تیس ستمبر دوہزار بائیس ایران کے لیے بطور عام اور ایرانی بلوچستان اور پوری سنی برادری کے لیے بطورِ خاص ناقابلِ فراموش دن ہے۔ شاید اردو پڑھنے والی دنیا کے لیے یہ دن ابھی تک صیغہ راز میں ہو؛ سو اس دن کے المناک واقعے پر روشنی ڈالنے کے بعد اب تک حاصل ہونے والے نتائج کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔
تیس ستمبر سے چند دن قبل تہران میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ مہسا امینی نامی نوجوان خاتون کو اخلاقی پولیس نے ’نامناسب پردہ‘اوڑھنےکے الزام میں گرفتار کرکے ’ارشاد و نصیحت‘ کے لیے اپنے ایک مرکز میں لے گئی۔ اسی دوران نامعلوم وجوہ کی بنا پر انہیں چوٹیں آئیں اورچند دن کومے میں رہنے کے بعد بالاخر وہ اسپتال میں دورانِ علاج فوت ہوگئیں۔ اس واقعے سے پورے ملک میں عوامی جذبات سخت مجروح ہوئے اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے افراد سے صدائے احتجاج بلند کیا۔ یہ احتجاج ابھی تک جاری ہے اور سکیورٹی اہلکاروں، بچوں اور خواتین سمیت کم از کم پانچ سو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ ایرانی بلوچستان کے ساحلی شہر چابہار سے خبریں گردش کررہی تھیں کہ ایک پولیس افسر نے ماہو بلوچ نامی نوجوان اور کم سن خاتون کو تفتیش کے لیے اپنے دفتر بلایا ہے جہاں مبینہ طورپر ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ یہ الزام ثابت ہی نہیں ہوا تھا کہ خبر جنگل کی آگ کی طرح بلوچستان میں پھیل گئی اور شدید عوامی غم و غصہ پیدا ہوا۔ ایسے حالات میں تیس ستمبر سے پہلے کچھ بیرون ملک رہنےوالے سیاسی کارکنوں نے احتجاج کی کال دی۔ جمعہ کی نماز معمول کے مطابق ادا ہوئی اور لوگ رازی سٹریٹ میں واقع سابق عیدگاہ (جامع مسجد مکی زیرِ تعمیر ہونے کی وجہ سے فی الحال عیدگاہ میں جمعے کی نماز قائم ہوتی ہے) سے نکل رہے تھے کہ کچھ نوجوانوں نے احتجاج شروع کیا۔ جب ان کی تعداد قدرے بڑھ گئی، وہ عیدگاہ سے قریب واقع پولیس سٹیشن کی جانب بڑھ گئے جہاں انہوں نے پولیس کے خلاف نعرے لگائے اور ملزم افسر کی گرفتاری اور قرارِ واقعی سزا کا مطالبہ کیا۔ ابھی وہ تھانہ سے چند میٹر دور ہی تھے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ شروع ہوئی۔ یہ فائرنگ صرف تھانہ سے نہیں تھی، بلکہ چاروں طرف سے گھات لگائے اسنائپرز اور مسلح اہلکاروں نے نہتے شہریوں پر فائر کھولی۔ پھر کیا ہوا کہ ایک دم آس پاس قیامت کا منظر پیش ہونے لگا۔ کئی بچوں اور ایک بوڑھی خاتون سمیت درجنوں افراد سڑک پر یا عیدگاہ کے اندرونی حصہ میں شہید اور تین سو کے قریب زخمی ہوئے۔ عصر کی نماز تک شہدا اور زخمیوں کو بڑی مشکل سے لوگ اسپتال منتقل کرتے رہے اور بعض کو جامعہ دارالعلوم زاہدان لایا گیا۔ عصر کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے جامع مسجد مکی اور دارالعلوم زاہدان کا محاصرہ کیا اور وہاں اکٹھے ہونے والے نوجوانوں سمیت مسجد اور جامعہ کی عمارت پر فائر کھول دی۔ یہاں بھی کئی افراد شہید یا زخمی ہوئے۔ اسی دوران پورے شہر میں جھڑپیں پیش آئیں اور سڑکوں کو بلاک کرنے والوں کے علاوہ متعدد دیگر افراد بھی شہید و زخمی ہوئے۔سرکاری حکام نے کم از کم چھ سکیورٹی فورسز کی موت کی تصدیق کی۔
اس المناک دن کو ’خونین جمعہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتاہے جس کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ جامع مسجد مکی کے خطیب نے مزید وضاحت کے ساتھ عوامی مطالبات پیش کیے جس میں اہل سنت کے مسائل کے علاوہ پوری ایرانی قوم کے مسائل بھی شامل ہیں۔ اس بھیانک حادثے نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں اور سب کو پتہ چلا بلوچستان کن حالات سے گزرتا چلا آرہاہے۔ اہل سنت کے علاوہ، دیگر مسالک اور مذاہب کے پیروکاروں نے بھی ہمدردی کا اظہار کیا اور ایک قسم کا اتحاد پیدا ہوا۔ کردوں نے بلوچوں کے حق میں آواز بلند کی اور بلوچوں نے کردوں سمیت دیگر ایرانیوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں کئی رپورٹس اس بارے میں شائع ہوئیں، تاہم پاکستانی میڈیا میں اس واقعے کو زیادہ کوریج نہیں دیا گیا۔
مہسا امینی کی موت کے بعد بعض خواتین نے دوپٹہ اتار کر پردہ نذرِ آتش کردیا۔ لیکن اس واقعے کے بعد کئی افراد پھر دین کی طرف متوجہ ہوئے۔ کُرد اکثریت علاقوں میں نوجوان طبقہ جو اس سے قبل علما پر سخت تنقید کرتا تھا، علما کے واضح موقف کے بعد اور حکومتی پالیسیوں پر بیک صدا احتجاج کرنے کے بعد دین کی طرف راغب ہوئے۔ انہوں نے مسجدوں کا رخ کرنا شروع کیا اور بعض شہروں میں نوے فیصد نوجوان پھر نمازی بن گئے۔ زاہدان سمیت پورے بلوچستان سے یہی خبریں آرہی ہیں کہ نمازیوں کی تعداد مسجدوں میں بڑھ چکی ہے اور سٹریٹ کرائمز کی شرح میں کافی کمی آئی ہے۔
سرکاری میڈیا میں تو جامع مسجد مکی کے خطیب شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کے خطبوں اور بیانات کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری تھا، لیکن غیرملکی ذرائع ابلاغ اور غیرسرکاری اخبارات اور ویب سائٹس میں ان کے بیانات کو کافی کوریج دیا جاتاہے۔ ان کا خطبہ جمعہ جس کا اکثر حصہ اب حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ ہے، براہ راست ان کے سوشل میڈیا پیجز سے نشر ہوتاہے جسے بیک وقت ہزاروں افراد دیکھتے ہیں۔بعض سیٹلائٹ ٹی وی چینلز بھی ان بیانات کو براہ راست نشر کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان بیانات پر تبصروں اور ٹاک شوز کی توجہ کا سلسلہ شروع ہوتاہے۔ اب ہزاروں ایرانی جمعے کے انتظار میں ہیں تاکہ مولانا عبدالحمید کے بیانات سن کر اپنے دلوں کو تسکین دیں۔اس سے بہت سارے ایرانی شہریوں کے افکار و خیالات میں اہل سنت کے بارے میں تبدیلی آئی ہے اور عوامی مطالبات کو حکام کے سامنے رکھنے سے سنی علمائے کرام کی عزت افزائی ہورہی ہے۔
دریں اثنا ایران کے مختلف علاقوں، خاص کر سیستان بلوچستان سے ہزاروں علمائے کرام، دانشور حضرات، قبائلی عمائدین اور عام شہریوں نے جامع مسجد مکی آکر مولانا عبدالحمید اور زاہدانی عوام سے یکجہتی اور ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ سب کا مطالبہ ہے نہتے نمازیوں اور شہریوں کو قتل عام کرنے والوں کو گرفتار کرکے پھانسی کی سزا دی جائے اور ذمہ دار حکام جوابدہ ہوں۔کئی مرتبہ شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی ہوئی ہے جو ایرانی بلوچستان میں عام روایت نہیں ہے۔ یہاں سڑکوں پر احتجاج کرنا بھی عام نہیں تھا، لیکن خونین جمعہ نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ تمام تر احتجاجوں کے باوجود اب تک کوئی خاطرخواہ نتیجہ سامنے نہیں آیاہے۔ بلکہ شروع میں صوبائی حکام نے پولیس تھانہ پر ’دہشت گرد‘ حملے کا دعویٰ کرکے عوام کے زخموں پر نمک لگایا اور مسئلہ مزید گھمبیر ہوگیا۔ اس تاریخ کے بعد اب تک ہر نماز جمعہ کے بعد عوامی احتجاج جاری ہے۔ بلکہ خاش میں ایک جمعہ کو نمازیوں پر سکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کرکے کم از کم پندرہ افراد کو شہید کردیا۔ یہ احتجاج اس حال میں ہورہے ہیں کہ علما کی طرف سے بوجوہ باقاعدہ احتجاج کی کال نہیں دی جاتی ہے اور گرفتاریوں اور زخمی ہونے کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے اگر علمائے کرام باقاعدہ احتجاج یا ہڑتال کی کال دیں، پورا صوبہ احتجاج کی لپیٹ میں جائے گا۔
تقریبا چار ماہ اس چونکادینے والے واقعے سے گزرچکے ہیں، ابھی تک صوبائی اور دارالحکومت میں بیٹھے حکام نے کھل کر اس واقعے کی مذمت نہیں کی ہے۔ صرف گورنر اور بعض صوبائی حکام کی جگہ نئے افسران متعین ہوئے ہیں۔ حکومت کے سرکاری میڈیا ذرائع مولانا عبدالحمید کی کردارکشی میں مصروف ہیں اور ان کے واشگاف الفاظ کو برداشت کرنا ان کے لیے سخت ہوتاجارہاہے۔ اتنے طویل عرصے کے بعدابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ نہتے نمازیوں کو کیوں اس بے دردی سے خون میں نہلایا گیا؟ آخر ان کا قصور کیا تھا؟ کیا ان کے قاتل اسی ملک کے باشندے تھے؟ وہ آخر اتنے بے رحم کیسے ہوئے؟ مگر اتنا ضرور واضح ہے کہ یہ واقعہ پہلے سے طے شدہ پلاننگ کے مطابق ہوا؛ معلوم نہیں اس کے پیچھے خفیہ ہاتھ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے اور وہ کس قدر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ آنے والے دنوں میں بہت کچھ معلوم ہوجائے گا اور قوی امید ہے کہ شہدا کا خون رائیگان نہیں جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
آپ کی رائے