ملک کی اعلیٰ قیادت ماہر سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے

ملک کی اعلیٰ قیادت ماہر سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اعلی سیاسی عہدوں پر ‘فوجیوں اور عسکری شخصیات’ کی موجودی پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے ملک کی اعلی قیادت اور اہم عہدوں پر ماہر سیاستدان کا فائز ہونا ضروری ہے۔
مولانا عبدالحمید نے دس فروری دوہزار تئیس کو زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی انقلاب کی سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: انیس سو اناسی کے انقلاب میں مختلف طبقوں اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی امید، خوشی اور تمناؤں کے ساتھ میدان میں آئے تھے۔ انقلاب سے جتنے دور ہوئے، مزید پختگی اور تجربے حاصل کرنے سے حالات بہتر ہونے کے بجائے رکاوٹیں بڑھتی ہی گئیں۔ جو انقلاب کے شروع میں ساتھ تھے، جاتے جاتے الگ ہوئے یا انہیں الگ کردیا گیا۔

خواتین دوسرے درجے کے شہری، اہل سنت تیسرے درجے کے شہری بن گئے
ممتاز سنی عالم دین نے مزید کہا: انقلاب کے بعد کئی سالوں تک اس طرح کے معاشی مسائل نہیں تھے، لیکن جتنا آگے بڑھے، معاشی مسائل بڑھتے گئے اور حلقے تنگ ہوتے گئے۔ بندہ نے بارہا وارننگ دی کہ سرکلز تنگ نہ کریں، انہیں وسیع رکھیں اور افراد کو ساتھ رکھیں۔ ہر طبقے کو شامل ہونے دیں، لیکن جتنا انقلاب کی عمر میں اضافہ ہوا، مزید تجربے حاصل کرنے کے بجائے دائرہ تنگ ہوتا گیا۔
انہوں نے امتیازی رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ان سالوں میں امتیازی سلوک اور عدم مساوات میں اضافہ ہوا۔ در اصل خواتین پہلے درجے کے شہری نہیں، بلکہ دوسرے کے شہری بن گئیں۔ اہل سنت سمیت دیگر مسالک اور قومیتی گروہ سخت امتیازی سلوک کا نشانہ بن گئے۔ ہم سنی اچھی طرح جانتے ہیں اس دوران ہم پر کیا قیامت گزری ہے۔ بارہا پکارا گیا کہ کاش کم از کم ہم دوسرے درجے کے شہری ہوتے، لیکن ہم تیسرے اور اس سے بھی آگے درجے کے شہری ہیں۔ حکام ہمیں پہلے درجے کے شہری بتاتے، لیکن عملی طورپر ایسا نہیں تھا۔ باتیں ہوتی تھیں، لیکن عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ کوئی گورنر نہ کوئی وزیر۔

اہل سنت کے خلاف امتیازی سلوک کے پیچھے کیا پالیسی ہے؟
ایران کی سنی برادری کی سب سے زیادہ بااثر شخصیت نے کہا: سنی اکثریت صوبوں میں یہ مسئلہ اتنا شدید رہا ہے کہ اب تک کوئی بھی سنی شہری ان صوبوں کی سکیورٹی کونسلوں میں رکن نہیں رہا ہے۔ سکیورٹی کونسل پورے صوبے کے امن اور سکیورٹی کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے۔ صوبہ سیستان بلوچستان سمیت کسی بھی سنی اکثریت صوبے میں اب تک ایک سنی رکن بھی اس کونسل میں شریک نہیں رہاہے۔
انہوں نے مزید کہا: جب ہم یہ اعداد و شمار پیش کرتے ہیں، سامنے والے بعض ضلعی گورنرز اور تحصیلوں کے ذمہ داروں کی تعداد پیش کرتے ہیں، لیکن وہ صوبے کے دارالحکومت کی اعداد و شمار پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں جہاں صوبے کے فیصلہ ساز ادارے ہوتے ہیں۔ یہاں بعض محکموں میں تین سو چارسو ملازمین سے صرف پندرہ بیس افراد اہل سنت کے ہیں، حالانکہ آبادی کی اکثریت اہل سنت کی ہے۔ محکمہ تعلیم میں امتیازی سلوک عروج پر ہے اور اس ادارے سے ہمیشہ شکایت رہی ہے۔ تعلیم کا محکمہ کسی بھی سماج کی ترقی کی اساس ہے جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، لیکن اس بارے میں ہمیشہ تشویش موجود رہی ہے، بلکہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ شکایتیں ہوئیں، لیکن کوئی سننے والا نہیں ملا۔ دیگر صوبوں کا بھی یہی حال ہے، سوال یہ ہے کہ اس رویے کے پیچھے کیا پالیسی کارساز رہی ہے؟

ہر دور میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے
مولانا عبدالحمید نے خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے بارے میں کہا: خواتین اس ملک کے باشندے اور شہری ہیں اور انہیں شہری حقوق حاصل ہیں۔ جو مقام انہیں معاشرے میں حاصل ہونا چاہیے تھا اور جو توجہ ان پر ہونی چاہیے تھی، وہ نہیں ہوا ہے۔ یہ اب کی بات نہیں، اس سے پہلے بھی بندہ بارہا ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ اصلاح پسندوں کے دور میں بھی ہم نے فریاد لگائی اور مذاکرے بھی کیے کہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک اسلام کے خلاف ہے۔ جب ریاست اسلام کے نام پر ہے، اس میں مساوات اور برابر کے حقوق سب کو ملنا چاہیے۔

قومی مسائل ہماری ترجیح ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: قومیتی اورمسلکی مسائل پر ہم زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری ترجیح قومی مسائل ہیں جن کا تعلق پوری ایرانی قوم سے ہے۔ سب ایرانی اس ملک کے شہری اور آپس میں بہن بھائی ہیں۔ ہم سب مذہبی، مسلکی اور لسانی اقلیتیں ایک ہیں۔ ہمارے لیے شیعہ و سنی نہیں ہے۔ حکام شیعہ سنی اختلافات کے بارے میں تشویش نہ رکھیں۔ آج ہم ایک ہیں اور متحد ہیں۔ ہم سب ایران کے شہری ہیں۔ سب ایرانی برابر کے حقوق چاہتے ہیں۔ ہم پوری قوم کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ہم ایران اور ایرانی قوم کی عزت اور سربلندی چاہتے ہیں۔

قوم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ان مسائل حل نہیں ہوں گے
مولانا عبدالحمید نے ایران کے معاشی حالات کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: قوم اس بارے میں مایوس ہوچکی ہے کہ ان کے حالات بہتر ہوجائیں۔ ملکی سطح پر جو احتجاج ہورہے ہیں، اسی لیے ہیں۔ قوم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔ ایک ڈالر کی قدر کیوں پینتالیس ہزار تومان ہو؟ بہت سارے ایرانی شہری جو بیرونِ ملک کاروبار کرتے ہیں، وہ مقروض ہوچکے ہیں اور اپنے قرضے ادا نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جب ڈالر بیس تیس ہزار تومان تھا، انہوں نے سامان خریدا ہے، اب جب پیسہ دینے کا وقت آیاہے، ڈالر پینتالیس ہزار تومان کو پہنچاہے، وہ اس کی قیمت ادا کرنے سے عاجز ہیں۔ عوام کے لیے بہت سارے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور جذبہ خیرخواہی کے تحت بات کرتے ہیں۔ ہم ایران کی عزت چاہتے ہیں اور اس ملک کے سرحدی حدود کی حفاظت پر زور دیتے ہیں۔

فوجی اپنے کام سے کام رکھیں؛ ملک کو سیاستدان چلائیں
خطیب زاہدان نے عسکری قوتوں کو اپنے اصل میدان میں واپس جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا: اب ملک کی تقدیر اکثر عسکری قوتوں کے پاس ہے۔ بہت سارے جرنیل سیاسی عہدوں پر قابض ہیں۔ ہمیں فوجیوں اور عسکری شخصیات سے محبت ہے، وہ ہمارے فرزند ہیں، لیکن ان کے کام کا دائرہ کچھ اور ہے؛ انہیں ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور امن قائم کرنے کے میدان چلے جانا چاہیے۔ سیاستدانوں کا کام ملک چلانا ہے۔ ملک کے سیاسی عہدوں پر سیاستدانوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ وہ ماہرین جو عملی سیاست کے ماہر ہیں، ملک کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: ملک کے اندر کتنے ہی ماہرین اور متخصصین ہیں، اس سے زیادہ ملک سے باہر ایرانی ماہرین ہیں۔ ملک سے باہر بہترین ڈاکٹرز، جامعات کے اساتذہ و پروفیسرز اور ماہرین رہتے ہیں۔ ملک کو ان کی ضرورت ہے اور یہی لوگ ملک کو خوشحال کرسکتے ہیں۔لیکن سب نے ملک چھوڑدیا ہے، چونکہ یہاں انہیں کوئی امید نہیں تھی۔ کمزور بیورکریٹس اور ارکان پارلیمنٹ کے سلیکشن نے ملک کو مسائل سے دوچار کردیا ہے، اور اسی درد کو قوم پکار رہی ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہم جب کہتے ہیں قوم کی آواز سنیں، ہمارا مطلب یہی ہے۔ دیکھیں قوم کا درد کیا ہے۔

سب سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے
مولانا عبدالحمید نے بعض سیاسی قیدیوں کی رہائی کو ’مثبت اقدام’ یاد کرتے ہوئے کہا: ہم سب اور پوری قوم کا مطالبہ یہی چلاآرہاہے کہ سب سیاسی قیدیوں اور حالیہ احتجاجوں میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ حکومت نے کچھ قیدیوں کو رہا کیاہے اور ہم اس اقدام کو مثبت سمجھتے ہیں؛ یہ میری ذاتی رائے ہے اور میں مثبت کاموں کو مثبت ہی سمجھتاہوں۔
انہوں نے مزید کہا: اچھا ہوا کہ کچھ قیدی رہا ہوئے، لیکن توقع یہی ہے کہ دیگر سیاسی قیدی بھی رہا ہوجائیں۔ جیلوں میں کوئی سیاسی کارکن باقی نہ رہے۔ حالیہ واقعات کے تمام قیدیوں کو رہاکریں۔ ہم تمہاری بھلائی چاہتے ہیں اور اسی لیے کہتے ہیں عوام کے ساتھ بیٹھ کریں ان سے بات کریں اورقوم جو مسائل سے دوچار ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ بحرانوں نے اس کا گھیرا تنگ کیا ہے، اس کی بات سنیں۔ اکثریت کی پیروی کریں اور اس کے مطالبات کو مان لیں۔ کریک ڈاؤن اور جیل میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دباؤ ڈالنے اور قید کرنے سے خاطرخواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا، چونکہ مسئلہ اپنی جگہ باقی ہے۔ نتائج سے مقابلہ کرنے کے بجائے، اصل اسباب کی طرف توجہ دیں۔

ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی فکر نہ کریں، ملک کے بحرانوں کو حل کرائیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے واضح کرتے ہوئے کہا: ہم سب ایرانی ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اور جس جانب سے کسی کا نقصان ہو، وہ ہمارا ہی نقصان ہے۔ ہم بات چیت اور گفتگو کے ذریعے درست راستے پر چل سکتے ہیں جو قوم کی اکثریت اور خواتین و حضرات کا مطالبہ ہو۔ اکثریت کے مطالبات کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ملکی مسائل کو عوام سے پوچھ کر حل کرائیں۔ یہ مسائل قابلِ حل ہیں۔ موجود مسائل کو سمجھ لیں اور پھر انہیں حل کرائیں۔ ان شاء اللہ ایک روشن مستقبل درپیش ہے، دیگر مسائل پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لسانی اور مسلکی اختلافات اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے بے فکر رہیں، بلکہ آپ ان مسائل اور بحرانوں پر توجہ دیں جو فی الحال موجود ہیں۔ ہمیں امید ہے اللہ تعالیٰ ان مسائل کو حل کرائے گا اور ہمیں اچھی خبریں سننے کو ملیں گی۔

خوی، ترکی اور شام کے زلزلہ متاثرین کی مدد کریں
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخری حصہ میں ایران کے صوبہ آزربائیجان کے ضلع خوی اور ترکی و شام کے زلزلہ متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ترکی اور شام کے زلزلے نے دنیا کو ہلا دیا۔ اس زلزلے نے قیامت کا منظر پیش کردیا۔ اب تک بیس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، اور شاید ہزاروں افراد اب بھی ملبوں کے تلے محبوس ہیں جن کے زندہ رہنے کی زیادہ امید نہیں ہے۔ بہت سخت حالات ہیں۔ بڑے بڑے شہر اور عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔ سخت سردی ہے اور ان حالات میں ہمیں دعا کرنے اور رونے کے ساتھ ساتھ، ان کی ہر ممکن مدد کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: عالمی برادری اس مصیبت میں متاثرین کی خدمت میں مصروف ہے، لیکن حادثہ اتنا عظیم ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے سب مسلمان جہاں بھی ہوں زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے آجائیں اور اپنی انسانی ذمہ داری پوری کریں۔
ممتاز عالم دین نے ایرانی عوام، بلوچستان اور زاہدان کے باشندوں سے بھی درخواست کی زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے ہمت کریں۔ محسنین ٹرسٹ جو دارالعلوم زاہدان کی نگرانی میں کام کرتاہے، عوامی عطیات اور تعاون اکٹھے کرکے متاثرین تک پہنچائے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں