کو عوام انتخاب کرتے ہیں خدا نہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اسلامی سیاست پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا: اسلامی سیاست جو ہمارا فہم ہے، سیاست کو دین کا تابع بتاتی ہے؛ سیاست دین کے فریم ورک سے خارج نہیں ہوسکتی ہے۔ جس امر دین نے منع کیا ہے، سیاسی مقاصد کی خاطر وہ جائز نہیں ہوسکتاہے۔ اس کا مطلب ہے دین سیاسی نہیں ہے، بلکہ سیاست دینی ہے اور دین کے تابع ہونا چاہیے۔ سیاست دین کا ایک شعبہ ہے اور جس چیز کو دین نے حرام قراردیاہے، حکمران اس میں مداخلت نہیں کرسکتے ہیں۔حکمران چاہے ابوبکر صدیقؓ ہو یا عمر فاروقؓ یا علی مرتضیٰؓ یا کوئی بھی حکومتی عہدیدار جس کا نام صدر یا کچھ اور رکھاجائے، اسلامی سیاست کے مطابق وہ شریعت سے ایک مشت بھی آگے نہیں جاسکتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہر ایک کا فہمِ اسلام مختلف ہے؛ لیکن ہماری رائے میں سیاست کو اسلامی حدود اور دائرے میں رہنی چاہیے۔ پارلیمنٹ جو مقننہ ہے اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کو چاہیے دین اسلام کے فریم ورک میں اپنا کام کریں؛ اگر ان کے فیصلے ذرہ برابر شریعت کے خلاف ہوں، ان کا نفاذ نہیں ہونا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اسلامی سیاست کا فہم موجودہ دور کی ڈیموکریسی سے بڑی حد تک قریب ہے۔ اسلامی سیاست کے مطابق عوام جو چاہیں اور جس کو چاہیں اپنا حکمران چن سکتے ہیں، اور حکمران کو خدا متعین نہیں فرماتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار عوام کو دیاہے اور جس فرد پر عوام اتفاق کریں، حکمران وہی ہے۔

ہمارا فہم اسلام انسانی حقوق پر زور دیتاہے
شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: جو فہمِ اسلام آپ کے سامنے تذکرہ ہوا، ملزموں کے احترام اور حقوق پر زور دیتاہے۔ اس کے مطابق، پوچھ گچھ کرنے والا ملزموں کی توہین نہیں کرسکتا، اس پر دباؤ دال کر جبری اعتراف نہیں لے سکتاہے۔ اس میں عدلیہ خودمختار ہے اور کسی کی خواہش پر فیصلہ نہیں سناتی ہے۔وہ صرف حق کی تابع ہے۔ جج کو حکمران تقرر کرتے ہیں، لیکن وہ حکمران کا تابعدار نہیں ہے۔اسلامی سیاست کے مطابق، جج پوری طرح آزاد ہے اور مسلمانوں کے خلیفہ کو بھی پیشی کے لیے بلاسکتاہے؛ جیسا کہ قاضی شْریح نے حضرت علیؓ کو عدالت بلایا، حالانکہ آپؓ امیرالمومنین تھے اور جج کو برطرف کرسکتے تھے، لیکن آپؓ ایک یہودی کے دعوے پر عدالت میں حاضر ہوئے اور اپنے دو گواہ پیش کیے۔ قاضی نے ایک گواہ کو مسترد کیا، ایک کو مان لیا۔ لہذا یہودی کیس جیت گیا۔ آج کی جمہوریت میں کہاں ایسی آزادی مل سکتی ہے۔
انہوں نے صدر اسلام اور حضرت داؤد اور سلیمان ؑ کے بعض واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: بہت سارے مسائل میں ہم جمہوریت اور انسانی حقوق کے منشور سے بھی آگے ہیں۔ہمارا فہمِ اسلام انسانی حقوق کو تسلیم کرتاہے اور موجودہ دور کے انسانی حقوق سے جزوی اختلاف کرتاہے۔ جب حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ حق مہر نہ بڑھایاجائے، ایک بوڑھی عورت نے اٹھ کر احتجاج کیا کہ تم کس حق کی بنا پر خواتین کے حق مہر میں مداخلت کرتے ہو؟! مہر باہمی اتفاق سے طے ہوتاہے۔سیدنا عمرؓ نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولے، کاش عمر اس بوڑھی عورت کی حد تک سمجھ لیتا۔ وہ سچ کہتی ہے۔ یہ جمہوریت اور آزادی ہے کہ ایک خاتون ملک کی سب سے اہم شخصیت کے سامنے کھڑی ہوکر بات کرے، اور حکمران بھی اس کی بات مان لے۔ ملک کا سکون عدل و انصاف میں ہے۔ ملک کا امن و سکون انصاف کے نفاذ اور پھیلانے اور عوام کی آواز سننے سے یقینی ہوتاہے۔

اپنے اور اپنی اولاد کے لیے دولت اکٹھی نہ کریں
خطیب زاہدان نے کہا: دیانتدار حکمران اور عہدیدار وہی ہے جو اپنے اختیارات سے دولت اکٹھی کرنے کی کوشش نہیں کرتا تاکہ اپنا یا اپنی اولاد کا مستقبل روشن بنائے۔ہمارے ملک میں ‘صاحبزادوں’ کا بڑا چرچا ہے اور ان صاحبزادوں نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ کامیاب حکمران وہی ہے جو حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت محمد رسول اللہﷺ کی طرح خود بھوکے رہے، لیکن عوام کو سیر کرکے دنیا سے گئے۔

عوام روٹی اور گوشت خریدنے بھی عاجز ہوچکے ہیں
مولانا عبدالحمید نے ملک کے معاشی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے موجودہ معاشی بحران کو ‘غلط داخلہ و خارجہ پالیسیوں’ کا نتیجہ یاد کرتے ہوئے کہا: آج ملک میں عوام سخت معاشی دباؤ میں ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑدی ہے۔ کرنسی کی قیمت گرتی ہی جارہی ہے۔ لوگوں کی دولت تباہ ہوچکی ہے۔ جس نے کوئی سامان بیچاہے، اب اسے دوبارہ خریدنے سے عاجز ہے۔ عام ملازمین بشمول مسلح اداروں کے اہلکار بھی مشکلات سے دوچار ہیں اور اپنے بچوں اور اہل خانہ کو مطمئن نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا: ایران ایک امیر ملک ہے جس کے خزانے تاریخ میں ہمیشہ بھرے رہے ہیں، اب ایسا کیوں ہے؟ لوگ ایک کلو گوشت خریدنے کے لیے پانچ لاکھ تومان ادا کرتے ہیں۔ لوگ نان شبینہ کے محتاج بن چکے ہیں اور روٹی خریدنا بھی بعض لوگوں کے لیے مشکل ہوتاجارہاہے۔ ان سب مسائل کی جڑ سیاسی امور میں ہے۔ جب پالیسیاں ٹھیک نہیں ہیں اور بہت سارے ممالک سے تعلقات خراب ہیں، نتیجہ یہی ہوتاہے جو دیکھ رہے ہیں۔
ممتاز عالم دین نے کہا: تمہیں مان لینا چاہیے کہ تمہاری پالیسیوں پر تنقید کی گنجائش ہے۔ ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں؛ خیرخواہی سے بات کرتے ہیں۔ ہمیں بڑا دکھ ہوتاہے کہ لوگ زندگی کی ضروری اشیاء خریدنے سے عاجز ہیں۔ پتہ نہیں آگے کیا ہوگا۔ اب کروڑوں کی قدر گرچکی ہے اور وہ صرف کاغذ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسی وجہ سے لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں۔ عام لوگوں کو کیا ملتاہے؟ شاید ایک شخص کو اقتدار مل جائے، لیکن عام شہری اقتدار کے لیے نہیں زندگی کے دباؤ سے تنگ آکر احتجاج کررہے ہیں۔ بعض دوکاندار سامان نہیں بیچتے کہ پھر خریدنے سے عاجز ہوتے ہیں۔ معیشت کی بیماری کی جڑ سیاست میں پیوست ہے۔ جب سیاسی مسائل حل ہوں گے، معیشت بھی ٹھیک ہوجائے گی۔

قوم کے سامنے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کریں
عوام کی خدمت نہیں کرسکتے ہو، تو دوسروں کو موقع دو
ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے مزید کہا: حکومت چلانا فراخدلی اور بلند نگاہوں سے ممکن ہے۔ جب تک ماضی کی غلطیوں کا اعتراف نہ کریں، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بانی انقلاب کا قول ہے جنہوں نے حکمرانوں کو کہا تھا عوام کی خدمت کرو، نہیں کرسکتے ہو، تو دوسروں کو خدمت کا موقع دو۔ عوام کو جیلوں میں ڈالنے کے بجائے، انہیں رہا کریں، ان کی بات سنیں اور ناقدین کی باتوں پر توجہ دیں۔
انہوں نے مزید کہا: یہ دنیا میں عام سی بات ہے کہ جب کوئی حکمران اپنا کام نہ کرسکے، استعفا دے کر علیحدہ ہوجاتاہے۔ لیکن ہمارے ملک میں حکمران سائیڈ پکڑ کر دوسروں کو خدمت کا موقع دینے سے نابلد ہیں۔ کم از کم عوام کی بات سنیں اور حالات ٹھیک کریں۔ ملک ایک سنگین ڈیڈلاک سے دوچار ہونے والا اور اس کا حل بہت ضروری ہے۔

ایرانی قوم کے مفادات کو ترجیح دیں
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: پوری دنیا میں ہر ملک کی پہلی ترجیح اپنی ہی قوم کے مفادات ہیں۔ اپنی قوم کے مفادات دنیا کی تمام اقوام کے مفادات پر مقدم ہے۔ حکمران قومی مفادات کو ترجیح دیں۔ ایران قوم کو دنیا کی دیگر اقوام پر ترجیح دیں۔اس قوم کو بھوک سے مرنے نہ دیں۔ اسے کرپشن اور فساد سے بچائیں۔ غربت سے فساد پیدا ہوتاہے۔ اپنی قوم کو گداگری اور سوال پر مجبور نہ کریں۔ دیگر ملکوں میں کیا ہوا، انہیں چھوڑدیں اور جو کچھ ہے اپنے ہی ملک اور قوم پر خرچ کریں۔سب سے پہلے یہ قوم غربت اور فساد سے نجات پانے کا مستحق ہے۔

ایک اہلکار سو افراد کا قتل اور تین سو کو زخمی نہیں کرسکتاہے
مولانا عبدالحمید نے زاہدان کے خونین جمعہ کے بارے میں ایک اعلیٰ صوبائی عہدیدار کے اعتراف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: گزشتہ ہفتہ ایک اعلیٰ صوبائی عہدیدار نے پہلی بار زاہدان کے خونین جمعہ (تیس ستمبر دوہزار بائیس) کے حوالے سے ایسی باتیں کہی ہے جو اس سے قبل ہم نے ان کی زبانی نہیں سنی؛ انہوں نے اس واقعے کو ‘سانحہ’ یاد کرتے ہوئے یہاں پیش آنے والے ‘ظلم’ کا اعتراف کرکے قتل ہونے والوں کو شہید کہا ہے۔ یہ ایک مثبت قدم ہے، لیکن کاش یہ باتیں شروع ہی میں کہی جاتیں۔ ہمارے لیے حقیقت کا عیاں ہونا ضروری ہے۔ اس سے بڑھ کر ہم کچھ نہیں مانگتے کہ حکام حقیقت کو مان لیں۔
انہوں نے کہا: سابق عیدگاہ پر جہاں جمعے کی نماز پڑھی جاتی ہے چاروں طرف سے فائرنگ ہوئی اور لوگ عیدگاہ کے اندر اور باہر مارے گئے۔ ایک سو کے قریب افراد شہید اور لگ بھگ تین سو افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ زخمیوں میں اسی افراد ابھی تک زیرِ علاج ہیں۔ ان میں سترہ افراد جزوی طورپر یا پوری طرح نابینا ہوچکے ہیں۔ کم از کم سترہ بچے شہید ہوئے ہیں۔ اس دن زخمی ہونے والی ایک خاتون گزشتہ دنوں شہید ہوئیں جن کا نام ‘زربی بی اسماعیل زہی’ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: یہ انتہائی المناک اور تلخ سانحہ تھا۔ میں آپ سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ آپ نے صبر سے کام لیا۔ ہم نے کہا صبر کریں تاکہ حقیقت واضح ہوجائے۔کہاگیا ایک اہلکار کی غلطی سے یہ سانحہ پیش آیا؛ ہم یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ایک اہلکار سو افراد کو مارے، تین سو کو زخمی کرے۔ اتنی بڑی تعداد کے لوگوں کو مارنے کا حکم کہیں اور سے آیاہے۔ لوگوں کو مارنے والے بھی کئی لوگ تھے۔ہمیں توقع تھی عوام کو شہید کرنے والے اہلکاروں کو اسی عیدگاہ کے سامنے پھانسی دی جائے؛ علوی عدل و انصاف کا تقاضا یہی تھا۔
انہوں نے مزید کہا: ہم سب کے لیے پہلی ترجیح قومی مفادات ہیں؛ ہم صرف زاہدان یا بلوچستان کے مفادات کے لیے نہیں سوچتے ہیں۔ حکام پورے ملک کے مسائل حل کرائیں تاکہ امن و سکون لوگوں میں قائم ہو اور وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔ قوم کا مسئلہ حل کریں۔ میں نے ہمیشہ صدور مملکت سے جب بات کی ہے، تو سب سے پہلے پوری قوم کے مفادات پر زور دیاہے۔ انتخابات میں بھی ہماری پہلی شرط قوم کے مفادات رہی ہے۔

ابراہیم ریکی کی پراسرار موت کی تحقیقات کرکے عوام کو حقائق بتائیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں بدھ بائیس فروری کو احتجاج کرنے والے شہری ‘ابراہیم ریکی’ کی مشکوک موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ابراہیم ریکی پراسرار اور مشکوک طرز پر بدھ کو قتل ہوئے۔ متعلقہ حکام سے چاہتے ہیں کہ اس کیس کی تحقیق کرکے عوام کو حقائق سے مطلع کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں