اسی اور نوے سال کے بوڑھے نوجوانوں کے لیے فیصلے نہیں کرسکتے ہیں

اسی اور نوے سال کے بوڑھے نوجوانوں کے لیے فیصلے نہیں کرسکتے ہیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے بیس جنوری دوہزار تئیس کے خطبہ جمعہ میں نئے حالات کے مطابق ایرانی آئین کی اصلاح کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا اسی اور نوے سال کے لوگ نوجوان طبقہ کے لیے فیصلے نہیں کرسکتے ہیں۔
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ہم اطلاعات کی دنیا میں رہتے ہیں؛ پہلے کہا جاتا تھا دنیا ایک بستی کی مانند ہے، لیکن اب دنیا ایک گھر کی طرح ہے اور خبریں لمحے میں پہنچتی ہیں۔آج کے نوجوان، خواتین اور بچے ان حالات میں رہتے ہیں اور انہیں توقع ہے حکومتیں ان حالات کو مدنظر رکھیں۔ ایک نوجوان اس آدمی سے کافی مختلف ہے جو ستر، اسی اور نوے سال قبل کا ہے۔ یہ بوڑھے لوگ نوجوانوں کے لیے فیصلے نہیں کرسکتے ہیں، مگروہ لوگ جو نوجوانوں کی توقعات سے مطلع اور آگاہ ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: دنیا میں ہر ملک کے آئین میں ستائیس یا اٹھائیس سال بعد نظرثانی ہوتی ہے۔ نئی نسل کے حالات، حاجتیں اور تقاضے کافی مختلف ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہمارے آئین کے اصلی نکات وہی ہیں جو چوالیس سال پہلے منظور ہوچکے ہیں۔ اس قانون کو حالات کے تقاضوں کے پیش نظر اپڈیٹ کرنا چاہیے۔ اعلیٰ حکام، فیصلہ کن ادارے اور پارلیمنٹ نئے حالات کو سامنے رکھیں۔ جو حکام اسلام نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اگر وہ موجودہ زمانہ اور اس کے تقاضوں کو مدنظر نہ رکھیں، وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔ اسلام اور قرآن کی اعلیٰ ظرفی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی سیرت ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔

خواتین کو تعلیم سے روکنا کسی بھی حکومت کے لیے مناسب نہیں ہے
مولانا عبدالحمید نے کہا: خواتین و مرد حضرات ایک ہی جنس کے افراد ہیں، صرف ان کے نوع میں فرق ہے۔خواتین اور مردوں کی طبیعت اور فطرت میں حکمت کے مطابق فرق ہے اور دونوں حقوق میں برابر ہیں۔ خواتین کے حقوق اور احترام کا خیال رکھنا چاہیے۔ انسانی معاشرے اور حکومتوں کو چاہیے خواتین کے مسائل پر مزید توجہ دیں۔ تعلیم میں زن و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے۔ عصری تعلیم ہو یا دینی تعلیم، دونوں خواتین کے لیے ضروری ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے خواتین اور مردوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی فضا قائم کریں۔ کسی بھی حکومت یا سیاسی نظام کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ خواتین یا مردوں کو تعلیم سے روک دے۔ یہ موجودہ دور کی ضروریات میں شامل ہیں۔ موجودہ دور کے تقاضوں اور نوجوانوں، خواتین اور بچوں کو پانے کی ضرورت ہے۔

آزادی، برابری اور انصاف قوم کے مطالبات ہیں
انہوں نے نوجوانوں پر تشدد اور انہیں پھانسی دینے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تنقید کرتے ہوئے کہا: نوجوانوں پر رحم کرکے انہیں افسردہ نہ بنائیں۔نوجوان زندگی اور مستقبل کی امید سے مالامال ہیں اور اپنے مستقبل کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ ان نوجوانوں کو مطمئن کرکے ان کے مطالبات پورے کریں۔ انہیں جیلوں میں نہ ڈالیں۔ بچوں اور خواتین پر رحم کریں؛ ان کے ساتھ بات چیت کرکے ان کی درست باتوں کو مان لیں؛ اگر غلط بات ہے تو انہیں مطمئن کریں، لیکن بے رحمی سے انہیں تشدد اور پھانسی کی نذر نہ کریں۔ نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں پر رحم کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کے مطابق جو آج کل کے مسلمانوں کی حیات میں ناپید ہے، اخلاقی مسائل کا خیال رکھیں جس کا کافی مثبت اثر ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام اور نبی کریم ﷺ کی سیرت میں نابرابری نہیں ہے۔ آپﷺ کی سیرت مبارکہ انصاف اور مساوات پر مبنی ہے۔ پوری دنیا کی تہذیبوں میں کسی بھی حکومت کے لیے بہترین اقتدار آزادی، برابری اور نفاذ عدل ہے۔ یہ قوم کے مطالبات ہیں۔ ہر شخص کو اپنے مذہب، طریقہ اور عقاید میں آزادی حاصل ہونی چاہیے؛ دوسروں کو تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہر شخص کو اپنے اپنے طریقے پر خدا کی عبادت کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔ یہ آزادی بہت اہم ہے۔

تعلیم حاصل کرنے میں خواتین سب سے آگے ہیں
مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ کا انعقاد ہورہاہے۔ ایک صاحب نے مجھے اطلاع دی کہ ٹیسٹ میں شرکت کرنے والوں میں چالیس فیصد مرد اور ساٹھ فیصد خواتین ہیں۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے خواتین حصولِ علم میں سب سے آگے ہیں۔ امتحانات کے نتائج جب آتے ہیں تو اسی طرح وہ مرد حضرات سے آگے ہیں۔ دونوں میں استعداد ہے، لیکن خواتین زیادہ محنت کرتی ہیں۔ لہذا سب کو چاہیے ان پر زیادہ توجہ دیں۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: انٹری ٹیسٹ سے بات ہوئی تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نوجوانوں کو یونیورسٹی جاکر تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ وہ طلبہ جو جیلوں میں بند ہیں یا انہیں معطل کیا گیا ہے، انہیں علم حاصل کرنے دیں۔ ان کا راستہ بند نہ کریں۔ سب نوجوانوں کو چاہیے تعلیم حاصل کریں۔ آیندہ اس شخص اور گروہ کے لیے ہے جو علم کے زیور سے آراستہ ہو؛ چاہے دینی علم ہو یا عصری اور دنیاوی۔ یہ سب انسان کی ضرورتیں ہیں۔

ملک کی پس ماندگی کی وجہ پولیس گردی کی فضا ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے زاہدان شہر اور اس کے مضافات میں سکیورٹی حکام کی جانب سے چیک پوسٹوں کی تعداد چند گنا بڑھانے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا: حالیہ دنوں شہر میں پولیس گردی کی فضا قائم ہوئی ہے اور سات چیک پوانٹس کو پندرہ بنادیاگیا ہے۔ سب شہریوں کا تقاضا ہے کہ شہر کی فضا کو خوف آلود نہ بنائی جائے۔ ہمارے صوبے اور پورے ملک کی پس ماندگی کی وجہ پولیس گردی کی فضا ہے۔ یہ ترقی کے خلاف ہے؛ ایسی جگہوں پر کوئی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہے جو ترقی کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا: ماضی میں لوگ مختلف انتخابات میں حصہ لیتے تھے تاکہ خوف و ہراس کی فضا ختم ہوجائے،لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا، اور اب یہ حالات مزیدہ کشیدہ ہوئے ہیں۔ لوگ خود امن کی پاسداری کرتے ہیں اور امن کی حراست کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ زندگی کو نارمل بنانے کے لیے خوف و ہراس اور پولیس گردی کی فضا ختم کرنی چاہیے۔ شہر آنے جانے میں بہت سختی ہوتی ہے اور امید ہے ان چیک پوسٹوں کو ختم کیاجائے گا۔

خونین جمعہ کا ایک اور زخمی اپنے شہید ساتھیوں سے جاملا
نامور عالم دین نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: منصور ہرمزی جو زاہدان کے خونین جمعہ کے زخمیوں میں تھے اور اب تک اسپتال میں کومے کی حالت میں زیرِ علاج تھے شہید ہوکر اپنے ساتھیوں سے جاملے۔دعا کریں اللہ تعالیٰ اس شہید اور دیگر شہدا کے درجات کو بلند فرمائے۔ ابھی تک بعض زخمیوں کی حالت نازک ہے اور وہ اپنی جانیں گنوادیتے ہیں۔ ان شہیدوں کو مظلومانہ اور بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا؛ ان کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے آخری حصہ میں کہا: احتجاج کے دوران گالی دینا اور توہین کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ کسی متعین شخص کے لیے موت کی تمنا کرنا اور نعرہ لگانا نبی کریم ﷺ کی سیرت اور ہمارے اخلاق کے خلاف ہے۔ یہ ہماری ثقافت کے خلاف ہے۔ احتجاجوں میں اپنے مطالبات کو مثبت انداز میں پیش کریں، لیکن کسی کے لیے موت نہ کہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں